کرۂ ارض مرمت کے لیے بند ہے
قارئینِ کرام وائرس سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں
ٹی ایس ایلیٹT.S.Eliotنے اپنی ایک مشہور نظم میں کہاہے کہIn my beginng is my end,and in my end is my beginng. میری ابتدا ہی میں میرا خاتمہ اور میرے خاتمے ہی میں میری ابتداہے،کہتے ہیں کہ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ٹی ایس ایلیٹ بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
مشہور ہے کہ ایک عباسی خلیفہ نے ایک بہت خوبصورت محل تعمیر کروایا۔محل کی تعمیر مکمل ہونے پر خلیفہ بہت شاد ہوا۔اس نے منادی کروا دی کہ لوگ آئیں،اس محل کو دیکھیں اور اگر کوئی خامی،کوئی خرابی نظر آئے تو آگاہ کریں۔ لوگوں نے جوق در جوق پہنچ کر محل کو دیکھا۔جو بھی آتا محل کی خوبصورتی سے مبہوت ہوتا اور تعریف کرتے کرتے رخصت ہو جاتا۔ایک دن ایک آدمی آیا،سارے محل کو دیکھا اور کہا کہ اس محل میں دو بہت بڑی خرابیاں ہیں۔محل کے منتظم نے دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ چونکہ خلیفہ نے منادی کروائی ہے اس لیے اس محل کی خرابیاں بھی خلیفہ کو ہی بتاؤں گا۔خلیفہ کو اطلاع کی گئی تو خلیفہ بہت حیران ہوا کہ اتنے خوبصورت محل میں کسی نے کیسے دو خرابیاں ڈھونڈ لی ہیں۔
خلیفہ نے اس آدمی کو باریابی کی اجازت دی۔وہ آیا تو اس سے کہا کہ سنا ہے تم کہتے ہو کہ محل میں دو خرابیاں ہیں۔ اُس آدمی نے کہا جی آپ نے صحیح سنا ہے۔خلیفہ نے حکم دیا کہ خرابیاں بیان کرو۔اس آدمی نے کہا کہ محل میں دو بڑی خرابیاں ایسی ہیں جنھیں دور بھی نہیں کیا جا سکتا۔خلیفہ مزید متحیر ہوا۔اس آدمی نے کہا کہ پہلی خرابی تو یہ ہے کہ اس محل کو بنوانے والا اس میں ہمیشہ نہیں رہ سکے گا۔موت اس سے یہ محل چھین لے گی اور دوسری خرابی یہ ہے کہ یہ محل بھی ہمیشہ نہیں رہے گا اور ایک دن یہ بھی کھنڈر بن جائے گا یعنی نہ محل رہے گا اور نہ ہی اس کا مکین۔قارئینِ کرام یہی کل عالم کا مقدر ہے۔ہر تعمیر کے اندر تباہی اور ہر تباہی کے اندر تعمیر مضمر ہوتی ہے،مواقعے چھُپے ہوتے ہیں۔
موجودہ وبا نے ہر سُوخاموشی طاری کر دی ہے۔کیا موت کے سائے میں ہر چیز بے معنی ہو کر نہیں رہ گئی۔ ہوائی سفر پر مکمل پابندی ہے۔چاہے کسی کی کتنی ہی شدید ضرورت کیوں نہ ہو،دنیا کی تمام ایئر لائنز بند ہونے کی وجہ سے وہ ہوائی سفر نہیں کر سکتا۔تیزی سے بھاگتی،دوڑتی اور بدلتی دنیا کی تمام صنعت و حرفت موت کے مہیب سائے تلے بند پڑی ہے۔لوگوں کے اپنے گھروں میں محفوظ ہو جانے اور شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن سے کاروبار ماند پڑ گئے ہیں۔لاکھوں ،کروڑوں ملازمین بے روزگار یا اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے دفتر کا کام کر رہے ہیں۔فضا کو آلودہ کرنے والوں کو جان کے لالے کیا پڑے ہیں ہر طرف امن ہو گیا ہے۔دہشت گردی کا نام و نشان ہی نہیں رہا۔دنیا اب کبھی پہلے جیسی نہیں ہو گی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے موت کے شدید خوف نے کرۂ ارض کو نئی زندگی بخشی ہے۔