ڈاکٹروں کو تحفظ دیجیے۔۔۔
اس جنگ میں نرسز ، لیباریٹری و پیرا میڈک اسٹاف اور سینیٹری عملہ تک اس وقت ہمارے سپاہی ہیں
ایک ماہ میں دنیا میں ایک لاکھ کے قریب افراد کو لقمہ ٔ اجل بنانے والی وبا کورونا جب ابتدا ء میں چین میں پھیلی ہوئی تھی اُس وقت دیگر ممالک نے اُسے صرف چین کا مسئلہ قرار دیا اور اُس سے بچاؤ کے لیے کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے ، اور جب یہ وائرس سرحدیں پھلانگ کر دیگر ممالک میں پہنچا تواب اُس سے برپا ہونے والی تباہی کو دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
دنیا بھر کے ممالک نے حفاظتی و تدارکی اقدامات بڑے پیمانے پر شروع کیے ہیں لیکن بہت دیر ہوچکی ہے ۔یہ سچ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو ایک مخصوص وقت تک روکنا ممکن ہے لیکن وبا کے آنے سے قبل ملک کے زمینی ، بحری و ہوائی بارڈروں کو بند کرنے اور ملک میں سخت لاک ڈاؤن ہی اُس کا واحد حل تھا ، جب کہ ملک میں صحت کی بہتر عمومی سہولیات کے ساتھ ساتھ تمام حفاظتی سامان سے لیس قرنطینہ مراکز کا قیام وبا کی صورت میں نقصانات کو کم سے کم کرنے میں معاون ہوسکتا ہے ۔ مگر جب ابتدائی وقت غیرسنجیدہ روش میں ہی گذار دیا جائے تو پھر اس وائرس کو روکنا ناممکن بن جاتا ہے ۔ امریکا، برطانیہ ، اسپین ، اٹلی ، ایران و دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی یہی کیا ۔
ہمارے ملک میں بھی اس وائرسی وبا کے حوالے سے حکمرانوں نے لوگوں کو تذبذب کا شکار بنادیا ہے۔ یہاں نہ تو وقت پر پڑوسی ممالک کے ساتھ بارڈر بند کیے گئے ، نہ ایئرپورٹس پر مانیٹرنگ کا انتظامات کیا گیا اور نہ ہی وقت پر قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے اور نہ ہی ملک میں مؤثر لاک ڈاؤن کیا گیا ۔ اور اب جب ملک میں 50 کے قریب لوگ اس وائرس سے اپنی جان کھوچکے ہیں اور 5ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوچکے ہیں تو ایسے میں بھی حکمرانوں کی روش میں سنجیدگی نظر نہیں آتی ۔ اس صورتحال میں بھی ملک بھر کے لیے کوئی یکساں و مساوی مستعد پالیسی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ صوبہ سندھ میں وزیر اعلیٰ نے ضلعی سطح پر آئیسولیشن سینٹر قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور ٹیچنگ اسپتالوں کے لیے 1200آئی سی یو بیڈز کی منظوری دی ہے ، لیکن یہ بہترین انتظامات بھی بلا نتیجہ بن سکتے ہیں اگر ڈاکٹروں اور پیرا میڈک عملے کو حفاظتی سامان سے لیس نہیں کیا گیا ۔
اس جنگ میں نرسز ، لیباریٹری و پیرا میڈک اسٹاف اور سینیٹری عملہ تک اس وقت ہمارے سپاہی ہیں جو ہر محاذ پر اس وبا سے محوئے جنگ ہیں لیکن کورونا کے خلاف اس قومی جنگ میں اگلے محاذوں پر متعین دستے ہمارے ڈاکٹرز ہیں جن کا اس مرض سے دوبدو مقابلہ ہے ۔ ایسے میں اگروہ ضروری حفاظتی و جنگی سامان سے لیس نہیںہوں گے تو وہ کس طرح قوم کا اور اپنا تحفظ کرسکتے ہیں ۔یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ اسپتالوں میں وینٹی لیٹر، حفاظتی لباس (PPEs) اور ICU آپریٹ کرنے والے ڈاکٹرز کی کمی کے باعث مرض کے تیزی سے پھیلنے کا اندیشہ ہے اور ایسی صورت میں بھاری جانی نقصان کاخدشہہے ۔ جس میں ڈاکٹر و پیرا میڈیکل اسٹاف کے بھی متاثر ہونے کے بڑے پیمانے پرواضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ اس بات کے پیش ِ نظر شعبہ صحت سے وابستہ افرادخصوصاً ڈاکٹروں میں شدید بے چینی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔
وہ ڈاکٹر جو اب تک بھی ضروری حفاظتی سامان بالخصوص PPEs کے بغیر اسپتالوں میں فرائض سرانجام دے رہے تھے ، انھوں نے جب دیکھا کہ چین سے آنیوالے ماسک ، PPEs اور دیگر اشیاء ڈاکٹروں اور پیرامیڈک عملے کے بجائے بیوروکریسی اور حکومتی لوگوں میں بانٹے جارہے ہیں تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے صدا ئے احتجاج بلند کی ۔اور ابملک بھر میں ڈاکٹر احتجاج کررہے ہیں ۔
سندھ میں توڈیوٹی کے دوران صرف بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا مگر بلوچستان میں اُن کی بات سننے اور مطالبے ماننے کے بجائے اُن پر تشدد کیا گیا ، انھیں حراست میں لے لیا گیا ۔کچھ دن کے لیے ڈاکٹروں کو ملک کا ہیرو قرار دیکر پہلے پولیس سے اُن کو سلامی دلوائی گئی پھرحق مانگنے پر انھی پولیس والوں سے اُن ہیروز کی لاٹھیوں اور گالیوں سے کروائی گئی، یہ عزت افزائی بھلا کیونکر اُنہیں اس وائرس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرنے کے جذبے سے سرشار رکھ پائے گی ۔ اس صورتحال پر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپ کا سلام ہمارے سر آنکھوں پر مگر حفاظتی سامان کے بغیر ہم مرجائیں گے اس لیے ہمیں سلام کریں یا نہ کریں مگر ہمیں حفاظتی سامان ضرور فراہم کریں ۔
ایسے میں کہ جب وزیر اعظم یہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ رواں ماہ کے آخر تک ملک میں کورونا کے شدید ہوکر 50ہزار کیسز ہونے کا خطرہ ہے لیکن اُس کے باوجود ملک میں آئی سی یو اور زندگی بچانے والی ادویات ، وینٹی لیٹر کی تعداد بڑھانے کی رفتار میں تیزی نہیں آرہی ، اور تو اور ڈاکٹر وں کے حفاظتی سامان بالخصوص لباس یعنی پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ(PPEs) کی فراہمی کے لیے بھی ہنگامی اقدامات نظر نہیں آتے۔ اب جب کہ ملک میں اوپی ڈیز بھی کھول دی گئیں ہیں تو ایسے میں ڈاکٹر و دیگر پیرامیڈک عملے کو حفاظتی سامان کی مزید سخت ضرورت درپیش ہے ۔
WHO اور چین سے بڑے پیمانے پر امدادی سامان، حفاظتی لباس کی رسد کے باوجود بھی ڈاکٹروں کو مکمل طور پر تو ماسک او رسینی ٹائیزر بھی میسر نہیں اور ملک میں کروڑوں روپے کا حفاظتی سامان سیاستدانوں و سرکاری عملداروں میں تقسیم کرنے کی خبریں گردش میں ہیں ۔جس پر ڈاکٹر سوال کررہے ہیں کہ جب ہمیں اس وبائی جنگ میں سپاہی کا درجہ دیا جارہا ہے تو پھر اس جنگ میں ضروری ہتھیار ( حفاظتی سامان) مانگنے پر ہمیں تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے ؟ کیا کسی بھی ملک میں سرحدوں پر جانے والے سپاہیوں کو ہتھیار ( اسلحہ ) مانگنے پر لاٹھیاں ماری جا سکتی ہیں ؟اگر نہیں تو پھر ہماری تذلیل کیوںکی جارہی ہے ؟ کیا ایسی تذلیلی صورتحال میں ہمارا دل اس جنگ کے لیے آمادہ ہوگا اور کیا ایسے میں ہم لوگوں کا تحفظ کرپائیں گے ؟ پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ کی ایک کