اپنی پارٹی کے کرپٹ
عمران خان کے اس جرأت مندانہ اقدام پر انھیں مبارکباد دی جانی چاہیے۔
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کی ضرورت ہے کہ جہاں، جہاں جن ، جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے وہاں کرپشن ناگزیر اور لازمی ہے کیونکہ اس نظام میں زیادہ سے زیادہ دولت کم سے کم عرصے میں حاصل کرنے کا رجحان عام ہے۔
ایسے لوگ جن کی آمدنی کم ہے یا ایسے لوگ جن کے پاس تھوڑی دولت ہے اگر زیادہ دولت کم سے کم عرصے میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے ہم انسان کی فطری خواہش کا نام دے سکتے ہیں لیکن جن لوگوں کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں اگر مزید دولت جائز وناجائز طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ نہ صرف قابل مذمت ہوتے ہیں بلکہ ان کے خلاف سخت ایکشن لینا ضروری اور لازمی ہے۔
اس حوالے سے پچھلے دس سال کے دوران حکومتوں نے لوٹ مار کے ذریعے جو اربوں کی دولت جمع کی، اس کے خلاف سخت ترین ایکشن لینا ضروری تھا، لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ان حکومتوں نے اپنے اقتدار کے دوران ملک کے اندر اور ملک کے باہر بالائی طبقات اور بیورو کریسی میں ایسے قریبی تعلقات قائم کرلیے تھے کہ وہ کرپشن میں معاون اور مددگار ثابت ہوتے تھے، سو یہی ہوا کہ کرپشن کے اربوں روپے آسانی سے ہڑپ کرلیے گئے اور کمال یہ ہے کہ یہ مہا کرپٹ اشرافیہ آج حکومت کے کچھ معمولی کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کے کچھ ''معززین'' نے بڑا نیک کام کیا جس کی حمایت کی جانی چاہے۔ جرم جرم ہوتا ہے خواہ وہ کسی حکومت کے دوران ہوا ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کرپٹ لوگوں کے خلاف کرپشن کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے عام کیں اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جو ان بد دیانتوں کی کرپشن کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی اور وزیر اعظم ان مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق اقدامات کریں گے۔ عمران خان کے اس جرأت مندانہ اقدام پر انھیں مبارکباد دی جانی چاہیے، ہماری سابق اشرافیہ لغو اور جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہوئے حکومت کوکرپٹ حکومت کا نام دے رہی ہے۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے یہاں کے عوام بھی غریب ہیں، اگر اربوں کی کرپشن کا بھاری سرمایہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا جاتا تو ہمارے ملک کے عوام اس قدر شدید غربت کا شکار نہ ہوتے۔
قیام پاکستان سے اب تک بدقسمتی سے ملک پر اشرافیہ کا راج ہے اس طویل عرصے میں اس ملک کو جتنے بڑے پیمانے پر لوٹا گیا اگر یہ لوٹ مارکا سرمایہ عوام کی فلاح و بہبود پر لگایا جاتا تو ملک میں غربت کا وہ عالم نہ ہوتا جو نظر آرہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ صرف اقتدار ہی پر قابض نہیں بلکہ سیاست پر بھی قابض ہے اس دہری طاقت نے اشرافیہ کو اس قدر مضبوط کر دیا ہے کہ وہ ''کسی کو'' خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ سابقہ وزیر اعظم کو کرپشن کے جرم میں دس سال کی سزا ہوئی اور وہ بیماری کے نام پر علاج کرانے کے لیے لندن چلے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ چینی اورگندم بحران کے ذمے داروں کے خلاف ایکشن ہوگا۔ 25اپریل تک فرانزک آڈٹ کا انتظار ہے، اب طاقتور لابیاں عوام کا پیسہ نہیں کھا سکتیں۔ ہم تحقیقاتی رپورٹ بغیر ٹیمپرنگ کے عوام کے سامنے لائے ایسی مثال نہیں مل سکتی۔ انھوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کے دوران حکمرانوں کو ایسی رپورٹیں جاری کرنے کی محض اپنے مفادات کی خاطر جرأت نہیں ہوتی تھی۔ کیا اس حقیقت سے سابقہ حکومتیں انکار کرسکتی ہیں۔
ہمارے ایک معصوم ترین سابق وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم کے برادر خورد نے فرمایا ہے کہ '' آٹا چینی رپورٹ پر عمران اور بزدار پر فرد جرم کی کارروائی ہونی چاہیے۔'' ایف آئی اے کی رپورٹ میں اس حوالے سے سنگین انکشافات ہیں دیکھنا یہ کہ اب وزیر اعظم اس حوالے سے کیا اقدام کرتے ہیں۔ ہر دن عمران خان اپنی عزت کھو رہے ہیں۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ چینی کے فراڈ میں پوری حکومت ملوث ہے۔ حکمرانوں کی گڈ گورننس کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا (ن) لیگ سے رشتہ پیر بھائی کا ہے اس تناظر میں اس کا بیان کوئی حیرت انگیز نہیں ، لیکن بھٹو مرحوم کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا ایک امیج ہے پیپلز پارٹی کے ارکان کو بیانات دیتے وقت بھٹوکی نیک نامی کا خیال کرنا چاہیے۔ بھٹو کا تعلق ایک بڑے جاگیردار گھرانے سے ہے لیکن بھٹو کے دشمن بھی ان پرکرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے لیکن ان کے بعد آنے والوں نے لٹیا ڈبو دی۔
ہمارا ملک ہی نہیں ساری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان میں ساٹھ انسان موت کا شکار ہوچکے ہیں متاثرین کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے امید افزا بات یہ ہے کہ اس مرض سے صحت مند ہونے والوں کی تعداد حوصلہ افزا ہے۔ پنجاب میں 1380، سندھ میں 881، کے پی کے میں 374، بلوچستان میں 191، گلگت 206، اسلام آباد میں 78، کشمیر میں 14 مریض صحت یاب ہوگئے ہیں۔ یہ کامیابیاں حکومت کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ عمران خان بغیر کسی خوف کے ملک کے ہر حصے میں جاکر کورونا کے متاثرین کے بارے میں اطلاعات اور معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ عمران خان کی یہ عوامی خدمت نام نہاد اپوزیشن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی عوام کو 72 سال بعد کرپٹ اشرافیہ سے آزادی حاصل ہوئی ہے جس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ عمران خان کے حوالے سے ہم نے بار بار کہا ہے کہ عمران خان کوئی انقلابی نہیں ہے وہ ایک اصلاحی بندہ ہے اور نظریاتی حوالے سے بہت کنفیوژ ہے، انھیں اس حوالے سے کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے 72 سالہ اس تسلسل کو توڑ دیا جو پاکستانی عوام سے جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے اور اب سابقہ اشرافیائی حکومتوں کے گند کو صاف کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے۔