ہم انسانوں نے زمین کا گلہ دبا رکھا تھا اور جس رفتار سے زمین کے وسائل کو بے دریغ استعمال میں لاتے ہوئے اس کی مٹی،اس کے پانی اور اس کی فضاء کو آلودہ کر رہے تھے ایسا نظر آتا تھا کہ زمین زندگی کو سہارا دینے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔ امریکی ٹون ٹاورtwin tower پر نائن الیون کے حملے کے بعدامریکا نے اپنی فضائی حدود فوری طور پر بند کر دی تھیں۔ امریکی حدود میں ہوا بازی تین دن تک معطل رہی جس کے نتیجے میں وہاں فضا اتنی صاف ہو گئی کہ ایک اسرائیلی سائنسی جریدے کی رپورٹ کے مطابق امریکا میںدرجہء حرارت روزانہ ایک ڈگری بڑھنا شروع ہو گیا۔
اب تو پچھلے چند ہفتوں سے فضائی ٹریفک روک دی گئی ہے۔ لوگ ڈر کر گھروں میں بند ہو گئے جس سے سڑکیں دفاتر اور کارخانے ویران ہونے شروع ہو گئے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بسیں،ٹرک اور کاریں غرضیکہ ہر قسم کی ٹرانسپورٹ میں کافی کمی ہو گئی۔ امریکی ریاست کیرولینا کی ایک یونیورسٹی میں ریسرچ سے یہ سامنے آیا ہے کہ کاربن مونو آکسائڈ کے عمومی لیول میں پچاس فیصد کمی واقع ہو گئی ہے ۔یاد رہے کاریں اور ٹرک سب سے زیادہ کاربن مونو آکسائڈ پیدا کرتے ہیں۔کاربن مونو آکسائڈمیں آکسیجن کا ایک مالیکیول کاربن کے مالیکیول سے مل کر مرکب بناتا ہے۔ کاربن مونو آکسائڈ کی فضا میں زیادہ مقدار انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔زہریلی گیسوں کے اخراج میں یہ کمی بہت خوش آئند ہے۔
کرۂ ارض پر صرف انسان ہی نہیں بستے اﷲ کی بے شمار دوسری مخلوقات خاص طور پر حیوانات و نباتات بھی یہیں رہتی ہیں۔ابھی پچھلی صدی کی ابتدا تک انسان اور جنگلی حیات ایک دوسرے کے قریب قریب رہ رہے تھے پھر ہمارے شہر اور قصبے پھیلنا شروع ہوئے۔ہم نے اپنا فضلہ اور کارخانوں کا سالڈ ویسٹ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے ندی نالوں اور شہر کے اندر مختلف جگہوں پر پھینکنا شروع کر دیا۔گاڑیوں کے شور اور انسانی ہلا گُلا سے جنگلی حیات و بناتات کوہم نے پیچھے دھکیل دیا،اب جب موت کا سامنا ہے اور انسان گھروں میں بند ہو گئے ہیں تو جنگلی حیات نے خلا پر کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایک شمالی ویلش قصبے میں پہاڑی بکروں نے گلیوں اور سڑکوں پر ڈیرے ڈال دئے،گھروں کے باہر سبز باڑ پر منہ مارتے اور گھروں کے لانوں میں جگالی کرتے دیکھے گئے۔ پاکستان میں تو آلودگی میں کمی کا ڈیٹا سامنے نہیں آیا لیکن لندن، میڈرڈ اور پیرس میں آلودگی میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔وینس شہر کی نہروں میں جہاں سیاحوں کے لیے موٹر کشتیاں ہر وقت چلتی تھیں اور پانی آلودہ ہوتا رہتا تھا وہاں پانی ستھرا نظر آنے لگا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ڈولفن مچھلیاں سطح آب پر آ کر اپنی خوشگوار موجودگی کا احساس دلانے لگی ہیں۔
اسپین کے شہر بارسلونا میں جنگلی بور گھومتے دیکھے گئے ہیں۔چلی کے شہر سانتیاگو میں ایک چیتا گلیوں میں پھرتا پھراتا ایک گھر کی بیرونی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا مگر کوئی نقصان نہیں ہوا۔شمالی امریکا میں وینکوور کے ساحلِ سمندر کے نزدیک ویل مچھلی تیرتی نظر آئی ہے اور وہاں کے شہریوں کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد یہ دیکھنے میں آیا ہے۔سی بی سی نشریاتی ادارے نے یہ خبر دیتے ہوئے ویل کی تصویر بھی جاری کر دی۔ نارا جاپان کے ایک بڑے چوک میں ہرنوں کے غول کے غول پھرتے دیکھے گئے ۔ پاکستان میں پچاس سال سے اوپر کی عمر کے اکثر افراد گواہی دیں گے کہ انھوں نے رات کو تاروں بھرے آسمان کا کئی مرتبہ نظارہ کیا ہے۔
پھر بھاگتی دوڑتی کٹ تھروٹ مسابقت والی زندگی اور گرین ہاؤس گیسوں کے بے انتہا اخراج نے فضا آلودہ کر کے دھندلادی اور آسمان کا نظارہ ہی بدل کے رکھ دیا۔موت کو سامنے دیکھ کر زندگی تھمنے پر ایک بار پھر فضا صاف ہونے لگی ہے۔آپ صبح اُٹھ کر تازہ صحت مند ہوا کو محسوس کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگر بادل نہ ہوں اور مطلع صاف ہو تو تاروں بھرے آسمان کا پُر لطف نظارہ کر سکتے ہیں۔ابھی ہفتے والے دن مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے رہائشی صبح نیند سے بیدار ہوئے تو ایک خوشگوار حیرت نے انھیں جکڑ لیا۔کوہِ ہمالیہ کا ایک پہاڑی سلسلہ جالندھر سے دو سو تیرہ کلو میٹر کی دوری پر ہوتے ہوئے بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ جالندھر کے باسی خوشی سے کھِل اُٹھے اور تصویریں بنا کر اپ لوڈ کر دیں۔
قارئینِ کرام وائرس سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں تا کہ اپنے ساتھ دوسرے بھی بچ سکیںلیکن ہمیں اس کا بھی احساس کرنا ہو گا کہ اس دھرتی کے علاوہ ہمارے رہنے کا ابھی تک کوئی اور ٹھکانہ دریافت نہیں ہوا۔ہمیں کرۂ ارض کی مٹی،پانی اور فضا کو دوبارہ آلودہ نہیں ہونے دینا۔اس وقت زمین نے اپنے آپ کو بند کر واکے اوزون کی تہہ کو ٹھیک کرنا اور اپنی فضا کو صاف کرنا شروع کر دیا ہے۔خدا را اس وقت کو مثبت انداز میں استعمال کریں اور جب اس وبا سے چھٹکارا ملے تو زمین کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوں۔
مشہور ہے کہ ایک عباسی خلیفہ نے ایک بہت خوبصورت محل تعمیر کروایا۔محل کی تعمیر مکمل ہونے پر خلیفہ بہت شاد ہوا۔اس نے منادی کروا دی کہ لوگ آئیں،اس محل کو دیکھیں اور اگر کوئی خامی،کوئی خرابی نظر آئے تو آگاہ کریں۔ لوگوں نے جوق در جوق پہنچ کر محل کو دیکھا۔جو بھی آتا محل کی خوبصورتی سے مبہوت ہوتا اور تعریف کرتے کرتے رخصت ہو جاتا۔ایک دن ایک آدمی آیا،سارے محل کو دیکھا اور کہا کہ اس محل میں دو بہت بڑی خرابیاں ہیں۔محل کے منتظم نے دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ چونکہ خلیفہ نے منادی کروائی ہے اس لیے اس محل کی خرابیاں بھی خلیفہ کو ہی بتاؤں گا۔خلیفہ کو اطلاع کی گئی تو خلیفہ بہت حیران ہوا کہ اتنے خوبصورت محل میں کسی نے کیسے دو خرابیاں ڈھونڈ لی ہیں۔
خلیفہ نے اس آدمی کو باریابی کی اجازت دی۔وہ آیا تو اس سے کہا کہ سنا ہے تم کہتے ہو کہ محل میں دو خرابیاں ہیں۔ اُس آدمی نے کہا جی آپ نے صحیح سنا ہے۔خلیفہ نے حکم دیا کہ خرابیاں بیان کرو۔اس آدمی نے کہا کہ محل میں دو بڑی خرابیاں ایسی ہیں جنھیں دور بھی نہیں کیا جا سکتا۔خلیفہ مزید متحیر ہوا۔اس آدمی نے کہا کہ پہلی خرابی تو یہ ہے کہ اس محل کو بنوانے والا اس میں ہمیشہ نہیں رہ سکے گا۔موت اس سے یہ محل چھین لے گی اور دوسری خرابی یہ ہے کہ یہ محل بھی ہمیشہ نہیں رہے گا اور ایک دن یہ بھی کھنڈر بن جائے گا یعنی نہ محل رہے گا اور نہ ہی اس کا مکین۔قارئینِ کرام یہی کل عالم کا مقدر ہے۔ہر تعمیر کے اندر تباہی اور ہر تباہی کے اندر تعمیر مضمر ہوتی ہے،مواقعے چھُپے ہوتے ہیں۔
موجودہ وبا نے ہر سُوخاموشی طاری کر دی ہے۔کیا موت کے سائے میں ہر چیز بے معنی ہو کر نہیں رہ گئی۔ ہوائی سفر پر مکمل پابندی ہے۔چاہے کسی کی کتنی ہی شدید ضرورت کیوں نہ ہو،دنیا کی تمام ایئر لائنز بند ہونے کی وجہ سے وہ ہوائی سفر نہیں کر سکتا۔تیزی سے بھاگتی،دوڑتی اور بدلتی دنیا کی تمام صنعت و حرفت موت کے مہیب سائے تلے بند پڑی ہے۔لوگوں کے اپنے گھروں میں محفوظ ہو جانے اور شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن سے کاروبار ماند پڑ گئے ہیں۔لاکھوں ،کروڑوں ملازمین بے روزگار یا اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے دفتر کا کام کر رہے ہیں۔فضا کو آلودہ کرنے والوں کو جان کے لالے کیا پڑے ہیں ہر طرف امن ہو گیا ہے۔دہشت گردی کا نام و نشان ہی نہیں رہا۔دنیا اب کبھی پہلے جیسی نہیں ہو گی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے موت کے شدید خوف نے کرۂ ارض کو نئی زندگی بخشی ہے۔ہم انسانوں نے زمین کا گلہ دبا رکھا تھا اور جس رفتار سے زمین کے وسائل کو بے دریغ استعمال میں لاتے ہوئے اس کی مٹی،اس کے پانی اور اس کی فضاء کو آلودہ کر رہے تھے ایسا نظر آتا تھا کہ زمین زندگی کو سہارا دینے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔ امریکی ٹون ٹاورtwin tower پر نائن الیون کے حملے کے بعدامریکا نے اپنی فضائی حدود فوری طور پر بند کر دی تھیں۔ امریکی حدود میں ہوا بازی تین دن تک معطل رہی جس کے نتیجے میں وہاں فضا اتنی صاف ہو گئی کہ ایک اسرائیلی سائنسی جریدے کی رپورٹ کے مطابق امریکا میںدرجہء حرارت روزانہ ایک ڈگری بڑھنا شروع ہو گیا۔
اب تو پچھلے چند ہفتوں سے فضائی ٹریفک روک دی گئی ہے۔ لوگ ڈر کر گھروں میں بند ہو گئے جس سے سڑکیں دفاتر اور کارخانے ویران ہونے شروع ہو گئے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بسیں،ٹرک اور کاریں غرضیکہ ہر قسم کی ٹرانسپورٹ میں کافی کمی ہو گئی۔ امریکی ریاست کیرولینا کی ایک یونیورسٹی میں ریسرچ سے یہ سامنے آیا ہے کہ کاربن مونو آکسائڈ کے عمومی لیول میں پچاس فیصد کمی واقع ہو گئی ہے ۔یاد رہے کاریں اور ٹرک سب سے زیادہ کاربن مونو آکسائڈ پیدا کرتے ہیں۔کاربن مونو آکسائڈمیں آکسیجن کا ایک مالیکیول کاربن کے مالیکیول سے مل کر مرکب بناتا ہے۔ کاربن مونو آکسائڈ کی فضا میں زیادہ مقدار انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔زہریلی گیسوں کے اخراج میں یہ کمی بہت خوش آئند ہے۔
کرۂ ارض پر صرف انسان ہی نہیں بستے اﷲ کی بے شمار دوسری مخلوقات خاص طور پر حیوانات و نباتات بھی یہیں رہتی ہیں۔ابھی پچھلی صدی کی ابتدا تک انسان اور جنگلی حیات ایک دوسرے کے قریب قریب رہ رہے تھے پھر ہمارے شہر اور قصبے پھیلنا شروع ہوئے۔ہم نے اپنا فضلہ اور کارخانوں کا سالڈ ویسٹ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے ندی نالوں اور شہر کے اندر مختلف جگہوں پر پھینکنا شروع کر دیا۔