ڈیڈی مان جائیں گے
ہماری ملکی سیاست کسی سپرہٹ فلم سے کم نہیں، جس میں رومانس بھی ہے، کہانی بھی ہے اور مار دھاڑ بھی
ایک فلمی سین یاد آگیا، جس میں پسند کی شادی سے انکار پر ہیروئن اپنے ہیرو کو اسے اغوا کرکے شادی کرنے کا مشورہ دیتی ہے اور یہ یقین دلاتی ہے کہ شادی کے بعد جب وہ گھر جائیں گے اور ڈیڈی کے پاؤں پکڑیں گے تو وہ مان جائیں گے۔
ہیرو اپنے ماں باپ کو اعتماد میں لیتا ہے اور سب گھر والے مل کر اغوا کےلیے لڑکی کے گھر جا پہنچتے ہیں، مگر پکڑے جاتے ہیں۔ لڑکی کا باپ انہیں شرم دلانے کےلیے روایتی سے ڈائیلاگز ادا کرتا ہے۔ اسے سننے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ باتیں تو آپ کی ٹھیک ہیں، ہم نے اغوا کے بعد ان دونوں کی شادی کروا کر آپ کے پاس آنا تھا اور آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجانا تھا، کیونکہ فلموں میں بھی یہی ہوتا ہے کہ آخر میں لڑکی کے ماں باپ مان ہی جاتے ہیں۔ اس پر لڑکی کا باپ کہتا ہے کہ اوئے فلمیں صرف تم نے ہی دیکھی ہیں، اب میں تمہیں وہ فلم دکھاتا ہوں جو میں نے دیکھی تھی۔ اتنا کہنے کے بعد وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ مل کر ان کی چھترول شروع کردیتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ چھترول کے بعد اس کا دل نرم پڑجاتا ہے اور یوں ہنسی خوشی فلم ختم ہوجاتی ہے۔)
مجھے یہ گھسا پٹا سین آج کے سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر یاد آگیا۔ بلاشبہ ہماری ملکی سیاست بھی کسی سپرہٹ فلم سے کم نہیں، جس میں رومانس بھی ہے، کہانی بھی ہے اور مار دھاڑ بھی۔ ریاست اور حکمران طبقہ اس کے مرکزی کردار ہیں، جنہوں نے رعایا کو مسائل میں الجھا کر صرف ووٹر بناکر تقسیم کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت سے نکال باہر کردیا ہے اور خود سیاسی ساز باز سے مختلف سیاسی جماعتوں، اداروں، اہل دانش اور میڈیا سے وابستہ افراد سے شراکت داری کرکے دن دگنی ترقی کررہے ہیں۔ جرائم کی اقسام تقریباً وہی روایتی سی ہی ہیں، مگر ہماری اخلاقی قدریں اس قدر پست ہوگئی ہیں کہ اب ان جرائم کو جرائم کھل کر کہنا بھی غیراخلاقی سا لگتا ہے۔ معاشرتی قدروں کے معنی تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔
ہمارے سیاسی نظام میں جتنے بھی کردار ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ ان کا تعلق اس سرزمین سے ہے، مگر ان میں سے بیشتر کا سرمایہ کثیر تعداد میں بیرون ملک نہ صرف محفوظ ہے بلکہ ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ سیاسی منظرنامے پر ایک بار ایک جعلی ڈگریوں کی تحریک چلی۔ اشرافیہ سمیت تمام طبقات نے پرنٹ میڈیا کیا اور الیکٹرانک میڈیا کیا، سب پر ایک تماشا سا لگادیا۔ یوں ظاہر کیا گیا کہ پاکستان کا اصل مسلئہ ہی یہی جعلی ڈگریاں ہیں۔ مگر پھر سب نے دیکھا کہ عدالتوں کے احکامات کے تحت مستعفی ہوئے اور ان میں سے سب نے دوبارہ سے اپنی جماعتوں سے ٹکٹ حاصل کیے اور پھر سے اپنی اپنی کرسیاں سنبھال لیں۔ انتخابی نظام جان بوچھ کر ایسا رکھا جارہا ہے کہ یہ اچھے برے کو الگ پیش کرنے سے معذور ہوچکا ہے۔ اچھے اچھے ادارے بھی لولے لنگڑے بنادیے گئے ہیں کہ کوئی طاقتور سربراہ مملکت اپنے زور بازو سے اس دیمک لگے نظام کے تحت کسی بھی جعلسازی کو انہی اداروں کی مدد سے کئی کئی برس تک التوا میں ڈالے رکھتا ہے۔
آج بھی اسمبلیوں میں ایسے ارکان کی کثیر تعداد ہے، جن کے اخلاقی، معاشی، بدعنوانی اور فوجداری کے کیس یا تو تھانے کچہریوں کی گرد آلود الماریوں میں موجود ہیں یا پھر نیب کی الماریوں میں اوپر، نیچے، دائیں یا بائیں ہوتے رہتے ہیں، جنہیں بوقت ضرورت جھاڑ کر، گرد اڑا کر، دکھا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ سیاست جو عوامی خدمت اور ملکی سلامتی کو بہتر اور فائدہ مند بنانے کا نام تھا، اب وہ ایک مکروہ کاروبار میں تبدیل ہوچکی ہے۔ سیاست کا مزاج ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ قومی، صوبائی اور سینیٹ کے انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے تھے، اب اتنے تو ضلعی سطح اور بار کونسلز کے الیکشن پر خرچ ہونے لگے ہیں۔ خرچ کرنے والے نے آخر کمانے بھی تو ہیں، اور یوں وہ اپنے اختیارات کا ہر طرح سے استعمال کرے گا۔ عام آدمی اور غریب سیاسی کارکن کے اندر بھی یہ تبدیلی آئی ہے اور وہ سوچنے لگا ہے کہ وہ کیوں پیچھے رہے؟ وہ مقامی سطح پر اپنی مار دھاڑ میں مشغول ہے۔
انتخابی قوانین بھی موجود ہیں، انتخابات میں اخراجات کی حد بھی مقرر ہے، اور دکھائی بھی صاف دے رہا ہے۔ مگر کیا ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد نہیں ہے۔ آج بھی اسمبلیوں میں ایسے ارکان کی تعداد ہے جن کی لوٹ مار کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہے اور ان کے اثاثہ جات میں ہر روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، جو جب ٹاک شوز میں بیٹھتے ہیں تو جمہوریت کی مضبوطی کا درس دیتے ہیں اور اپنے مخالفین پر ہر طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو ہر بڑے سیاستدان نے میڈیا پر بھی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض نے اپنے اپنے اینکرز چن رکھے ہیں جو الہ دین کے جن کی طرح چراغ رگڑتے ہی انہیں معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں۔
پہلے سیاسی منظرنامے میں ایک حقیقی اپوزیشن ہوتی تھی، مگر پھر اس حقیقی کردار کی جگہ ایک ایسی افسانوی اور دوستانہ اپوزیشن نے لے لی جس کا کام اپوزیشن چھوڑ کر اپنے مفادات کی ترجمانی کرنا یا مختلف سمجھوتے کرکے خود کو جیلوں سے باہر رکھنا ہے۔ کاروباری طبقہ مافیا بن کر اس سیاسی نظام کو اپنے سرمائے کی مدد سے اپنے مفادات کے تحت چلا رہا ہے۔
پارلیمنٹ سے باہر بھی ہوں تو بہت سے بحران پیدا کرتے رہتے ہیں۔ کبھی آٹے کی قلت تو کبھی چینی کی، کبھی منہ زور ہوتی مہنگائی، یہ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کا فقط ایک استعمال ہے۔ یہ مافیا ہر ادارے میں ہے۔ سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالنا اور انہیں ہی ذمے دار ٹھہرانا نامناسب ہوگا۔
حالیہ دنوں میں جو رپورٹ شائع ہوئی اس سے امید کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حکومت نے سیاسی نظام کے اندر پھیلی ان خرابیوں کے خلاف محاذ بنالیا ہے اور سیاست کے نام پر کاروبار اور دیگر مختلف بیماریوں کو جو سیاسی تحفظ دیا جاتا رہا ہے، اب وہ قابل قبول نہیں۔
