ہارون صاحب یہ تو ہونا ہی تھا

کوئی بے وقوف ہی یہ مانے گا کہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک کے پاس اتنے اختیارات تھے کہ وہ پورا کرکٹ سسٹم ہی تبدیل کر دیتے۔


Saleem Khaliq April 11, 2020
کوئی بے وقوف ہی یہ مانے گا کہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک کے پاس اتنے اختیارات تھے کہ وہ پورا کرکٹ سسٹم ہی تبدیل کر دیتے۔ فوٹو: فائل

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی نے چیئرمین پی سی بی احسان مانی کو مجھ سے دور رہنے کی ''ہدایات'' جاری نہیں کی تھیں، ایک دن ہارون رشید کا ذکر چلا، میں نے ان کے بارے میں کچھ کہا تو مانی صاحب نے جواب دیا تھا کہ ''بورڈ میں کام کرنے والوں کو جوہدایات ملتی ہیں وہ وہی کرتے ہیں، فیصلوں کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہو سکتی'' واقعی یہ بات قابل فہم بھی ہے۔

کوئی بے وقوف ہی یہ مانے گا کہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک کے پاس اتنے اختیارات تھے کہ وہ پورا کرکٹ سسٹم ہی تبدیل کر دیتے، یقیناً ایسا وزیر اعظم اور پی سی بی کے سرپرست اعلیٰ عمران خان کی ہدایت پر ہوا، ایکدم سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کر دی گئی، لاکھوں روپے کمانے والے کرکٹرز بے روزگار ہو گئے، جو33 فیصد خوش قسمت بورڈ سے معاہدہ پانے میں کامیاب رہے وہ اب پرانے وقت کو یاد کر کے روتے ہیں، انھیں ٹیکس کٹوتی کے بعد 45 ہزار روپے ماہانہ پر گذارا کرنا پڑ رہا ہے۔

سی ای او وسیم خان کی جتنی تنخواہ ہے اس سے50 فرسٹ کلاس کرکٹرز کو ہر ماہ تنخواہ ادا ہو جائے، اب کورونا کی وجہ سے کرکٹ تعطل کا شکارہے ڈومیسٹک ایونٹس بھی نہیں ہوں گے تو یہ بیچارے کیسے گذارا کریں گے، افسوس بورڈ حکام اس بارے میں نہیں سوچ رہے،آج وسیم خان کہتے ہیں کہ عمران خان کی خواہش پر ڈومیسٹک سیٹ اپ تبدیل کیا جس سے کھلاڑی بے روزگار بھی ہوئے، پی سی بی آفیشلزکو کیا یہ بات نہیں پتا تھی،کیا کسی میں بھی اتنی جرات تھی کہ کہتا''سر آپ ملک چلائیں کرکٹ ہم پر چھوڑ دیں''۔

ہم ایک غریب ملک سے تعلق رکھتے ہیں آسٹریلیا سے مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں،اس وقت کسی نے کچھ نہیں کہااور جیسا آرڈر ملا ویسا کر دیا، اب جب نتائج سامنے نہیں آئے تو وزیر اعظم کا نام لے رہے ہیں، ہارون رشید کو جب پی ایم ہاؤس میں ڈانٹ پڑی تو انھوں نے بھی بغیرچوں چراں جیسا کہا ویسا ہی کر دیا تھا، ایک ارب روپے سے زائد خرچ ہو گئے کیا تبدیلی آ گئی؟ بورڈ حکام نے تقریباً تمام بڑے اداروں سے اسپانسر شپ کیلیے بات کی مگر کوئی ایک بھی نہیں مانا، اب کہیں گے کہ نئے سسٹم کو نتائج دینے میں وقت لگے گا دیکھتے ہیں کون سے بریڈمین سامنے آتے ہیں، اگر سسٹم برقرار رکھتے ہوئے ہی پچز، بالز وغیرہ کو تبدیل کرتے تو کیا قباحت تھی۔

اب اگلے سال ڈپارٹمنٹل ٹورنامنٹ شروع کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اگر یہی کرنا تھا تو ان کی کرکٹ ختم کیوں کی، جب میرے جیسے عام سے لوگ بھی جانتے تھے کہ نئے نظام میں مسائل آئیں گے تو کیا بورڈ کے بقراطوں کو اس کا علم نہیں ہوا، اب جو ڈپارٹمنٹس بند ہو گئے کیا اتنے خراب معاشی حالات میں وہ دوبارہ کرکٹرز کو ملازمتیں دیں گے؟

کاش کرکٹ بورڈ میں یس مین نہ آئیں اور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے والے آ سکیں، مگر چونکہ اعلیٰ آفیشلز خود حکومتی سپورٹ سے آتے ہیں تو وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، اس وقت دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز پریشان ہیں،انگلینڈ کو دیوالیے کا خدشہ ستا رہا ہے، آسٹریلیا بینکوں سے قرض لینے کا سوچ رہا ہے، اعلیٰ آفیشلز نے ازخود اپنی تنخواہوں میں کمی کر دی، مگر پاکستانی حکام آگے کا سوچ ہی نہیں رہے، یہاں تو چار بڑوں کی ماہانہ تنخواہ ہی سوا کروڑ روپے ہے۔

یہ کہتے ہیں کہ جتنا سینئر اور قابل آفیشل ہو اس کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہوگی، اگر یہ بات ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں ایک میچ کھیلے ہوئے اور 100میچز کھیلنے والے سینئر کھلاڑی کو یکساں ماہانہ تنخواہ اور میچ فیس کیوں دیتے ہیں، یہ بھی ویسے ظلم ہے۔

وسیم خان ان دنوں اپنی مرضی کی ٹیم بنانے میں مصروف ہیں، احسان مانی نے انھیں مکمل اختیارات دیے ہوئے ہیں، وسیم کے سب سے خاص مشیر ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی ہیں، انھوں نے ہی اپنے دوست ندیم خان کو سلیکشن کمیٹی کا کوآرڈینیٹر بنوایا، سنا ہے مزید کچھ دوستوں کی بھی انٹری ہونے والی ہے، اس کا نقصان یہ ہوگا کہ جب حکومت کے پانچ سال مکمل ہوئے اور اگرکوئی تبدیلی آئی تو نئے بورڈ چیف پھر ان سب کو نکال کر اپنے بھروسے کے لوگ لائیں گے، یہ طریقہ درست نہیں میرٹ پر تقرریاں ہونی چاہئیں، یہاں تو جس پوسٹ کیلیے اشتہار آیا اس میں جسے آنا تھا اس کا سب کو پہلے ہی پتا تھا، ویسے ہارون رشید کے ساتھ جو ہوا وہ ہم سب جانتے تھے کہ ایسا تو ہوگا، انھیں مہرہ بنا کر استعمال کیا گیا اورجب کام نکل گیا تو گھر جانے کا کہہ دیا۔

انھوں نے چیف سلیکٹر، سینئر اور جونیئر ٹیموں کے کوچ و مینجر، سربراہ یوتھ گیم ڈیولپمنٹ اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے قائم مقام سربراہ وغیرہ کون سی پوسٹ نہیں سنبھالی، بدقسمتی سے اس دوران کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی تعریف کر سکیں، وہ یس مین تھے اور ایسے لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے، عمر کے اس حصے میں یقیناً زندگی سیٹ ہوگی لہذا اگر وہ گذشتہ سال ڈومیسٹک کرکٹ میں تبدیلیوں کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے فیصلے سے اختلاف کرتے تو ملکی کرکٹ تاریخ میں ان کا نام یاد رکھا جاتا، مگر ان سے جو کہا گیا وہی کرتے رہے، وہ تو کروڑوں روپے کما چکے، اب باقی زندگی آرام سے گذار لیں گے مگر بیچارے غریب کرکٹرز کا کیا ہوگا؟

یہ کوئی نہیں سوچ رہا، احسان مانی اور وسیم خان جیسے لوگ تو 45 ہزار روپے ماہانہ اپنے ڈرائیور اور دیگر ملازمین کو ہی دے دیتے ہوں گے، کیا انھیں احساس نہیں کہ کھلاڑیوں کا کیا حال ہوگا، ڈپارٹمنٹس اہل خانہ کو میڈیکل کی سہولتیں بھی دیتے تھے اب کوئی بیمار ہو غریب کرکٹرز کیسے علاج کراتے ہوں گے؟

ان دنوں کورونا نے سب کو معاشی مسائل کا شکار کیا ہوا ہے، بورڈ کو ایسے کرکٹرز کی کچھ تو مدد کرنی چاہیے، بنگلہ دیش تک نے کچھ رقم کا اعلان کر دیا ہے،آسٹریلوی پلیئرز ایسوسی ایشن نے ایک فنڈ قائم کر دیا، اگر امیر آفیشلز چند ماہ تک آدھی تنخواہ لینے کا اعلان کر دیں تو اس سے کئی کھلاڑیوں کے گھروں کے چولہے جلتے رہ سکتے ہیں،آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو بورڈ کے فنڈز سے ہی کچھ مدد کردیں، اگر اب بھی کوئی کچھ نہیں کرتا تو وہ اتنا یاد رکھے کہ مظلوموں کی آہ بڑی بْری ہوتی ہے یقین نہیں آتا تو ذرا ہارون رشید سے ہی پوچھ لیں۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں