عقیدت کی خوشبو
عقیدت اگر روحانی ہو تو اس کی خوشبو دل ودماغ کو بھی معطر کرتی ہے
عقیدت اگر روحانی ہو تو اس کی خوشبو دل ودماغ کو بھی معطر کرتی ہے اور روح میں اتر کر فکروفن کو جلا بخش کر الفاظ میں ڈھل کر دوسروں تک رسائی حاصل کرتی اور ان کے گرد ماحول کو منورکرتی ہے۔ یہ خوبی خوبصورت نعت میں پنہاںہوتی ہے۔ اہل ایمان کی بات تو الگ رہی، جوغیرمسلم حضرت محمدؐ کی ذات اور ان کی عملی زندگی سے متاثر ہوتے ہیں اگر شاعر ہوں تو اپنی عقیدت کا اظہار بصورت نعت کرتے ہیں۔ یہاں بعض سکھ وہندو شعرأ کے نعتیہ کلام کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:
نظر میں عرش کے جلوے ہیں، دل منور ہے
مری زبان پہ وصف رُخِ پیغمبرؐ ہے
(امر سنگھ عارج روپڑی)
دنیا کا عقیدہ بھی ہے، اپنا بھی یقیں ہے
جو شے ہے مدینے میں، کہیں اور نہیں ہے
اللہ کے دیدار سے محروم رہے گا
دیدار نبیؐ کا جسے ارمان نہیں ہے
(چندر پرکاش جوہر بجنوری)
محبوبِ خدا خود ہی کہا اُن کو خدا نے
اب اس سے سوا اور ہو کیا شانِ محمدؐ
(شیش چندر سکسینہ)
شانِ بشر کا منتہا، خالق دہر کا حبیبؐ
مردِ خدا پرست کا آئینۂ حیات تو
(پنڈت بالمکند عرش ملسیانی)
اے نبیؐ جس نے ترے حسن کا جلوہ دیکھا
اس نے اللہ کی قدرت کا تماشا دیکھا
تیرے در سے نہ پھرا کوئی سوالی خالی
آج تک ہم نے نہ تجھ سا کوئی داتا دیکھا
(امرچند قیس جالندھری)
شافع محشر ملا ہے کس پیمبر کو خطاب
کون محبوبِ الٰہی ہے سوائے مصطفیؐ
(شو پرشاد وہبیؔ لکھنوی)
رسولؐ اللہ کے در پر رسائی اس کی ہو تی ہے
مقدر جس کا یاور ہو نصیبہ جس کا رہبر ہو
(روپ کشور نامیؔ سہارنپوری)
زمیں پہ روشنی نہیں فلک پہ روشنی نہیں
سبب ضرور اس کا ہے کسی کو آگہی نہیں
مگر یہ آج کیا ہوا کہ ضو سے زیست بھر گئی
ضیائے مہر بندگی ہر اک طرف بکھر گئی
شگفتہ ہے کلی کلی حسین پھول پھول ہے
یہ روزِ بے مثل ہے ولادتِ رسولؐ ہے
(کالیداس گپتا رضاؔ)
ہندو سمجھ کے مجھ کو جہنم نے دی صدا
میں پاس جب گیا تو نہ مجھ کو جلا سکا
بولا کہ تجھ پہ کیوں مری آتش ہوئی حرام
کیا وجہ تجھ پہ شعلہ جو قابو نہ پا سکا
میں نے کہا کہ جائے تعجب ذرا نہیں
واقف نہیں تو میرے دل حق شناس کا
ہندو سہی، مگر ہوں ثنا خوانِ مصطفیؐ
اس واسطے نہ شعلہ ترا مجھ تک آ سکا
(چوہدری دِلو رام کوثری)
اک جہالت کی گھٹا تھی چارسو چھائی ہوئی
ہر طرف خلق خدا پھرتی تھی گھبرائی ہوئی
نور سے تیرے، اندھیرے میں درخشانی ہوئی
تیرے آگے آبرو کفار کی پانی ہوئی
(سردار بشن سنگھ بیکل)
تیرے دم سے ہو گئیں تاریکیاں سب منتشر
پا گئی راحت ترے آنے سے چشم منتظر
ہادیٔ دین متیں ہو تم محمدؐ مصطفی
باعث صد فخر ملت رہنما و پیشوا
تم ہو وہ چرخِ رسالت کے درخشاں آفتاب
نورِ عالم تاب کا جس کا نہیں کوئی جواب
(پیارے لال رونق دہلوی)
صدرِ بزم انبیاء ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
اور محبوبِ خدا ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
بادشاہِ دوسرا ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
شافع روز جزا ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
میرے آقا کے سوائے میرے حضرتؐ کے سوا
(پربھو دیال عاشق لکھنوی)
دنیا میں بیشمار زبانوں میں ہزاروں نہیں لکھوہا نعت ہائے رسولؐ لکھی گئی ہیں، میں نے صرف ایک درجن سکھ اور ہندو مذہب کے پیروکاروں کی نعتوں کے دو دو یا تین شعر اس کالم میں سموئے ہیں۔ یوں تو بیسیوں نہیں اس سے بھی زیادہ نامور سکھ اور ہندو شعرأ نے نعتیں کہی ہیں لیکن یہ سوچ کر کہ انڈیا میں ساڑھے تیرہ کروڑ سے زیادہ مسلم آبادی تقسیم ہند سے اب تک موجود ہے اور ہر شعبے میں نامور مسلمان بھی ہیں جب کہ آج کا ہندو وزیراعظم آر ایس ایس کا پیروکار ہے اور ادھر پاکستان کے وزیراعظم کے مطابق یہاں کے مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی ودیگر برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب انڈین اور پاکستانی اچھے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ میں نے ان چند لفظوں میں جو کہنا تھا کہہ دیا ہے:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
