کورونا جہاد اور مسلم دشمنی
بھارتی میڈیا نے اپنی نفرت اور دشمنی پر مبنی کوششوں سے انڈیا میں نسل پرستی اور تعصب انگیز ماحول پیدا کردیا ہے
SALZBURG:
انڈین میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، اس کی مسلم دشمن پالیسی اور پروپیگنڈے سے کون واقف نہیں۔ ہر وہ شخص جو انڈین میڈیا کو دیکھتا ہے وہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ انڈین میڈیا کے کل حصے میں آٹے میں نمک کے برابر کو چھوڑ کر باقی تمام میڈیا کے پاس ریٹنگ بڑھانے اور سنسنی پھیلانے کا سب سے بڑا اور برا ذریعہ پاکستان دشمنی اور پاکستان کے بارے میں بے سروپا پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ اور آج کل آنے والی عالمی آفت یعنی کورونا وائرس کی وجہ سے اس پاکستان دشمنی کے ساتھ انڈین میڈیا کو بیچنے کےلجے ایک اور زبردست چورن اور مسالہ بھی مل گیا ہے، جسے ہم مسلم دشمنی سے اگر تعبیر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔
یہ کام یعنی مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد اطلاعات کی فراہمی تو پہلے بھی کم و بیش انداز میں جاری ہی تھا لیکن پچھلے کچھ سال سے بی جے پی کے دور حکومت میں تو اس میں انتہا کی شدت آگئی ہے اور اب اس حالیہ وبا کو استعمال کرتے ہوئے تمام ہندوستان میں کورونا جہاد کے نام سے یہ افواہ سازی بڑے شد و مد سے کی جارہی ہے کہ مسلمان اور خاص طور پر تبلیغی جماعت کے لوگ دانستہ اور نادانستہ طور پر سارے ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے میں ملوث ہیں اور اس دانستہ اور نادانستہ کے شور میں دانستہ کے پہلو کو خوب اجاگر کیا جارہا ہے اور اپنی اپنی ریٹنگز میں اضافے کے لیے انڈین چینلز خوب شور مچارہے ہیں کہ مسلمان اور خاص طور پر تبلیغی حضرات یہ کام جان بوجھ کر ہندوؤں کو نقصان پہنچانے کےلیے کررہے ہیں۔ اس افواہ سازی یا منظم پروپیگنڈے کے جو اثرات ہندوستان کے پہلے ہی ڈرے ہوئے، مجبور اور مقہور مسلمانوں پر جس طرح مرتب ہورہے ہیں، وہ بڑے دردناک ہیں اور بی جے پی سرکار اور مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں سے پہلے سے پیدا شدہ خوف میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
دراصل کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت والوں کا نام آنے کے بعد انڈیا میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے بارے میں فیک نیوز اور افواہوں کا سیلاب سا آگیا ہے۔ اور اس کا دائرہ صرف اتر پردیش اور ہندی میڈیا تک محدود نہیں، ملک کی دوسری ریاستوں اور زبانوں میں بھی ایسی خبریں عام کی جارہی ہیں، جس کے ذریعے کورونا کی وبا کےلیے مسلمانوں کو ذمے دار ٹھہرایا جاسکے۔
یہ سارے حقائق بی بی سی کی 7 اپریل میں دی گئی ایک رپورٹ میں بیان کردہ چند واقعات میں بھی بتائے گئے ہیں، جس میں بطور مثال صرف ایک واقعہ پیش ہے کہ ان مسلم اور تبلیغی جماعت مخالف خبروں کا اثر تھا کہ ریاست ہماچل پردیش کے ضلع اُنا میں دلشاد محمود نامی دودھ فروش شخص نے اتوار کو خودکشی کرلی۔ دلشاد کو لوگوں نے تبلیغی جماعت سے جڑے رہنے پر ملامت کی، جس سے پریشان ہوکر انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ مقامی پولیس انچارج راکیش کمار کے مطابق، علاقے کے دو افراد تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے جن سے دلشاد کے تعلقات تھے۔ احتیاط کے پیش نظر دلشاد نے کورونا کی جانچ کروائی تاہم ان کی رپورٹ نگیٹیو آئی تھی۔