یہ سب کچھ کسی فلمی سین سے کم نہیں۔ کیونکہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اب اگر ہو ہی گیا ہے تو دیکھتے ہیں بڑے کیا طے کرتے ہیں؟ کیونکہ ایک فلم انہوں بھی دیکھی ہوئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہیرو اپنے ماں باپ کو اعتماد میں لیتا ہے اور سب گھر والے مل کر اغوا کےلیے لڑکی کے گھر جا پہنچتے ہیں، مگر پکڑے جاتے ہیں۔ لڑکی کا باپ انہیں شرم دلانے کےلیے روایتی سے ڈائیلاگز ادا کرتا ہے۔ اسے سننے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ باتیں تو آپ کی ٹھیک ہیں، ہم نے اغوا کے بعد ان دونوں کی شادی کروا کر آپ کے پاس آنا تھا اور آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجانا تھا، کیونکہ فلموں میں بھی یہی ہوتا ہے کہ آخر میں لڑکی کے ماں باپ مان ہی جاتے ہیں۔ اس پر لڑکی کا باپ کہتا ہے کہ اوئے فلمیں صرف تم نے ہی دیکھی ہیں، اب میں تمہیں وہ فلم دکھاتا ہوں جو میں نے دیکھی تھی۔ اتنا کہنے کے بعد وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ مل کر ان کی چھترول شروع کردیتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ چھترول کے بعد اس کا دل نرم پڑجاتا ہے اور یوں ہنسی خوشی فلم ختم ہوجاتی ہے۔)
مجھے یہ گھسا پٹا سین آج کے سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر یاد آگیا۔ بلاشبہ ہماری ملکی سیاست بھی کسی سپرہٹ فلم سے کم نہیں، جس میں رومانس بھی ہے، کہانی بھی ہے اور مار دھاڑ بھی۔ ریاست اور حکمران طبقہ اس کے مرکزی کردار ہیں، جنہوں نے رعایا کو مسائل میں الجھا کر صرف ووٹر بناکر تقسیم کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت سے نکال باہر کردیا ہے اور خود سیاسی ساز باز سے مختلف سیاسی جماعتوں، اداروں، اہل دانش اور میڈیا سے وابستہ افراد سے شراکت داری کرکے دن دگنی ترقی کررہے ہیں۔ جرائم کی اقسام تقریباً وہی روایتی سی ہی ہیں، مگر ہماری اخلاقی قدریں اس قدر پست ہوگئی ہیں کہ اب ان جرائم کو جرائم کھل کر کہنا بھی غیراخلاقی سا لگتا ہے۔ معاشرتی قدروں کے معنی تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔
ہمارے سیاسی نظام میں جتنے بھی کردار ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ ان کا تعلق اس سرزمین سے ہے، مگر ان میں سے بیشتر کا سرمایہ کثیر تعداد میں بیرون ملک نہ صرف محفوظ ہے بلکہ ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ سیاسی منظرنامے پر ایک بار ایک جعلی ڈگریوں کی تحریک چلی۔ اشرافیہ سمیت تمام طبقات نے پرنٹ میڈیا کیا اور الیکٹرانک میڈیا کیا، سب پر ایک تماشا سا لگادیا۔ یوں ظاہر کیا گیا کہ پاکستان کا اصل مسلئہ ہی یہی جعلی ڈگریاں ہیں۔ مگر پھر سب نے دیکھا کہ عدالتوں کے احکامات کے تحت مستعفی ہوئے اور ان میں سے سب نے دوبارہ سے اپنی جماعتوں سے ٹکٹ حاصل کیے اور پھر سے اپنی اپنی کرسیاں سنبھال لیں۔ انتخابی نظام جان بوچھ کر ایسا رکھا جارہا ہے کہ یہ اچھے برے کو الگ پیش کرنے سے معذور ہوچکا ہے۔ اچھے اچھے ادارے بھی لولے لنگڑے بنادیے گئے ہیں کہ کوئی طاقتور سربراہ مملکت اپنے زور بازو سے اس دیمک لگے نظام کے تحت کسی بھی جعلسازی کو انہی اداروں کی مدد سے کئی کئی برس تک التوا میں ڈالے رکھتا ہے۔
آج بھی اسمبلیوں میں ایسے ارکان کی کثیر تعداد ہے، جن کے اخلاقی، معاشی، بدعنوانی اور فوجداری کے کیس یا تو تھانے کچہریوں کی گرد آلود الماریوں میں موجود ہیں یا پھر نیب کی الماریوں میں اوپر، نیچے، دائیں یا بائیں ہوتے رہتے ہیں، جنہیں بوقت ضرورت جھاڑ کر، گرد اڑا کر، دکھا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ سیاست جو عوامی خدمت اور ملکی سلامتی کو بہتر اور فائدہ مند بنانے کا نام تھا، اب وہ ایک مکروہ کاروبار میں تبدیل ہوچکی ہے۔ سیاست کا مزاج ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ قومی، صوبائی اور سینیٹ کے انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے تھے، اب اتنے تو ضلعی سطح اور بار کونسلز کے الیکشن پر خرچ ہونے لگے ہیں۔ خرچ کرنے والے نے آخر کمانے بھی تو ہیں، اور یوں وہ اپنے اختیارات کا ہر طرح سے استعمال کرے گا۔ عام آدمی اور غریب سیاسی کارکن کے اندر بھی یہ تبدیلی آئی ہے اور وہ سوچنے لگا ہے کہ وہ کیوں پیچھے رہے؟ وہ مقامی سطح پر اپنی مار دھاڑ میں مشغول ہے۔
انتخابی قوانین بھی موجود ہیں، انتخابات میں اخراجات کی حد بھی مقرر ہے، اور دکھائی بھی صاف دے رہا ہے۔ مگر کیا ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد نہیں ہے۔ آج بھی اسمبلیوں میں ایسے ارکان کی تعداد ہے جن کی لوٹ مار کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہے اور ان کے اثاثہ جات میں ہر روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، جو جب ٹاک شوز میں بیٹھتے ہیں تو جمہوریت کی مضبوطی کا درس دیتے ہیں اور اپنے مخالفین پر ہر طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو ہر بڑے سیاستدان نے میڈیا پر بھی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض نے اپنے اپنے اینکرز چن رکھے ہیں جو الہ دین کے جن کی طرح چراغ رگڑتے ہی انہیں معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں۔
پہلے سیاسی منظرنامے میں ایک حقیقی اپوزیشن ہوتی تھی، مگر پھر اس حقیقی کردار کی جگہ ایک ایسی افسانوی اور دوستانہ اپوزیشن نے لے لی جس کا کام اپوزیشن چھوڑ کر اپنے مفادات کی ترجمانی کرنا یا مختلف سمجھوتے کرکے خود کو جیلوں سے باہر رکھنا ہے۔ کاروباری طبقہ مافیا بن کر اس سیاسی نظام کو اپنے سرمائے کی مدد سے اپنے مفادات کے تحت چلا رہا ہے۔
پارلیمنٹ سے باہر بھی ہوں تو بہت سے بحران پیدا کرتے رہتے ہیں۔ کبھی آٹے کی قلت تو کبھی چینی کی، کبھی منہ زور ہوتی مہنگائی، یہ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کا فقط ایک استعمال ہے۔ یہ مافیا ہر ادارے میں ہے۔ سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالنا اور انہیں ہی ذمے دار ٹھہرانا نامناسب ہوگا۔
حالیہ دنوں میں جو رپورٹ شائع ہوئی اس سے امید کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حکومت نے سیاسی نظام کے اندر پھیلی ان خرابیوں کے خلاف محاذ بنالیا ہے اور سیاست کے نام پر کاروبار اور دیگر مختلف بیماریوں کو جو سیاسی تحفظ دیا جاتا رہا ہے، اب وہ قابل قبول نہیں۔
یہ سب کچھ کسی فلمی سین سے کم نہیں۔ کیونکہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اب اگر ہو ہی گیا ہے تو دیکھتے ہیں بڑے کیا طے کرتے ہیں؟ کیونکہ ایک فلم انہوں بھی دیکھی ہوئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