کورونا وائرس کا دوسرا چہرہ

دنیا بھر میں آنے والی مثبت تبدیلیاں، انسان دوست رویے

دنیا بھر میں آنے والی مثبت تبدیلیاں، انسان دوست رویے

خالد روحانی 24 سال کا ایک نوجوان ہے، جو اپنے کمرے میں کمپیوٹر اسکرین کے سامنا بیٹھا انتہائی بددلی کے ساتھ کبھی سرچنگ کرنا شروع کردیتا ہے اور کبھی فیس بک میسینجر کھول کر آن لائن موجود کسی یوزر کے ساتھ چیٹنگ میں مصروف ہوجاتا ہے۔ جب فضول کی چیٹنگ سے بھی اُس کا دل بھر جاتا ہے تو کمپیوٹر پر آن لائن گیم کھیلنے لگتا ہے لیکن اَب وہ کمپیوٹر استعمال کر کر کے کچھ تھک سا گیا ہے کیوں کہ وہ مسلسل چار روز سے صرف کمپیوٹر ہی تو استعمال کررہا ہے، کیوںکہ شہر بھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد مکمل لاک ڈاؤن ہے اور کسی بھی شخص کو بغیر کسی ضروری حاجت کے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ویسے ضرورت تو خالد روحانی کو بھی ایک دوا کی بہت زیادہ ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ قُم شہر میں کسی بھی میڈیکل اسٹور یا اسپتال میں وہ دوا دست یاب نہیں ہے، جو اُسے درکار ہے۔

حالاں کہ وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ یہ دوا اُس کی عمررسیدہ اور بیمار والدہ کی زندگی کو بچانے کے لیے کس قدر ضروری ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ وہ ہزار کوشش کے باوجود بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ شہر کے ہول ناک حالات اُس کے سامنے ہیں اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کا نہ ختم ہونے والا رش ہے اور سڑکوں پر نادیدہ وائرس کے خوف کا مکمل راج ہے۔

ایسے میں وہ کیا کرے اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ افسوس تو یہ ہے کہ اگر چند دنوں تک مزید اُس کی ماں کو مطلوبہ دوا نہیں دی گئی تو وہ بے چاری کورونا وائرس کے بجائے اپنی دل کی بیماری کے ہاتھوں جان کی بازی ہار جائے گی۔ ابھی وہ اِسی قسم کے گنجلک خیالات کے سمند ر میں اِدھر اُدھر غوطے کھارہا تھا کہ اچانک سے اُس کے مسینجر میں کراچی پاکستان سے محمد سرفراز نام کا اجنبی لڑکا چیٹ کے لیے آن لائن آگیا۔ وہ اُس سے پوچھ رہا تھا کہ ایران میں کورونا وائرس کی وبا پھیل جانے کے بعد کس قسم کے حالات ہیں؟ سوال اسکرین پر نظر آنے کی دیر تھی کہ خالد روحانی نے قُم شہر کی کسمپرسی کی ساری روداد اُسے لکھنا شروع کردی۔ جس پر سرفراز نے اپنے دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اُسے لکھا کہ ''اگر اُسے کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتا دے، میں مہیا کرنے کی کوشش کروں گا کیوںکہ کراچی میں فی الحال حالات اتنے زیادہ ناگفتہ نہیں ہیں کہ کوئی چیز دست یاب نہ ہوسکے۔''

''اگر ممکن ہو تو آپ مجھے یہ دوا فوری طور ی بھجوا دیں، میری والدہ کو اِس کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے شہر میں یہ دوا دست یاب بھی نہیں ہے۔'' خالد روحانی نے مختصر سا پیغام لکھ کر انٹر کا بٹن دبا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی سرفراز کا جوابی میسیج موصول ہوا کہ ''وہ جلد ہی اُس کی مطلوبہ دوا تیزترین انٹرنیشنل کوریئر سروس کے ذریعے بھجوا دے گا ، وہ بالکل بھی فکر نہ کرے۔''