نظر میں عرش کے جلوے ہیں، دل منور ہے
مری زبان پہ وصف رُخِ پیغمبرؐ ہے
(امر سنگھ عارج روپڑی)
دنیا کا عقیدہ بھی ہے، اپنا بھی یقیں ہے
جو شے ہے مدینے میں، کہیں اور نہیں ہے
اللہ کے دیدار سے محروم رہے گا
دیدار نبیؐ کا جسے ارمان نہیں ہے
(چندر پرکاش جوہر بجنوری)
محبوبِ خدا خود ہی کہا اُن کو خدا نے
اب اس سے سوا اور ہو کیا شانِ محمدؐ
(شیش چندر سکسینہ)
شانِ بشر کا منتہا، خالق دہر کا حبیبؐ
مردِ خدا پرست کا آئینۂ حیات تو
(پنڈت بالمکند عرش ملسیانی)
اے نبیؐ جس نے ترے حسن کا جلوہ دیکھا
اس نے اللہ کی قدرت کا تماشا دیکھا
تیرے در سے نہ پھرا کوئی سوالی خالی
آج تک ہم نے نہ تجھ سا کوئی داتا دیکھا
(امرچند قیس جالندھری)
شافع محشر ملا ہے کس پیمبر کو خطاب
کون محبوبِ الٰہی ہے سوائے مصطفیؐ
(شو پرشاد وہبیؔ لکھنوی)
رسولؐ اللہ کے در پر رسائی اس کی ہو تی ہے
مقدر جس کا یاور ہو نصیبہ جس کا رہبر ہو
(روپ کشور نامیؔ سہارنپوری)
زمیں پہ روشنی نہیں فلک پہ روشنی نہیں
سبب ضرور اس کا ہے کسی کو آگہی نہیں
مگر یہ آج کیا ہوا کہ ضو سے زیست بھر گئی
ضیائے مہر بندگی ہر اک طرف بکھر گئی
شگفتہ ہے کلی کلی حسین پھول پھول ہے
یہ روزِ بے مثل ہے ولادتِ رسولؐ ہے
(کالیداس گپتا رضاؔ)
ہندو سمجھ کے مجھ کو جہنم نے دی صدا
میں پاس جب گیا تو نہ مجھ کو جلا سکا
بولا کہ تجھ پہ کیوں مری آتش ہوئی حرام
کیا وجہ تجھ پہ شعلہ جو قابو نہ پا سکا
میں نے کہا کہ جائے تعجب ذرا نہیں
واقف نہیں تو میرے دل حق شناس کا
ہندو سہی، مگر ہوں ثنا خوانِ مصطفیؐ
اس واسطے نہ شعلہ ترا مجھ تک آ سکا
(چوہدری دِلو رام کوثری)
اک جہالت کی گھٹا تھی چارسو چھائی ہوئی
ہر طرف خلق خدا پھرتی تھی گھبرائی ہوئی
نور سے تیرے، اندھیرے میں درخشانی ہوئی
تیرے آگے آبرو کفار کی پانی ہوئی
(سردار بشن سنگھ بیکل)
تیرے دم سے ہو گئیں تاریکیاں سب منتشر
پا گئی راحت ترے آنے سے چشم منتظر
ہادیٔ دین متیں ہو تم محمدؐ مصطفی
باعث صد فخر ملت رہنما و پیشوا
تم ہو وہ چرخِ رسالت کے درخشاں آفتاب
نورِ عالم تاب کا جس کا نہیں کوئی جواب
(پیارے لال رونق دہلوی)
صدرِ بزم انبیاء ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
اور محبوبِ خدا ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
بادشاہِ دوسرا ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
شافع روز جزا ہے کون؟ کوئی بھی نہیں
میرے آقا کے سوائے میرے حضرتؐ کے سوا
(پربھو دیال عاشق لکھنوی)
دنیا میں بیشمار زبانوں میں ہزاروں نہیں لکھوہا نعت ہائے رسولؐ لکھی گئی ہیں، میں نے صرف ایک درجن سکھ اور ہندو مذہب کے پیروکاروں کی نعتوں کے دو دو یا تین شعر اس کالم میں سموئے ہیں۔ یوں تو بیسیوں نہیں اس سے بھی زیادہ نامور سکھ اور ہندو شعرأ نے نعتیں کہی ہیں لیکن یہ سوچ کر کہ انڈیا میں ساڑھے تیرہ کروڑ سے زیادہ مسلم آبادی تقسیم ہند سے اب تک موجود ہے اور ہر شعبے میں نامور مسلمان بھی ہیں جب کہ آج کا ہندو وزیراعظم آر ایس ایس کا پیروکار ہے اور ادھر پاکستان کے وزیراعظم کے مطابق یہاں کے مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی ودیگر برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب انڈین اور پاکستانی اچھے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ میں نے ان چند لفظوں میں جو کہنا تھا کہہ دیا ہے:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات