وبا کے دنوں کا لاہور
ایک شہر کے نام پر ہر نَگر کی بپتا، ایک دردانگیز تحریر
میں ایک شہرِ بے مثال تھا
کبھی دیکھا ہے کوئی شہرِ بے مثال؟؟
میری شان سب سے نرالی تھی
میرے ناز و ادا دنیا بھر میں مشہور تھے
میری شہرت کے کئی حوالے تھے
میری سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کا شور رہتا تھا
میرے چائے خانوں میں ایک ہجوم ہوتا تھا
میری راتیں شباب پر تھیں
ان راتوں میں، میں ایک نئی انگڑائی لے کہ بیدار ہوتا تھا
مجھے چھینک بھی آ جاتی تو اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی
میرے بازار، میری گلیاں، میرے محلے
اور ان کے گھروں کی چھتوں پر اُڑتی پتنگیں
کتنی رنگینی تھی میرے دامن میں
یہاں بچوں کا شوروغل ہوتا تھا
خواتین کا شور ہوتا تھا
مردوں کی سیاسی بحث ہوا کرتی تھی
سڑک پر وہ مزدوروں کا جمگھٹا
چائے کے ساتھ گپیں لگاتا تھا
میرے تھیٹر رات بھر چلتے تھے
میری رگوں میں سیٹی بجاتی ریلیں دوڑا کرتی تھیں
جنہیں دیکھ کر بچے ہاتھ ہلاتے تھے
میرے شاپنگ پلازے اور ان میں موجود ریستوران
جہاں اشتہا انگیز کھانے اور ان کی خوشبو
لاکھوں کی بھوک مٹا رہے ہوتے تھے
میری روشنیاں کبھی بند نہ ہوتی تھیں
میری تاریخی عمارتوں پر لگا ہوا رش
مجھے ہمیشہ ایک غرور میں مبتلا کردیتا تھا
مجھے لگتا تھا کہ میں کبھی بند نہیں ہو سکتا
یہ سب کبھی ختم نہیں ہو سکتا
لیکن
یک دم سب بدل گیا
یوں جیسے اسکرین پر ایک کے بعد دوسرا منظر
آناً فاناً میرا حلیہ کیا سے کیا ہو گیا
سنا ہے کوئی وبا آئی ہے
کوئی موذی عالمی وبا
پہلے تو میں اسے خاطر میں نہ لایا
لیکن وقت کے ساتھ مجھے اندازہ ہوا
میرے اندر بھی تبدیلیاں آنے لگیں
میرے اسپتالوں میں ایک عجیب سی کھلبلی تھی
ہر طرف ایک افراتفری تھی
لوگوں کے کھِلے ہوئے چہروں پر
ایک ان جانا خوف نظر آنے لگا
مایوسیوں کے سائے گہرے ہونے لگے
اور پھر۔۔۔۔
پھر میں نے وہ دیکھا جو برسوں سے نہ ہوا تھا
میں خالی ہوتا گیا
میرے دفتر، میرے بازار، میری گلیاں سب ویران ہو گئیں
میرے پلازے، میرے ریستوراں، میرے تھیٹر سب سنسان ہو گئے
بڑے بڑے کاروبار آن کی آن میں بند ہوگئے
دھواں اگلتی فیکٹریاں بھی سب شانت ہو گئیں
میرے مزدور سب بے روزگار ہو گئے
میری سڑکوں پر اب انسان نہ تھے
وہ گہماگہمی وہ شور نہ تھا
جو ایک وقت، زندگی کا پتا دیتا تھا
لوہے کی زنگ لگی چند جالیاں اور کچھ سپاہی
اور اسٹیشن پر اب کوئی سیٹی بجانے والا نہ تھا
مریض اٹھائے چند ساکت و جامد ریل گاڑیاں
عجائب گھر کی ٹکٹ کھڑکی بھی تو خالی تھی
ڈاک گھر میں اب کوئی بابو ڈاک نہ لاتا تھا
یوں جیسے اس شہر پر موت ناچ رہی ہو
یوں جیسے کوئی سب کچھ بنا کر غائب ہو گیا ہو
اوپر والے نے قہر کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی
اور میں اس جھلک کی تاب نہ لا سکا
میں خاموش ہوں
میں نڈھال ہوں
بے بس ہوں
ہاں میں وبا کے دنوں کا لاہور ہوں۔۔۔۔۔
کبھی دیکھا ہے کوئی شہرِ بے مثال؟؟
میری شان سب سے نرالی تھی
میرے ناز و ادا دنیا بھر میں مشہور تھے
میری شہرت کے کئی حوالے تھے
میری سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کا شور رہتا تھا
میرے چائے خانوں میں ایک ہجوم ہوتا تھا
میری راتیں شباب پر تھیں
ان راتوں میں، میں ایک نئی انگڑائی لے کہ بیدار ہوتا تھا
مجھے چھینک بھی آ جاتی تو اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی
میرے بازار، میری گلیاں، میرے محلے
اور ان کے گھروں کی چھتوں پر اُڑتی پتنگیں
کتنی رنگینی تھی میرے دامن میں
یہاں بچوں کا شوروغل ہوتا تھا
خواتین کا شور ہوتا تھا
مردوں کی سیاسی بحث ہوا کرتی تھی
سڑک پر وہ مزدوروں کا جمگھٹا
چائے کے ساتھ گپیں لگاتا تھا
میرے تھیٹر رات بھر چلتے تھے
میری رگوں میں سیٹی بجاتی ریلیں دوڑا کرتی تھیں
جنہیں دیکھ کر بچے ہاتھ ہلاتے تھے
میرے شاپنگ پلازے اور ان میں موجود ریستوران
جہاں اشتہا انگیز کھانے اور ان کی خوشبو
لاکھوں کی بھوک مٹا رہے ہوتے تھے
میری روشنیاں کبھی بند نہ ہوتی تھیں
میری تاریخی عمارتوں پر لگا ہوا رش
مجھے ہمیشہ ایک غرور میں مبتلا کردیتا تھا
مجھے لگتا تھا کہ میں کبھی بند نہیں ہو سکتا
یہ سب کبھی ختم نہیں ہو سکتا
لیکن
یک دم سب بدل گیا
یوں جیسے اسکرین پر ایک کے بعد دوسرا منظر
آناً فاناً میرا حلیہ کیا سے کیا ہو گیا
سنا ہے کوئی وبا آئی ہے
کوئی موذی عالمی وبا
پہلے تو میں اسے خاطر میں نہ لایا
لیکن وقت کے ساتھ مجھے اندازہ ہوا
میرے اندر بھی تبدیلیاں آنے لگیں
میرے اسپتالوں میں ایک عجیب سی کھلبلی تھی
ہر طرف ایک افراتفری تھی
لوگوں کے کھِلے ہوئے چہروں پر
ایک ان جانا خوف نظر آنے لگا
مایوسیوں کے سائے گہرے ہونے لگے
اور پھر۔۔۔۔
پھر میں نے وہ دیکھا جو برسوں سے نہ ہوا تھا
میں خالی ہوتا گیا
میرے دفتر، میرے بازار، میری گلیاں سب ویران ہو گئیں
میرے پلازے، میرے ریستوراں، میرے تھیٹر سب سنسان ہو گئے
بڑے بڑے کاروبار آن کی آن میں بند ہوگئے
دھواں اگلتی فیکٹریاں بھی سب شانت ہو گئیں
میرے مزدور سب بے روزگار ہو گئے
میری سڑکوں پر اب انسان نہ تھے
وہ گہماگہمی وہ شور نہ تھا
جو ایک وقت، زندگی کا پتا دیتا تھا
لوہے کی زنگ لگی چند جالیاں اور کچھ سپاہی
اور اسٹیشن پر اب کوئی سیٹی بجانے والا نہ تھا
مریض اٹھائے چند ساکت و جامد ریل گاڑیاں
عجائب گھر کی ٹکٹ کھڑکی بھی تو خالی تھی
ڈاک گھر میں اب کوئی بابو ڈاک نہ لاتا تھا
یوں جیسے اس شہر پر موت ناچ رہی ہو
یوں جیسے کوئی سب کچھ بنا کر غائب ہو گیا ہو
اوپر والے نے قہر کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی
اور میں اس جھلک کی تاب نہ لا سکا
میں خاموش ہوں
میں نڈھال ہوں
بے بس ہوں
ہاں میں وبا کے دنوں کا لاہور ہوں۔۔۔۔۔