ووہان ماڈل سے کیا سبق سیکھا جائے

کورونا وائرس کا ابتدائی مرکز قرار دیا جانے والا شہر ووہان صبرآزما جدوجہد کے بعد فاتح کا درجہ پانے میں کامیاب ہوگیا ہے

ووہان میں معمولات زندگی کی بحالی نے ناول کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں دنیا کو امید دلائی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

LONDON:
دنیا میں ناول کورونا وائرس کا ابتدائی مرکز قرار دیا جانے والا شہر ووہان ایک طویل صبرآزما جدوجہد کے بعد فاتح کا درجہ پانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ پاکستانی میڈیا سمیت دنیا بھر کے اہم میڈیا اداروں نے 8 اپریل کو ووہان میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کو شہ سرخیوں کی زینت بنایا اور بے شمار تجزیے اور تبصرے سامنے آئے۔ کورونا وائرس کووڈ۔19 کے خلاف 23 جنوری سے 8 اپریل تک 76 روزہ ''عوامی جنگ'' میں ووہان بالآخر سرخرو ہوا اور عالمگیر وبا کی شکار پوری انسانیت کو امید اور روشنی کا ایک پیغام ملا۔

ووہان میں لاک ڈاؤن کے خاتمے نے دنیا بھر میں ایسے تمام شہروں کو بھی امید دلائی ہے جو اس وقت ناول کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کا شکار ہیں اور وہاں کے عوام کو اسی باعث متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ 23 جنوری کو چینی حکومت نے جب ووہان کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تو مختلف حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے جدید تاریخ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا، لیکن بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ محدود طبی وسائل اور ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث ''لاک ڈاؤن'' ہی واحد درست انتخاب تھا، جس پر دنیا آج عمل پیرا ہے۔ قطع نظر دنیا نے ایسے اقدامات کہیں تاخیر سے تو نہیں اٹھائے یا پھر عالمگیر وبا کو ہلکا لیتے ہوئے لازمی اقدامات میں بہت دیر کردی اور آج صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے۔

ووہان کی ہی اگر بات کی جائے تو ایک ایسے وقت میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا جب شہر میں مریضوں کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہورہا تھا، اسپتالوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا، طبی عملے کی تعداد بھی انتہائی محدود تھی، ٹیسٹنگ کٹس باآسانی دستیاب نہیں تھیں اور سب سے بڑھ کر ووہان کی ایک کروڑ دس لاکھ آبادی کو کیسے سہولیات فراہم کی جائیں؟ شہر میں اقتصادی سرگرمیوں کی بندش سے ہونے والے نقصانات اپنی جگہ لیکن عوام کے آزادانہ طرز زندگی کو ''آئیسولیٹ'' کرنا یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ لیکن ووہان نے کر دکھایا۔ بھاری معاشی قیمت بھی برداشت کرلی، عوام نے اپنی انفرادی آزادی کی قربانی بھی دے دی کیونکہ واحد مقصد ناول کورونا وائرس سے خود کو، اپنے ملک کو اور دیگر ممالک کے عوام کو بچانا تھا، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ٹھہرے۔ کیونکہ اگر اُس وقت ووہان پر سفری پابندیاں عائد نہ کی جاتیں تو وائرس انتہائی تیز رفتاری سے دنیا بھر میں پھیل جاتا اور صورتحال آج کی نسبت کئی گنا مزید سنگین ہوتی۔

بلاشبہ ووہان کے لاک ڈاؤن نے دیگر دنیا کو لازمی تیاریوں کےلیے دو ماہ کی ایک قیمتی مہلت فراہم کی تھی، لیکن شاید دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکی۔ بالخصوص امریکا سمیت دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک جہاں ناول کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اُن کا گمان تھا کہ وائرس شاید چین تک ہی محدود رہے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ناول کورونا وائرس ممالک اور شخصیات کی تمیز کیے بغیر ہر ایک کو نشانہ بنارہا ہے اور وہ مغربی ممالک جو اپنے مضبوط طبی نظام پر نازاں تھے، اس وقت بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔


یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا چین نے واقعی سب کچھ ہی ٹھیک کیا، جس سے وبا پر قابو پایا گیا؟ یقینی طور پر جواب ''ہاں'' میں نہیں آسکتا، کیونکہ خود چینی حکومت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کئی اعتبار سے چیزوں میں اصلاحات، بہتری اور نظرثانی کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کےلیے نقائص اور خامیوں کو دور کیا جاسکے۔ میرے خیال میں چینی حکومت کا انسداد وبا کےلیے ''آئیسولیشن ماڈل'' اور عوام کا منظم طرزعمل کامیابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ووہان سمیت چین بھر کے عوام نے جس انداز سے اپنی سماجی سرگرمیوں کو محدود کرتے ہوئے خود کو اپنے گھروں تک محدود کرلیا، یہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔ چینی حکام کا متاثرہ مریضوں اور اُن کے قریبی رفقا کو قرنطینہ کرنے کا سخت قدم اور عوام کی ''سیلف آئیسولیشن'' سے دنیا نے دیکھا کہ صرف دنوں میں وائرس کے پھیلاو کو سست کردیا گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ چینی قوم نظم وضبط کی پابند ہے لیکن ووہان کے عوام نے جس منظم طرز عمل کا ٹھوس عملی مظاہرہ کیا اور جو قربانیاں دی ہیں، اسے شاید الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔

ووہان کے کامیاب ماڈل میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان اعتماد سازی اور رابطہ سازی کی مضبوطی بھی اہم عنصر رہا۔ پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں بھی چونکہ ہم ایک ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ کررہے ہیں، جہاں مرکزی اور صوبائی حکومتیں شائد کئی اعتبار سے ''ایک پیج'' پر نظر نہیں آتیں۔ لہٰذا اس بات کا تذکرہ لازم ہے۔ انسداد وبا کے عمل میں چین کی مرکزی حکومت کا قائدانہ کردار کڑی نگرانی کے ساتھ مشاورت اور پالیسی سازی سے جڑا رہا اور صوبائی حکومتوں کو افرادی، مالیاتی، تکنیکی اور دیگر تمام وسائل کی فراہمی سے اُن کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کیا گیا۔ اس کے برعکس اگر امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کی ہی مثال لی جائے تو نیویارک کے گورنر مرکزی حکومت کے ناکافی اقدامات اور طبی سازوسامان کی کمی کے شکوے کرتے نظر آئے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا رحجان رہا، جس سے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آئے۔

چین میں ووہان اور صوبہ حوبے لاک ڈاؤن میں تو ضرور تھے مگر مرکزی حکومت نے تمام وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ چین بھر سے 42 ہزار سے زائد طبی عملے کی موجودگی، ملک کے دیگر علاقوں سے امدادی ساز وسامان کی مسلسل فراہمی اور 16 ہزار سے زائد وینٹی لیٹرز سمیت درکار دیگر طبی آلات کی فراہمی میں ووہان اور حوبے کو ترجیح دی گئی۔ یہاں فوری احتساب کا نظام بھی دنیا کےلیے ایک مثال ہے کیونکہ وبا کی شروعات میں چین کی مرکزی حکومت کو جب صوبہ حوبے اور ووہان میں حکام کی ناقص کارکردگی کا احساس ہوا تو فوری طور پر انہیں عہدوں سے برطرف کردیا گیا اور ایسی موزوں شخصیات کی تعیناتی عمل میں لائی گئی جنہوں نے دنوں میں بازی پلٹ دی اور جیت مرکزی حکومت کے قدموں میں رکھ دی۔

ووہان میں معمولات زندگی کی بحالی نے اگرچہ ناول کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں دنیا کو امید ضرور دلائی ہے مگر عالمی سطح پر فیصلہ کن فتح کا سفر ابھی بھی کٹھن ہے۔ وائرس کا ماخذ، منتقلی کے اسباب، شرح اموات، ویکسین کی تیاری، یہ وہ تمام عوامل ہیں جن پر ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ شاید ناول کورونا وائرس دنیا کی آئندہ کی ترجیحات میں تبدیلی کا موجب بن سکے، کیونکہ وائرس نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ کسی ایک فرد، ملک، نسل، گروہ یا جغرافیے تک محدود نہیں ہے، لہٰذا دنیا بھی باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ طرزعمل اختیار کرے اور انسانیت کے تحفظ میں تعمیری کردار ادا کرے، تاکہ کل پھر کسی شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story