دلشاد کی والدہ نے کہا کہ ان کے 'بیٹے کی بےعزتی کی گئی، حتیٰ کہ لوگوں نے اس سے دودھ خریدنا بند کردیا جس سے مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا'۔ دلشاد کی اہلیہ نے انگریزی روزنامے دی ٹریبیون کو بتایا کہ لوگوں نے ان کے خاندان والوں سے بھی تعلقات منقطع کرلیے تھے اور انھیں مسلسل ہراساں کیا جارہا تھا۔ اتنا ہی نہیں کورونا وائرس کی رپورٹ نگیٹیو آنے کے بعد بھی ان کے شوہر کے ساتھ بدسلوکی کی گئی جس سے مجبور ہوکر انھوں نے خود کی جان لی۔
یہ ہزاروں واقعات میں سے صرف ایک واقعہ ہے کہ کس طرح پروپیگنڈے کے زور پر ایک مسلمان جان سے گیا، حالانکہ اس کی ٹیسٹ رپورٹ بھی نیگیٹو آئی تھی۔ بس اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک ایسی کمزور اقلیت سے تعلق رکھتا تھا جس سے دشمنی گویا اکثریت کے ایک بڑے طبقے کی گھٹی میں پڑی ہے اور اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے دین کو سیکھنے اور عملی طور پر برتنے کےلیے تبلیغی اجتماع میں جانے والوں سے ملا تھا۔ بی بی سی کی اسی رپورٹ میں انڈین میڈیا پر چلائی جانے والی کئی ایسی خبروں کا حوالہ بھی دیا گیا جو مسلم دشمنی خاص طور پر تبلیغی حضرات کے حوالے سے پھیلائی گئی تھیں، لیکن تحقیقات کرنے پر سب کی سب جعلی ثابت ہوئیں۔
ہندوستان میں جعلی خبروں یا فیک نیوز پر نظر رکھنے اور اس کا انکشاف کرنے والے ادارے آلٹ نیوز کے سربراہ پرتیک سنہا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کورونا وائرس اور مسلمان مخالف افواہوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے احمد آباد سے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ شروع میں جب کورونا وائرس کے متعلق خبریں عام ہوئیں تو افواہوں کی نوعیت بنیادی طور پر صحت پر اس کے اثرات اور اس کے علاج کے متعلق غلط فہمیوں تک محدود تھی، مگر جیسے ہی اس معاملے میں تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں اور فیک نیوز نے مسلم مخالف رنگ اختیار کرلیا۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں خود ان کی ٹیم نے ایک درجن سے زیادہ معاملوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان کے مطابق 'پرانی تصویروں، ویڈیوز اور خبروں کے ذریعے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنایا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کےلیے پاکستانی تصاویر کا بھی استعمال کیا جارہا ہے'۔
انڈین میڈیا نے اپنی ان نفرت اور دشمنی پر مبنی کوششوں سے انڈیا میں ایک ایسا نفرت انگیز ماحول تخلیق کردیا ہے جسے ہم بجا طور پر نسل پرستی اور تعصب سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کےلیے بی جے پی سرکار کی طرح ان چینل والوں کےلیے بھی پاکستان اور ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بھی نفرت انگیز مہم شروع کردینا سب سے آسان نسخہ اور ہمیشہ کام آنے والی گیدڑ سنگھی ہے۔ لیکن جو وہاں کا سنجیدہ طبقہ اور صاحب الرائے لوگ ہیں وہ اس ساری صورتحال پر بہت پریشان نظر آتے ہیں اور اس مشق کو ہندوستان کا سیکولر چہرہ داغدار کرنے اور ہندوستان کے پارہ پارہ ہوکر ٹکڑوں میں بٹ جانے کا سب سے بڑا خطرہ اور وجہ سمجھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی تعداد نہ صرف بہت کم ہے بلکہ وہ کسی فیصلہ کن اور اہم اقدامات کرنے والوں کی حیثیت یا فہرست میں بھی نظر نہیں اتے۔ بلاشبہ انڈین میڈیا میں ارون دھتی رائے جیسی حق گو خواتین بھی اور کئی دوسرے مرد صحافی حضرات بھی موجود ہیں۔ لیکن نفرت پھیلانے والی اکثریت کے شور و غل اکثر و بیشتر ان کی اواز دبی دبی سی ہی سنائی دے پاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