خالد روحانی کو سرفراز کا جوابی پیغام پڑھ کر یقین تو نہ آیا کہ کیا ایسا بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ لیکن تین دن بعد اچانک ایک بین الاقوامی کوریئر کمپنی کا نمائندہ اُس کے دروازے پر موجود تھا اور اُس کے ہاتھ میں اُس کے لیے محمد سرفراز کی طرف سے بھیجا گیا ایک بہت بڑا پارسل بھی تھا۔ خالد روحانی نے پارسل وصول کرنے کے بعد کھولا تو اُس کی خوشی کے مارے کوئی انتہا نہ رہی کیوںکہ اُس پارسل میں ایک ماہ کی مطلوبہ دوا کے علاوہ بھی اور بہت کچھ ایسا سامان موجود تھا جس کی اُسے لاک ڈاؤن کے آنے والے مشکل ترین ایام میں ضرورت پیش آ سکتی تھی۔

یہ سچی کہانی خالد روحانی اور محمد سرفراز جیسے اُن ہزاروں افراد کی ہے جو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دنیا بھر میں پھیل جانے کے بعد بھی ایک دوسرے کی امداد کرنے کے نت نئے اچھوتے راستے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ بھلے ہی کورونا وائرس نے نزدیک کے تمام رابطے ختم کروادیے ہیں لیکن بہت سے دُوردراز کے لوگوں کو عالمی انسانی ہم دردی کے نام پر ایک دوسرے کے اتنا قریب کردیا ہے کہ اُخوت و ایثار کی ہزاروں نئی نئی کہانیاں روزانہ جنم لے رہی ہیں۔ عالمی ہم دردی و انسانی ایثار کے یہ نئے رشتے بلاشبہہ کورونا وائرس کے بہت سارے دردناک اور تاریک پہلوؤں میں سے اپنی روشن جھلک دکھاتا ایک درخشاں پہلو ہے۔ یعنی کورونا وائرس کی عالمی ہلاکت خیزی اپنی جگہ لیکن اِس وبا نے بنی نوع انسان کو اپنا ایک دوسرا بہروپ بھی دکھایا ہے۔ ایسی کہانیوں میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں پیش ِ خدمت ہے۔

کورونا وائرس نے مصر اور ایتھوپیا کی متوقع جنگ روک دی

کورونا وائرس نے جہاں دنیا کے چلتے ہوئے نظام زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کردیا ہے وہیں اَب یہ خبر آرہی ہے کہ اِس وائرس کی وجہ سے مصر اور ایتھوپیا بھی اپنے ایک پرانے تنازعے پر جنگ کے بہت قریب پہنچ کر اچانک ہی رُک گئے ہیں اور افریقی عوام کو اُمید ہو چلی ہے کہ دریائے نیل پر ڈیم کی تعمیر پر شروع ہونے والے تنازعے کے کسی پُرامن حل پر پہنچنے سے کئی ماہ سے شمالی افریقہ پر چھائے یقینی جنگ کے بادل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹ سکتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے والی تفصیلات کے مطابق ایتھوپیا دریائے نیل پر دنیا کے چند بڑے ڈیموں میں سے ایک ڈیم تعمیر کر رہا ہے، جس کا نام ''گریٹ رینیسانس ڈیم'' ہے۔ ایتھوپیا کے مطابق دریائے نیل پر ڈیم کی تعمیر سے ملک میں معاشی ترقی، غربت کا خاتمہ اور علاقائی سالمیت کو فروغ ملے گا جب کہ اس ڈیم پر مصر کا اعتراض ہے کہ ڈیم میں پانی بھرنے سے دریائے نیل میں ان کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔

دریائے نیل پر بننے والے ڈیم کی تعمیر 2021 تک مکمل ہونے کی توقع ہے اور یہ افریقہ کا سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن اور دنیا کے چند بڑے ڈیموں میں سے ایک ہو گا۔ مصر کو خدشہ ہے کہ اس ڈیم سے ایتھوپیا دریائے نیل پر مکمل اختیار حاصل کر لے گا کیوںکہ یہ ڈیم اونچائی پر واقع ہوگا اور اس سے پانی کے بہاؤ کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق قابو کیا جا سکے گا۔ تاہم ایتھوپیا کا موقف یہ ہے کہ اُن کے تعمیر کردہ ڈیم کا مقصد دریائے نیل پر اختیار حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کے پانی کو صرف توانائی کے شعبے میں استعمال کرنا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایتھوپیا کے لیے یہ ڈیم قومی فخر کی علامت بن چکا ہے اور ڈیم کی تعمیر کا 80 فی صد کام مکمل بھی کر لیا گیا ہے۔