گاڑیوں کے شور اور انسانی ہلا گُلا سے جنگلی حیات و بناتات کوہم نے پیچھے دھکیل دیا،اب جب موت کا سامنا ہے اور انسان گھروں میں بند ہو گئے ہیں تو جنگلی حیات نے خلا پر کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایک شمالی ویلش قصبے میں پہاڑی بکروں نے گلیوں اور سڑکوں پر ڈیرے ڈال دئے،گھروں کے باہر سبز باڑ پر منہ مارتے اور گھروں کے لانوں میں جگالی کرتے دیکھے گئے۔ پاکستان میں تو آلودگی میں کمی کا ڈیٹا سامنے نہیں آیا لیکن لندن، میڈرڈ اور پیرس میں آلودگی میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔وینس شہر کی نہروں میں جہاں سیاحوں کے لیے موٹر کشتیاں ہر وقت چلتی تھیں اور پانی آلودہ ہوتا رہتا تھا وہاں پانی ستھرا نظر آنے لگا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ڈولفن مچھلیاں سطح آب پر آ کر اپنی خوشگوار موجودگی کا احساس دلانے لگی ہیں۔
اسپین کے شہر بارسلونا میں جنگلی بور گھومتے دیکھے گئے ہیں۔چلی کے شہر سانتیاگو میں ایک چیتا گلیوں میں پھرتا پھراتا ایک گھر کی بیرونی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا مگر کوئی نقصان نہیں ہوا۔شمالی امریکا میں وینکوور کے ساحلِ سمندر کے نزدیک ویل مچھلی تیرتی نظر آئی ہے اور وہاں کے شہریوں کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد یہ دیکھنے میں آیا ہے۔سی بی سی نشریاتی ادارے نے یہ خبر دیتے ہوئے ویل کی تصویر بھی جاری کر دی۔ نارا جاپان کے ایک بڑے چوک میں ہرنوں کے غول کے غول پھرتے دیکھے گئے ۔ پاکستان میں پچاس سال سے اوپر کی عمر کے اکثر افراد گواہی دیں گے کہ انھوں نے رات کو تاروں بھرے آسمان کا کئی مرتبہ نظارہ کیا ہے۔
پھر بھاگتی دوڑتی کٹ تھروٹ مسابقت والی زندگی اور گرین ہاؤس گیسوں کے بے انتہا اخراج نے فضا آلودہ کر کے دھندلادی اور آسمان کا نظارہ ہی بدل کے رکھ دیا۔موت کو سامنے دیکھ کر زندگی تھمنے پر ایک بار پھر فضا صاف ہونے لگی ہے۔آپ صبح اُٹھ کر تازہ صحت مند ہوا کو محسوس کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگر بادل نہ ہوں اور مطلع صاف ہو تو تاروں بھرے آسمان کا پُر لطف نظارہ کر سکتے ہیں۔ابھی ہفتے والے دن مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے رہائشی صبح نیند سے بیدار ہوئے تو ایک خوشگوار حیرت نے انھیں جکڑ لیا۔کوہِ ہمالیہ کا ایک پہاڑی سلسلہ جالندھر سے دو سو تیرہ کلو میٹر کی دوری پر ہوتے ہوئے بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ جالندھر کے باسی خوشی سے کھِل اُٹھے اور تصویریں بنا کر اپ لوڈ کر دیں۔
قارئینِ کرام وائرس سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں تا کہ اپنے ساتھ دوسرے بھی بچ سکیںلیکن ہمیں اس کا بھی احساس کرنا ہو گا کہ اس دھرتی کے علاوہ ہمارے رہنے کا ابھی تک کوئی اور ٹھکانہ دریافت نہیں ہوا۔ہمیں کرۂ ارض کی مٹی،پانی اور فضا کو دوبارہ آلودہ نہیں ہونے دینا۔اس وقت زمین نے اپنے آپ کو بند کر واکے اوزون کی تہہ کو ٹھیک کرنا اور اپنی فضا کو صاف کرنا شروع کر دیا ہے۔خدا را اس وقت کو مثبت انداز میں استعمال کریں اور جب اس وبا سے چھٹکارا ملے تو زمین کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوں۔