ماہر تعلیم محقق شاعر و ادیب ایازحسین قادری
کراچی آکر ایس ایم لیاری ہائی اسکول میں بحیثیت استاد تعینات ہوئے
ایازحسین قادری نے 10 جون 1926 کو لاڑکانہ شہر میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تعلیم، شاہ محمد اور پی وی اسکول سے حاصل کی۔ دینی مدرسہ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان 1944 میں اور بی اے کا امتحان 1955 میں پاس کیا۔ایم اے سندھی کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے 1968 میں حاصل کی۔ اسی دوران انھوں نے ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کا بھی امتحان پاس کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے موضوع ''سندھی غزل کی اوسر (The Rise of Sindhi Ghazal) چنا، جس کے لیے انھوں نے علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی کو اپنا سرپرست بنایا جو نہ صرف سندھ بلکہ ہندوستان میں بھی ایک اتھارٹی مانے جاتے تھے۔ 1982 میںپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
کراچی آکر ایس ایم لیاری ہائی اسکول میں بحیثیت استاد تعینات ہوئے، اور 1949 تک تدریسی عمل جاری رکھا ، 1955 سے 1972 تک سندھ مسلم آرٹس کالج کراچی میں بطورلیکچرر پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی کے سندھی شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے ، 1974 سے 1987 تک سندھی شعبے کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ رہے اور پھر ریٹائرڈ ہوگئے۔ ایاز قادری کی قابلیت اور محنت کی وجہ سے انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئرکراچی یونیورسٹی کا ڈائریکٹر اور ایڈوائزر بنا یا گیا جہاں پر انھوں نے 1991 تک اپنا کام جاری رکھا۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ 13 امیدواروں نے پی ایچ ڈی کے لیے ان کوگائیڈ بنایا ، جب کہ8 امیدوارکامیاب ہوئے۔
ان کا ذہن صحافت کی طرف بھی مائل تھا اور وہ کراچی سے شائع ہونیوالے ہفتہ وار اخبار''نوجوان'' کے ایڈیٹر تھے، اس سے قبل ہفتہ وار اخبار '' ناخدا '' میں بطور سب ایڈیٹر ، ایڈیٹر سندھ مسلم میگزین ، ویکلی اخبار الحقیقت لاڑکانہ اور سندھ کواٹرلی میں بطور سب ایڈیٹر کام کرچکے تھے۔ 1954 میں سندھی ادبی سنگت کے پہلے جنرل سیکریٹری بنے جب کہ وہ جمعیت شوریٰ سندھ میں جوائنٹ سیکریٹری، سندھی ادبی سوسائٹی میں بھی جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر 1948 سے 1985 تک کام کرتے رہے۔
ایاز قادری نے شعر گوئی کا آغاز 1946 میں کیا ،جب کہ فکشن 1954 سے لکھنا شروع کردی، ان کی کہانی بلو دادا مقبول ہوئی ۔ افسانے اور کہانیاں ملاکر بلو دادا کے نام سے ان کی پہلی کتاب 1957 میں شایع ہوئی جسے سندھی ادب میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا گیا۔ سندھ کی عظیم شخصیت غلام مصطفی شاہ کی زندگی پر انگریزی میں بھی کتاب لکھی۔ ایاز کا کیا ہوا ترجمہ میکسم گورکی کی کتاب My Childhood, My Universitiesجی اے الانہ کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب Freedom Fithters، Dangerous Stories Pakistani Culture، History of Karachi Universitiy اور شاہ جو رسالو کا اردو میں ترجمہ شامل ہیں جنھیں ہم بھلا نہیں سکتے۔
قیام پاکستان کے لیے آزادی کی تحریک چلی تو انھوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے اپنے رشتے داروں میں علی محمد قادری، میاں غلام محمد گدا، اپنے سسر غلام عباس جوش اور والد غلام سرور قادری کو شاعری کرتے دیکھا تو ان میں شاعری کا شوق بڑھا۔ ایاز تخلیقی شاعر تھے اور غزل ان کی پسندیدہ صنف تھی، یہی وجہ ہے کہ اکیڈمی آف لیٹرزکی طرف سے ان کی غزل کی کتاب کو بہترین کتاب کا خطاب دیا گیا، جو پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے پوری تحقیق پر مشتمل ہے۔ سندھی ادبی سنگت کی کامیابی میں ان کا بھی بڑا ہاتھ تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد بھی سندھی پر فارسی اور عربی زبانوں کا اثر تھا مگر ایاز نے اپنی شاعری میں سندھی الفاظ کا استعمال بڑھایا ، یوں عام ان پڑھ آدمی بھی سندھی شاعری سننے کو زیادہ پسند کرنے لگا۔ جب کہ نثر میں بھی اصلی سندھی کے الفاظ کا استعمال زیادہ شروع ہوا اور سندھی ادب کی مزید ترقی ہونے لگی۔