لہٰذا ایک ماہ پہلے مصر نے ایتھوپیا کو باقاعدہ جنگ کی دھمکی دی تھی جس کے بعد ایتھوپیا نے بھی جنگ کی تیاریاں شروع کردیں اور قریب تھا کہ آپ گذشتہ چند دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ کی خبریں بھی ملاحظہ کرلیتے لیکن پھر کورونا وائرس کی عالمی وبا نے شمالی افریقہ میں ایک یقینی جنگ کو فی الحال ٹال دیا ہے اور دونوں ممالک ڈیم کے مسئلے پر پڑوسی ممالک کی مداخلت سے درپردہ مذاکرات میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اگر یہ دونوں ممالک کسی اَمن معاہدہ پر پہنچتے ہیں تو افریقہ میں یقینی جنگ بندی کا تمام تر سہرا کورونا وائر س کے سر جائے گا۔ ایسا ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ عام رائے افریقہ میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کی ہے۔

کورونا وائرس سے وینس کی نہریں صاف شفاف ہوگئیں

تاریخی اور خوب صورت مقامات کے باعث اٹلی کو یورپ میں اہم سیاحتی ملک بھی قرار دیا جاتا ہے جہاں 2018 میں چھ کروڑ سے زیادہ غیرملکی سیاح گھومنے پھرنے کے لیے آئے تھے۔ عالمی سیاحت کے میدان میں اٹلی کا پانچواں نمبر ہے، جب کہ وینس شہر کو اٹلی کی سیاحتی صنعت کے ماتھے کا جھومر سمجھا جاتا ہے۔ وینس اٹلی کے شمالی حصے کا ایک خوب صورت شہر ہے، جسے پانی کا شہر، پُلوں کا شہر، نہروں کا شہر، تیرتا ہوا شہر کے منفرد ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہاں لوگ حقیقی معنوں میں پانی پر گھر بناتے ہیں، لیکن سیاحتی سرگرمیوں کی وجہ سے وینس شہر کا قدرتی حسن یعنی شہر میں جال کی طرح بچھی ہوئی نہریں کئی برسوں سے بُری طرح سے آلودہ ہورہی تھیں۔ بظاہر وینس شہر کے نہری نظام کو آلودہ اور گدلا ہونے سے بچانے کے لیے اٹلی کی حکومت نے سیاحوں کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تھے۔

تاہم ان کا کچھ خاص فائدہ حاصل نہیں ہوسکا تھا اور وینس شہر کی نہریں اتنی زیادہ گدلی ہوچکی تھیں کہ اِن پر دلدل کا گمان ہونے لگا تھا۔ لیکن پھر رواں برس ماہ فروری کے اختتام پر اٹلی کورونا وائرس کی وبا سے شدید متاثر ہونے لگا، جس کے پھیلاؤ کو مزید روکنے کے لیے اٹلی نے پورے ملک کو قرنطینہ میں تبدیل کردیا۔ اٹلی میں ہونے والے سخت ترین لاک ڈاؤن سے وینس کی نہروں پر بڑے ہی مثبت اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں اور ان کا پانی بالکل صاف ہوگیا ہے۔ وینس کے بعض شہریوں نے سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں شیئر کیں ہیں جن میں وینس کی نہروں کا صاف شفاف پانی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ پانی اتنا شفاف ہوچکا ہے کہ اس میں تیرتی ہوئی مچھلیاں تک دکھائی دے رہی ہیں، جب کہ لاک ڈاؤن سے پہلے یہی پانی اتنا زیادہ گدلا تھا ہوچکا تھا کہ کبھی کبھی تو اِس سے بدبو بھی اُٹھنے لگتی تھی ۔ اٹلی میں مکمل لاک ڈاؤن کے باعث سیاحت سمیت تمام معمولات معطل ہیں جس کے وینس شہر کی خوب صورتی پر خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں جو بلاشبہہ دل چسپ اور حیرت انگیز ہیں۔

کورونا بونس

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کووڈ19 کی وبا کے اثرات کم رہے تو عالمی بے روزگاری میں 5.3 ملین کا اضافہ ہوگا لیکن اگر وبا کی شدت زیادہ رہی تو 24.3 ملین افراد بے روزگار ہوجائیں گے، جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے مطابق پاکستان میں تقریباً ساڑھے 9 لاکھ افراد اِس وبا کے باعث بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ عالمی بے روزگاری میں اضافہ ظاہر کرنے والے یہ اشاریے اپنی جگہ الارمنگ ہیں، لیکن دنیا میں بہت سے ادارے اور کمپنیاں اِس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

مثال کے طور پر دنیا کی سب سے بڑی اور مقبول ترین سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ''فیس بُک'' نے اپنے ہر مستقل اور کُل وقتی ملازم کو فی کس 1ہزار ڈالر یعنی ایک 1 لاکھ 60 ہزار پاکستانی روپے بطور ''کورونا بونس '' دینے کا اعلان کیا ہے، تاکہ اُس کے ملازمین پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ نہ صرف کورونا کی عالمی وبا کا مقابلہ کرسکیں بلکہ اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا اچھی طرح سے خیال بھی رکھ سکیں۔




مذکورہ بونس کورونا وائرس کی وجہ سے گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والے ملازمین سمیت دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی دیا جائے گا۔ اِس وقت فیس بک کے دنیا میں کل وقتی مستقل ملازمین کی تعداد 45 ہزار ہے۔ اس کے علاوہ فیس بک نے دنیا بھر کی چھوٹی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھی 10 کروڑ امریکی ڈالر کی رقم تقسیم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ فیس بک کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار میں مندی اور مشکلات کا شکار دنیا بھر کی 30 ہزار چھوٹی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل ویب سائٹس میں 10 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم تقسیم کی جائے گی، تاکہ یہ ادارے بھی موجودہ عالمی بحران میں اپنے اُن ملازمین کو بروقت تنخواہیں ادا کرسکیں جو اس وقت کسی بھی وجہ سے ملازمت پر نہیں آسکتے۔ مذکورہ رقم دنیا بھر کی ان تمام ویب سائٹس اور ٹیکنالوجی کمپنیز میں تقسیم کی جائے گی جن کا تعلق ان ممالک سے ہوگا جہاں فیس بک کام کرتی ہے۔ اِس روایت کی ہمارے ملک میں قائم نجی اداروں کو بھی کچھ تقلید ضرور کرنی چاہیے۔

