کورونا وباء سے متاثرہ معیشت کو کیسے سہارا دیا جائے
اس سرگرمی کے لئے انسپکٹروں کی بھرتی سے بیروزگاری کا مسئلہ حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
شاہد اقبال نے 32 برس تک فیڈرل بورڈ آف سٹیٹیٹکس میں سٹیٹیٹکل آفیسر، پلاننگ آفیسر اور مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے بیرون ملک ورکشاپس، سیمیناراور تربیتی سرگرمیوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔
آج پاکستان جس معاشی بحران اور اس بحران کو مزید تباہ کُن بنانے والی کورونا وائرس جیسی موذی وباء سے گزر رہا ہے یہ ایک بہت بڑا قومی چیلنج بن چکا ہے۔ گو کہ پاکستان اس وباء کا شکار ہونے والے ملکوں میں شامل ہے لیکن تاحال اس وباء کی تباہ کاریوں کی شدت یورپ کے بہت سے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
اب تک یہ مرض پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور طبی ماہرین آنے والے دو ہفتوں کے دوران اس وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کا اندیشہ طاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس گمبھیر مسئلے سے نمٹنے کے لئے معاشی سطح پر بے عیب منصوبہ بندی کے ساتھ اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ بد قسمتی سے موجودہ حکومت کو توقعات سے کہیں زیادہ خراب اقتصادی و معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہو پائے۔ حکومت نے ملک کے معاشی صورتحال کو سمجھے بغیر بڑے بڑے دعوے کر دیے جس سے عوام میں بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ '' اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیں'' اس کا اطلاق ہماری اپنی حالت پر ہو رہا ہے۔ اب جب یہ نئی مصیبت کورونا وباء کی صورت میں ہم پر نازل ہوئی ہے تو لاک ڈاؤن اور کرفیو کی باتیں ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب عوام کی سرگرمیوں کو محدود کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث عوام کی رزق روٹی کمانے کے معاملات بُری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں اسی لئے حکومت شہروں کو مکمل طور پر بند کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ اگر کسی کو دو وقت روٹی نصیب نہیں ہو رہی تو اُسے گھر تک محدود رہنے پر آمادہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
دیہاڑی دار مزدور طبقہ ' رکشہ ڈرائیور' ٹیکسی ڈرائیور ' چھابڑی والے ' دکاندار اور دیگر غیر رسمی معیشت کے ساتھ منسلک لوگ کرونا سے نہیں تو بھوک سے مر جائیں گے۔ گو کہ حکومت نے غریب خاندانوں کو راشن پہنچانے اور مالی امداد کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی ہے لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لئے غیر معمولی پیداواری سرگرمیوں کو روبہ عمل لانے کے مربوط و منظم پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو ملک میں ابھی سے ایسی معاشی سرگرمیوں کا ٓغاز کر دینا چاہیے جو نہ صرف اس وباء کے جاری عرصہ میں غریب خاندانوں کی معیشت کو سہارہ دیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ملکی معاشی سرگرمی میں تیزی لانے کا باعث بنیں۔ دیکھا جائے تو موجودہ صورت حال نے ہمیں اس بات کا موقع فراہم کر دیا ہے کہ ہم چین کی طرز پر اپنے ملک میں بھی گھروں کی سطح پر پیداواری سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کریں جس سے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
موجودہ حالات سے نکلنے کی تجاویز
پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جو باعث تشویش ہے۔ پاکستان میںتقریباِ 25 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے گزر اوقات کر رہے ہیں اور تقریبا 70 لاکھ لوگوں کو لاک ڈاؤن کرنے کے بعد گھروں میں راشن فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ غریب لوگ چھوٹے چھوٹے کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا کوکوئی ایسی سرگرمی کا آغاز کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو گھروں میں اتنا مصروف کر دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی اور شوق سے گھروں میں ہی رہیں اور باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں اور ساتھ ہی ان کے خاندان کی کفالت بھی ہوتی رہے۔
اس کے لئے ہمارے ہمسایہ ملک چائنا کی مثال کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے لئےSmall Household Manufacturing Industry کوفروغ دینا ہو گا۔ویسے تو اس پر پہلے سے کام ہو رہا ہے لیکن حالیہ ہنگامی صورت حال کے پیش نظر اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے باعث لوگوں کی معیشت میں بہتری کا ملک کی معیشت پر کافی مثبت اثر پڑے گا۔ گھر کا ہر فرد گھر میں رہ کر اپنا ہی کام کرے گا اور عورتوں اور مردوں کو مناسب روزگار کے مواقع ملیں گئے۔ اس حوالے سے جو بات سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کی صنعتی سرگرمی محض حالیہ وباء سے نمٹنے تک محدود نہیں بلکہ کورونا کی وباء تو محض اسے تیزی سے روبہ عمل لانے کا ایک بہانہ ہو گی ورنہ ملک میں اگر بڑے پیمانے پر ان سگرمیوں کا آغاز ہو جاتا ہے تو لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری اور ملکی معیشت کو سہارہ ملنے کے ساتھ ساتھ ملک کے سماجی ماحول پر بھی برے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
صنعتی سرگرمیاں جنہیں منتخب کیا جا سکتا ہے
1- ماسک بنانا: ماسک بنانے کے لئے ٹشو پیپر یا مخصوص کپڑا اور ایک ہاتھ والی سلائی مشین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت ماسک کی اشد ضرورت ہے اور لوگ حفظان صحت کے اصولوں اور ماسک کے لئے طے شدہ طبی معیار کا خیال کئے بغیر دھڑا دھڑ ماسک بنا کر بیچ رہے ہیں۔ اس سرگرمی کو مربوط انداز میں منظم کر لیا جائے تو انتہائی مثنت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ملکی ضرورت پوری ہو گی بلکہ ماسک دنیا بھر میں برآمد بھی کئے جا سکتے ہیں۔
2- پلاسٹک کے دستانے بنانا: پولیتھین کے دستانے بھی مارکیٹ میں لائے جا سکتے ہیں جن کی نہ صرف حالیہ دنوں میں بہت مانگ ہے بلکہ ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
3- سینیٹائزر کی پیکنگ کرنا:گھروں میں بڑی بوتلوں میں سینیٹائزر مہیا کیا جا سکتا ہے اور پھر گھرانے کے افراد اس کو چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی بوتلوں میں ڈالیں گے جس کے بعد اسے مارکیٹ میں سپلائی کیا جائے گا۔
4- پلاسٹک کی چھوٹی بوتلیں گھروں میں تیار کرنا: اس کے لئے چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کی بوتلیں تیار کرنے والے یونٹ سپلائی کرنے ہوں گے۔
5- ہاتھ خشک کرنے کے برقی مشینوں کو اسمبل کرنے کاکام: یہ کام بھی باآسانی گھروں پر کیا جا سکتا ہے۔
6 -گتے کے ڈبے بنانا: گتے کے ڈبے بنا کر مارکیٹ میں آسانی سے فروخت کئے جا سکتے ہیں اس لئے آرڈر پر ڈبے بنائے جا سکتے ہیں۔
7- کشن بنانا: صوفوں کے لئے کشن بنا کر مارکیٹ میں سپلائی کئے جا سکتے ہیں۔
8- مختلف قسم کے ڈیکوریشن پیس اور آرائشی نمونے تیار کرنا۔
9- ٹوپی بنانا: ہمارے ملک میں تقریبا50 فیصد لوگ ٹوپی استعمال کرتے ہیں ۔ مثلا نماز کے لئے ٹوپی' گرم ٹوپی' سندھی ٹوپی' فینسی ٹوپ' کرکٹ ٹوپی۔
10- روٹی رکھنے کی چنگیر بنانا۔
11- کپڑوں کی سلائی۔
12-تھیلوں کی سلائی۔
13- بٹن بنانا۔
کام کرنے کا طریقہ کار
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس نے پہلے ہی پاکستان کو ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی سظحوں پر تقسیم کر رکھا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان چار صوبوں' آزاد کشمیر' گلگت ' بلتستان میں تقسیم ہے۔ اس کام کا فوکل ایریا ڈسٹرکٹ ہو گا۔ جو اپنی تمام معلومات کو صوبوں کی سطح تک پہنچائے گا اور اس طرح یہ معلومات وفاقی سطح تک منظم ہو جائیں گی۔
2- پاکستان کے تمام عوامی نمائیندوں کو بھی اس سرگرمی کا حصہ بنایا جائے گا۔
3- پاکستان محکمہ مردم شماری نے علاقوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ رکھا ہے ان سے بھی مدد لی جائے گی۔
اس کام کو انجام دینے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے انسپکٹر بھرتی کئے جائیں گے جنہیں خصوصی ٹریننگ دی جائے گی۔
یہ ٹریننگ 7 دن پر مشتمل ہو گی اور اس میں مختلف صنعتی سرگرمیوں کو سمجھنے اور نگرانی کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے گی، یہ کام کسی ٹیکنکل ادارے کا ماہرین کی زیر نگرانی کرایا جا سکتا ہے۔ جو صنعتی سرگرمیاں آسان ہیں اور اُن کے کسی پیچیدہ ٹیکینکل طریقہ کار اور مشینوں کی ضرورت نہیں اور لوگ معمولی تعارف کے بعد کام شروع کر سکتے ہیں ان کاموں کو پہلے شروع کیا جائے تاکہ ملک میں فوری طور پر معاشی سرگرمیاں شروع ہو جائیں ۔ جو تھوڑے مشکل کام ہیں ان کے لئے ٹریننگ کی ضرورت ہو گی۔
انسپکٹر اس پروجیکٹ میں مڈل مین کا کرد ار ادا کر ے۔
انسپکٹر کی ذمہ داریاں:
1- گھر میں کام کرنے کے قابل عورتوں اور مردوں کی تعداد معلوم کرنا۔
2- گھروں میں تعداد کے مطابق خام مال تقسیم کرنا۔
3- کورونا وائرس یا اسی طرح کی اور قومی ایمرجنسی کی صورت میں ہدایات نامہ تقسیم کرنا۔
4- مقررہ دن تیار شیدہ اشیاء وصول کرنا۔
5- تیار شدہ اشیا کے مطابق گھر والوں کو معاوضہ ادا کرنا۔
6- معاوضے کی ادائیگی اور تیار شدہ مال کی لسٹ APP کے ذریعے اسی وقت ہیڈ کوارٹر بھیجنا
7- گھرانے میں اگر کوئی شخص کورونا وائرس کا شکار ہے تو س کا ڈیٹا لینا۔
8ایک انسپکٹر تقریباِ 30گھروں میں روزانہ فرائض انجام دے گا۔
انسپکٹر کی تنخواہ و مراعات
1- انسپکٹر کی ماہانہ تنخواہ 20000 ہزار روپے ہو گی۔
2- انسپکٹر کو 5000 پٹرول الاؤنس دینا ہو گا۔
3- حکومت تیار مال جمع کرنے کے لئے لوڈر بھی فراہم کر سکتی ہے۔
اس سرگرمی کے لئے انسپکٹروں کی بھرتی سے بیروزگاری کا مسئلہ حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
ذیل میں کچھ ایسی اشیاء اور سرگرمیوں کی فہرست دی جا رہی ہے جن پر ماہرین کے تجزیوں کی روشنی میں عملدرآمدکا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
٭سرامک ٹائیلز، ٭چھتوں پر لگنے والی کھپریل، ٭بائیک اور گاڑیوں کے چھوٹے غیر پیچیدہ پارٹس، ٭کیل اور بولٹ، ٭صابن اور ڈیٹرجنٹ پاؤڈر، دواؤں کو پیک کرنے کا کام، ٭بال پوائنٹ اور مارکر کے کارٹریج کی بھرائی ، ٭ڈائپر کی تیاری، ٭قالین بافی، ٭تصاویر کے فریم کی تیاری، ٭مصنوعی زیورات، ٭ہینڈ بیگ اور پرس بنانے کا کام، ٭کھیلوں کا غیر پیچیدہ سامان، ٭ایئرفریشنر کی تیاری، ٭بجلی کی وائرنگ میں استعمال ہونے والا سامان جس کی تیاری آسانی سے ممکن ہو، ٭چاک سے بننے والی مصنوعات، ٭گھریلو استعمال کے لیے کھاد کی تیاری، ٭بناؤ سنگھار کی اشیاء کی تیاری اور پیکنگ، ٭بیلٹ بنانے کا کام، ٭بیکری کا سامان، ٭سمارٹ فون کے ساتھ استعمال ہونے والا سامان
ابتدائی طور پر اس کام کے لیے کتنا عملہ درکار ہوگا
امداد کے اہل افراد کی کل تعداد 120,00000 ایک خاندان میں افراد کی اوسط تعداد 6 افراد فی گھرانہ
خاندانوں کی تعداد: 1,20,00000/6= 20,00000
ایک انسپکٹر روزانہ کتنے گھروں کا دورہ کرے گا :30 گھر
ہر ماہ کتنے گھروں ک دورہ کرے گا: 30x30=900
کتنے انسپکٹر درکار ہوں گے: 20,00000/900= 22222
اس کام کی انجام دہی کے لیے22222 انسپکٹروں کی ضرورت ہوگی