ایاز حسین کہتے تھے کہ یہ ان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ انھوں نے ملک اور بالخصوص سندھ کے بڑے دانشوروں اور اسکالروں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا جس میں خاص طور پر سید غلام مصطفی شاہ غلام محمد عمر داؤد پوتہ، حسام الدین راشدی اور غلام مصطفی قاسمی شامل ہیں۔ جب کہ یہ بھی ان کے لیے فخر کی بات تھی کہ ان کی کاوشوں سے شاہ لطیف اور نوجوان، شاہ لطیف اور سندھی سوسائٹی، سندھ ساہت سال اور آل سندھ کانفرنس منعقد ہوئیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں کئی لیکچر مختلف اہم موضوعات پر کروائے ۔ سندھ کے نامور دانشوروں، عالموں، محققوں اور تعلیم دانوں نے آکر لیکچر دیے جس میں حسام الدین راشدی اور سید غلام مصطفی شاہ بھی شامل تھے۔ اس میں مغلوں کے دور کے موضوع پر بھی اچھے لیکچر منعقد کروائے۔
یہ تاریخی بات ہے کہ جب ایاز حسین پڑھتے تھے تو ان کی ذہانت اور پڑھائی میں دلچسپی دیکھ کر علامہ داؤد پوتہ انھیں ہر ماہ 3 روپے وظیفہ دیتے تھے جب کہ حسام الدین راشدی کی سفارش پر ایاز کو غلام مصطفی شاہ نے نوکری پر لگوایا تھا۔ جب ایاز حسین اسکول ٹیچر بنے تو تعلیم کے فروغ کے لیے وہ شام کو طلبا اور طالبات کو مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے اور ان کی ہمت افزائی کے لیے اپنی جیب سے انعامات خرید کر دیتے تھے۔
ایک ترقی پسند ادیب اور شاعر تھے اور وہ رشتوں کے درمیان محبت اور اتحاد کے حامی تھے ۔ وہ دولت اور طبقاتی نظام کے سخت خلاف تھے اور وہ ہمیشہ ظلم، ناانصافی، زیادتیوں، غربت، جاگیرداری نظام اور دوسرے سندھی سوسائٹی میں غلط رسم و رواج کے بارے میں شاعری کرتے تھے یا پھر الفاظ سے ان کی مذمت کرتے تھے۔ وہ نہ صرف اپنی تحریروں میں مسائل کی نشاندہی اور مذمت کرتے بلکہ اس کا حل بھی بتاتے تھے اور مظلوموں کو اپنے حق کے بارے میں جگاتے بھی تھے۔ انھوں نے اپنی پہلی غزل 15 سال کی عمر میں لکھی تھی اور زیادہ تر ان کی شاعری وحید علی نے گائی ہیں۔
ایاز نے 15 دسمبر 1997کو دار فانی سے کوچ کیا۔ بعد از مرگ ان کی علمی وادبی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا گیا ۔
کراچی آکر ایس ایم لیاری ہائی اسکول میں بحیثیت استاد تعینات ہوئے، اور 1949 تک تدریسی عمل جاری رکھا ، 1955 سے 1972 تک سندھ مسلم آرٹس کالج کراچی میں بطورلیکچرر پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی کے سندھی شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے ، 1974 سے 1987 تک سندھی شعبے کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ رہے اور پھر ریٹائرڈ ہوگئے۔ ایاز قادری کی قابلیت اور محنت کی وجہ سے انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئرکراچی یونیورسٹی کا ڈائریکٹر اور ایڈوائزر بنا یا گیا جہاں پر انھوں نے 1991 تک اپنا کام جاری رکھا۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ 13 امیدواروں نے پی ایچ ڈی کے لیے ان کوگائیڈ بنایا ، جب کہ8 امیدوارکامیاب ہوئے۔
ان کا ذہن صحافت کی طرف بھی مائل تھا اور وہ کراچی سے شائع ہونیوالے ہفتہ وار اخبار''نوجوان'' کے ایڈیٹر تھے، اس سے قبل ہفتہ وار اخبار '' ناخدا '' میں بطور سب ایڈیٹر ، ایڈیٹر سندھ مسلم میگزین ، ویکلی اخبار الحقیقت لاڑکانہ اور سندھ کواٹرلی میں بطور سب ایڈیٹر کام کرچکے تھے۔ 1954 میں سندھی ادبی سنگت کے پہلے جنرل سیکریٹری بنے جب کہ وہ جمعیت شوریٰ سندھ میں جوائنٹ سیکریٹری، سندھی ادبی سوسائٹی میں بھی جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر 1948 سے 1985 تک کام کرتے رہے۔
ایاز قادری نے شعر گوئی کا آغاز 1946 میں کیا ،جب کہ فکشن 1954 سے لکھنا شروع کردی، ان کی کہانی بلو دادا مقبول ہوئی ۔ افسانے اور کہانیاں ملاکر بلو دادا کے نام سے ان کی پہلی کتاب 1957 میں شایع ہوئی جسے سندھی ادب میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا گیا۔ سندھ کی عظیم شخصیت غلام مصطفی شاہ کی زندگی پر انگریزی میں بھی کتاب لکھی۔ ایاز کا کیا ہوا ترجمہ میکسم گورکی کی کتاب My Childhood, My Universitiesجی اے الانہ کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب Freedom Fithters، Dangerous Stories Pakistani Culture، History of Karachi Universitiy اور شاہ جو رسالو کا اردو میں ترجمہ شامل ہیں جنھیں ہم بھلا نہیں سکتے۔
قیام پاکستان کے لیے آزادی کی تحریک چلی تو انھوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے اپنے رشتے داروں میں علی محمد قادری، میاں غلام محمد گدا، اپنے سسر غلام عباس جوش اور والد غلام سرور قادری کو شاعری کرتے دیکھا تو ان میں شاعری کا شوق بڑھا۔ ایاز تخلیقی شاعر تھے اور غزل ان کی پسندیدہ صنف تھی، یہی وجہ ہے کہ اکیڈمی آف لیٹرزکی طرف سے ان کی غزل کی کتاب کو بہترین کتاب کا خطاب دیا گیا، جو پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے پوری تحقیق پر مشتمل ہے۔ سندھی ادبی سنگت کی کامیابی میں ان کا بھی بڑا ہاتھ تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد بھی سندھی پر فارسی اور عربی زبانوں کا اثر تھا مگر ایاز نے اپنی شاعری میں سندھی الفاظ کا استعمال بڑھایا ، یوں عام ان پڑھ آدمی بھی سندھی شاعری سننے کو زیادہ پسند کرنے لگا۔ جب کہ نثر میں بھی اصلی سندھی کے الفاظ کا استعمال زیادہ شروع ہوا اور سندھی ادب کی مزید ترقی ہونے لگی۔
ایاز حسین کہتے تھے کہ یہ ان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ انھوں نے ملک اور بالخصوص سندھ کے بڑے دانشوروں اور اسکالروں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا جس میں خاص طور پر سید غلام مصطفی شاہ غلام محمد عمر داؤد پوتہ، حسام الدین راشدی اور غلام مصطفی قاسمی شامل ہیں۔ جب کہ یہ بھی ان کے لیے فخر کی بات تھی کہ ان کی کاوشوں سے شاہ لطیف اور نوجوان، شاہ لطیف اور سندھی سوسائٹی، سندھ ساہت سال اور آل سندھ کانفرنس منعقد ہوئیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں کئی لیکچر مختلف اہم موضوعات پر کروائے ۔ سندھ کے نامور دانشوروں، عالموں، محققوں اور تعلیم دانوں نے آکر لیکچر دیے جس میں حسام الدین راشدی اور سید غلام مصطفی شاہ بھی شامل تھے۔ اس میں مغلوں کے دور کے موضوع پر بھی اچھے لیکچر منعقد کروائے۔
یہ تاریخی بات ہے کہ جب ایاز حسین پڑھتے تھے تو ان کی ذہانت اور پڑھائی میں دلچسپی دیکھ کر علامہ داؤد پوتہ انھیں ہر ماہ 3 روپے وظیفہ دیتے تھے جب کہ حسام الدین راشدی کی سفارش پر ایاز کو غلام مصطفی شاہ نے نوکری پر لگوایا تھا۔ جب ایاز حسین اسکول ٹیچر بنے تو تعلیم کے فروغ کے لیے وہ شام کو طلبا اور طالبات کو مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے اور ان کی ہمت افزائی کے لیے اپنی جیب سے انعامات خرید کر دیتے تھے۔
ایک ترقی پسند ادیب اور شاعر تھے اور وہ رشتوں کے درمیان محبت اور اتحاد کے حامی تھے ۔ وہ دولت اور طبقاتی نظام کے سخت خلاف تھے اور وہ ہمیشہ ظلم، ناانصافی، زیادتیوں، غربت، جاگیرداری نظام اور دوسرے سندھی سوسائٹی میں غلط رسم و رواج کے بارے میں شاعری کرتے تھے یا پھر الفاظ سے ان کی مذمت کرتے تھے۔ وہ نہ صرف اپنی تحریروں میں مسائل کی نشاندہی اور مذمت کرتے بلکہ اس کا حل بھی بتاتے تھے اور مظلوموں کو اپنے حق کے بارے میں جگاتے بھی تھے۔ انھوں نے اپنی پہلی غزل 15 سال کی عمر میں لکھی تھی اور زیادہ تر ان کی شاعری وحید علی نے گائی ہیں۔
ایاز نے 15 دسمبر 1997کو دار فانی سے کوچ کیا۔ بعد از مرگ ان کی علمی وادبی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا گیا ۔