انڈین میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، اس کی مسلم دشمن پالیسی اور پروپیگنڈے سے کون واقف نہیں۔ ہر وہ شخص جو انڈین میڈیا کو دیکھتا ہے وہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ انڈین میڈیا کے کل حصے میں آٹے میں نمک کے برابر کو چھوڑ کر باقی تمام میڈیا کے پاس ریٹنگ بڑھانے اور سنسنی پھیلانے کا سب سے بڑا اور برا ذریعہ پاکستان دشمنی اور پاکستان کے بارے میں بے سروپا پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ اور آج کل آنے والی عالمی آفت یعنی کورونا وائرس کی وجہ سے اس پاکستان دشمنی کے ساتھ انڈین میڈیا کو بیچنے کےلجے ایک اور زبردست چورن اور مسالہ بھی مل گیا ہے، جسے ہم مسلم دشمنی سے اگر تعبیر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔
یہ کام یعنی مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد اطلاعات کی فراہمی تو پہلے بھی کم و بیش انداز میں جاری ہی تھا لیکن پچھلے کچھ سال سے بی جے پی کے دور حکومت میں تو اس میں انتہا کی شدت آگئی ہے اور اب اس حالیہ وبا کو استعمال کرتے ہوئے تمام ہندوستان میں کورونا جہاد کے نام سے یہ افواہ سازی بڑے شد و مد سے کی جارہی ہے کہ مسلمان اور خاص طور پر تبلیغی جماعت کے لوگ دانستہ اور نادانستہ طور پر سارے ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے میں ملوث ہیں اور اس دانستہ اور نادانستہ کے شور میں دانستہ کے پہلو کو خوب اجاگر کیا جارہا ہے اور اپنی اپنی ریٹنگز میں اضافے کے لیے انڈین چینلز خوب شور مچارہے ہیں کہ مسلمان اور خاص طور پر تبلیغی حضرات یہ کام جان بوجھ کر ہندوؤں کو نقصان پہنچانے کےلیے کررہے ہیں۔ اس افواہ سازی یا منظم پروپیگنڈے کے جو اثرات ہندوستان کے پہلے ہی ڈرے ہوئے، مجبور اور مقہور مسلمانوں پر جس طرح مرتب ہورہے ہیں، وہ بڑے دردناک ہیں اور بی جے پی سرکار اور مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں سے پہلے سے پیدا شدہ خوف میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
دراصل کورونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت والوں کا نام آنے کے بعد انڈیا میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے بارے میں فیک نیوز اور افواہوں کا سیلاب سا آگیا ہے۔ اور اس کا دائرہ صرف اتر پردیش اور ہندی میڈیا تک محدود نہیں، ملک کی دوسری ریاستوں اور زبانوں میں بھی ایسی خبریں عام کی جارہی ہیں، جس کے ذریعے کورونا کی وبا کےلیے مسلمانوں کو ذمے دار ٹھہرایا جاسکے۔
یہ سارے حقائق بی بی سی کی 7 اپریل میں دی گئی ایک رپورٹ میں بیان کردہ چند واقعات میں بھی بتائے گئے ہیں، جس میں بطور مثال صرف ایک واقعہ پیش ہے کہ ان مسلم اور تبلیغی جماعت مخالف خبروں کا اثر تھا کہ ریاست ہماچل پردیش کے ضلع اُنا میں دلشاد محمود نامی دودھ فروش شخص نے اتوار کو خودکشی کرلی۔ دلشاد کو لوگوں نے تبلیغی جماعت سے جڑے رہنے پر ملامت کی، جس سے پریشان ہوکر انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ مقامی پولیس انچارج راکیش کمار کے مطابق، علاقے کے دو افراد تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے جن سے دلشاد کے تعلقات تھے۔ احتیاط کے پیش نظر دلشاد نے کورونا کی جانچ کروائی تاہم ان کی رپورٹ نگیٹیو آئی تھی۔
دلشاد کی والدہ نے کہا کہ ان کے 'بیٹے کی بےعزتی کی گئی، حتیٰ کہ لوگوں نے اس سے دودھ خریدنا بند کردیا جس سے مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا'۔ دلشاد کی اہلیہ نے انگریزی روزنامے دی ٹریبیون کو بتایا کہ لوگوں نے ان کے خاندان والوں سے بھی تعلقات منقطع کرلیے تھے اور انھیں مسلسل ہراساں کیا جارہا تھا۔ اتنا ہی نہیں کورونا وائرس کی رپورٹ نگیٹیو آنے کے بعد بھی ان کے شوہر کے ساتھ بدسلوکی کی گئی جس سے مجبور ہوکر انھوں نے خود کی جان لی۔
یہ ہزاروں واقعات میں سے صرف ایک واقعہ ہے کہ کس طرح پروپیگنڈے کے زور پر ایک مسلمان جان سے گیا، حالانکہ اس کی ٹیسٹ رپورٹ بھی نیگیٹو آئی تھی۔ بس اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک ایسی کمزور اقلیت سے تعلق رکھتا تھا جس سے دشمنی گویا اکثریت کے ایک بڑے طبقے کی گھٹی میں پڑی ہے اور اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے دین کو سیکھنے اور عملی طور پر برتنے کےلیے تبلیغی اجتماع میں جانے والوں سے ملا تھا۔ بی بی سی کی اسی رپورٹ میں انڈین میڈیا پر چلائی جانے والی کئی ایسی خبروں کا حوالہ بھی دیا گیا جو مسلم دشمنی خاص طور پر تبلیغی حضرات کے حوالے سے پھیلائی گئی تھیں، لیکن تحقیقات کرنے پر سب کی سب جعلی ثابت ہوئیں۔
ہندوستان میں جعلی خبروں یا فیک نیوز پر نظر رکھنے اور اس کا انکشاف کرنے والے ادارے آلٹ نیوز کے سربراہ پرتیک سنہا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کورونا وائرس اور مسلمان مخالف افواہوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے احمد آباد سے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ شروع میں جب کورونا وائرس کے متعلق خبریں عام ہوئیں تو افواہوں کی نوعیت بنیادی طور پر صحت پر اس کے اثرات اور اس کے علاج کے متعلق غلط فہمیوں تک محدود تھی، مگر جیسے ہی اس معاملے میں تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں اور فیک نیوز نے مسلم مخالف رنگ اختیار کرلیا۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں خود ان کی ٹیم نے ایک درجن سے زیادہ معاملوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان کے مطابق 'پرانی تصویروں، ویڈیوز اور خبروں کے ذریعے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنایا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کےلیے پاکستانی تصاویر کا بھی استعمال کیا جارہا ہے'۔
انڈین میڈیا نے اپنی ان نفرت اور دشمنی پر مبنی کوششوں سے انڈیا میں ایک ایسا نفرت انگیز ماحول تخلیق کردیا ہے جسے ہم بجا طور پر نسل پرستی اور تعصب سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کےلیے بی جے پی سرکار کی طرح ان چینل والوں کےلیے بھی پاکستان اور ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بھی نفرت انگیز مہم شروع کردینا سب سے آسان نسخہ اور ہمیشہ کام آنے والی گیدڑ سنگھی ہے۔ لیکن جو وہاں کا سنجیدہ طبقہ اور صاحب الرائے لوگ ہیں وہ اس ساری صورتحال پر بہت پریشان نظر آتے ہیں اور اس مشق کو ہندوستان کا سیکولر چہرہ داغدار کرنے اور ہندوستان کے پارہ پارہ ہوکر ٹکڑوں میں بٹ جانے کا سب سے بڑا خطرہ اور وجہ سمجھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی تعداد نہ صرف بہت کم ہے بلکہ وہ کسی فیصلہ کن اور اہم اقدامات کرنے والوں کی حیثیت یا فہرست میں بھی نظر نہیں اتے۔ بلاشبہ انڈین میڈیا میں ارون دھتی رائے جیسی حق گو خواتین بھی اور کئی دوسرے مرد صحافی حضرات بھی موجود ہیں۔ لیکن نفرت پھیلانے والی اکثریت کے شور و غل اکثر و بیشتر ان کی اواز دبی دبی سی ہی سنائی دے پاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