ریکارڈ مدت میں ویکسین بنانے کا سنہری موقع

18 مارچ 2020 کو جنیفر ہیلر وہ پہلی خاتون رضاکار بن گئی ہیں جنہوں نے مکمل صحت یاب ہونے کے باوجود کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے لیے انجکشن لگوالیا ہے۔ اِس موقع پر جنیفر ہیلر کا کہنا تھا کہ ''اُنہیں بہت خوشی ہے کہ وہ دنیا بھر کے کورونا متاثرین کو ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے والے ایک اہم ترین تجربے کا باقاعدہ حصہ بن گئی ہیں۔'' اِس تجرباتی مرحلے میں 35 رضاکار شریک ہیں، جنہیں 28 دنوں میں دو انجکشن لگائے جائیں اور پھر اُن پر ویکسین کے طبی اثرات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا اِس ویکسین کو فوری طور پر دنیا بھر میں کورونا وائرس کے انسداد کے لیے استعمال کیا جائے یا نہیں؟ یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی وائرس کی ویکسین بنانے کے لیے جانوروں کے بجائے براہ راست صحت مند انسانوں پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کورونا وائرس کے عالم گیر پھیلاؤ نے سائنس دانوں کو مجبور کردیا کہ وہ جتنا جلد ہوسکے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرلیں تاکہ جلدازجلد انسانیت کو کورونا وائرس کا شکار بننے سے بچایا جاسکے۔ ذہن نشین رہے کہ عام طور پر ویکسین بنانے کے لیے وائرس کے کسی ایک ایسے کم زور حصے کو تلاش کیا جاتا ہے، جسے کسی صحت مند جسم میں داخل کردیا جائے تو جسم اس وائرس کے خلاف موثر مدافعتی نظام پیدا کرلے۔ آج تک تمام ویکسینز اِسی اُصول کے تحت تیار کی جاتی رہی ہیں لیکن طبی تاریخ میں پہلی مرتبہ کورونا وائرس کی ویکسین کو اصل وائر س کے کسی حصے کے بجائے جنیاتی مواد (آراین اے) کی مدد سے تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ کورونا وائرس کا وہی جنیاتی مواد ہے جس کا مکمل ڈیٹا چینی سائنس دانوں نے 10 جنوری 2020 کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا تھا تاکہ اِس کی مدد سے دنیا کی کوئی بھی سائنس لیبارٹری بغیر وائرس کی مدد کے ویکسین کی تیاری شروع کرسکے۔ اس وقت دنیا کی 35 تحقیقاتی ادارے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔ اگر یہ ویکسین رواں سال کے اختتام تک بھی تیار ہوجاتی ہے تو یہ اَب تک کی طبی تاریخ میں سب سے تیزرفتاری کے ساتھ بنائی جانے والی ویکسین ہوگی، کیوںکہ ویکسین بنانا انتہائی دقت طلب، صبرآزما اور مشکل ترین کام ہے جس کا اندازہ صرف اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے 40 سال کی سائنسی تگ و دو اور محنت شاقہ کے باجود بھی آج تک انسان ایڈز کی ویکسین نہیں بنا پایا ہے۔

کورونا وائرس اور بالکونی

کورونا وائرس سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک اٹلی ہے ، جہاں کورونا وائرس کے باعث اَب تک سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو اٹلی میں اِس وقت حقیقی معنوں میں قیامت صغریٰ برپا ہے۔ اٹلی کی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پورے اٹلی کو ہی قرنطینہ میں بدل دیا ہے۔ ویسے تو کورونا وائرس کا خوف پوری دنیا میں ہی سرایت کرگیا ہے لیکن اِس خوف کی جو کیفیت اٹلی میں موجود ہے اُس کا اندازہ کرپانا بھی شاید ہمارے لیے ممکن نہ ہو۔ کروڑوں لوگ اٹلی میں اپنے گھروں تک محدود ہیں، اس کے باجود کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم ہونے میں نہیں آرہا ہے اور اٹلی سے ہر روز کورونا وائرس کے متاثرہ کیسز سمیت ہلاکتوں میں اضافے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ خوف کی اِس فضا میں بھی اٹلی کے عوام موت کے نادیدہ حصار میں قید ہوکر زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور کورونا وائر س کے خوف کو شکست دینے کے لیے انہوں نے اپنے بالکونیوں کو آباد کرکے دنیا بھر کو پیغام دیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی زندگی کے آخری دم تک موت سے پنجہ آزمائی کرتے رہے گے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے گھروں تک محدود اٹلی کے عوام نے کورونا وائرس کے خوف کو شکست دینے اور اپنے زندہ رہنے کے جذبہ و ہمت کو استوار رکھنے کے لیے اپنے ہی گھروں کی بالکونی میں رہ کر موسیقی کے آلات بجانے، گیت گانے اور ایک دوسرے سے دوری کے باوجود اشاروں سے باتیں کرنے کے عمل کے باعث دنیا کو پیغام دیا ہے کہ کہ اگر وہ کسی مصیبت کا سامنا کرنے کی وجہ سے گھروں تک محدود ہیں تو کیا ہوا، ان کے جذبوں اور حوصلوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اٹلی کے مختلف شہروں کی ویڈیوز میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سنسان گلیوں کے باوجود لوگ گھروں کی بالکونی میں کھڑے ہو کر نہ صرف ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں بلکہ بہادری کے لوک گیت بھی گا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں اٹلی کے عوام کو جہاں ملک کا قومی ترانہ گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، وہیں کئی افراد نے اٹلی کے روایتی لوک و قومی گیت بھی گائے جب کہ کچھ افراد نے جدید میوزک کو بھی گایا۔ اٹلی کے مختلف شہروں میں گھروں تک محدود رہنے والے افراد کی جانب سے اپنے گھروں کی بالکونی میں ایک دوجے کا حوصلہ بڑھانے والی ویڈیوز کو دنیا بھر میں خوب سراہا جارہا ہے اور مشکل کی اِس گھڑی میں اٹلی کے عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔

عالمی ماحولیاتی آلودگی اور کورونا وائرس

اکثر و بیشتر ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ناول کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں دنیا بھر کی معیشت زبردست انداز میں گراوٹ کا شکار ہوئی ہے اور اَب تک لاکھوں چھوٹے بڑے کارخانے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں لیکن دوسری جانب اسی موذی کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی فضائی آلودگی میں بھی ڈرامائی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ معروف امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین سیٹلائٹ تصاویر میں یہ بات اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ حالیہ دنوں دنیا بھر میں فضائی آلودگی کی سطح ڈرامائی حد تک کم ہوچکی ہے، جس کی بنیادی وجہ کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں کا تیزی کے ساتھ ماند پڑ جانا ہے۔

سی این این کی تازہ رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں فضائی آلودگی کے چھوٹے ذرات میں 32 فی صد جب کہ بڑے ذرات میں 29 فیصد کمی ہوئی، اسی طرح نائٹروجن آکسائیڈ میں 22 فیصد کمی دیکھی گئی ہے، جب کہ امریکا میں صنعتیں، کارخانے اور ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار میں 50 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

ناسا کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ ہی عموماً سب سے زیادہ فضائی آلودگی کا سبب بنتی ہے اور اِس کا اخراج سب سے زیادہ گاڑیوں اور صنعتی یونٹس سے ہوتا ہے، لہٰذا دنیا کے بیشتر علاقوں میں ذرائع آمدورفت اور کاروباری سرگرمیوں کے مکمل طور پر معطل ہوجانے سے عالمی ماحولیاتی آلودگی میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر اس کمی کو انسانی صحت کے ذیل میں ہونے والے فوائد کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایک ملک چین میں ہی فضائی آلودگی میں کمی کے باعث، پچھلے دو مہینوں میں پانچ سال سے کم عمر کے 4000 بچوں اور 70 سال سے زائد عمر کے 73000 بزرگوں کی جانیں بچ چکی ہیں۔

انسانی زندگی کی یہ بچت اُس جانی نقصان سے کہیں زیادہ ہے جو کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک ہوچکا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق حیران کن طور پر پاکستان کے ماحول پر بھی کورونا وائرس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کراچی اور لاہور، جو دنیا کے10 آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے تھے اور جن کی آب و ہوا شہریوں کے لیے خطرے کا باعث سمجھی جاتی تھی، اَب یہ دونوں شہر خطرے کی حد سے نکل چکے ہیں۔ عالمی ریٹنگ کے ادارے کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس میں کراچی27 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔

یاد رہے کہ کراچی میں نومبر 2019 میں ائیر کوالٹی انتہائی غیرصحت مند تھی اور فضا میں آلودگی کی شرح 227 تھی تاہم اب کراچی کی ایئر کوالٹی معتدل سطح پر آگئی ہے۔ دوسری جانب لاہور کی ایئر کوالٹی میں بھی زبردست بہتری نظر آئی ہے اور لاہور دنیا بھر کے شہروں میں ایئر کوالٹی انڈیکس میں 50 ویں نمبر پر چلا گیا ہے اور اس وقت لاہور کی فضا میں آلودگی کی شرح صرف 53 فی صد ہے۔ اس بارے میں یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے ایک مختصر ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے ، جو آپ مندرجہ ذیل مختصر لنک سے ملاحظہ کرسکتے ہیں https://bit.ly/2QN3uXV یہ ویڈیو دیکھ کر بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماحولیاتی حوالے سے کورونا وائرس کی عالمی وبا ماحولیاتی آلودگی کے انسداد کے لیے کس قدر رحمت ثابت ہورہی ہے کیوںکہ ماحولیاتی ماہرین مختلف مطالعات سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ فضائی آلودگی ہماری دنیا کے فطری نظام کی سب سے بڑی قاتل ہے۔
Load Next Story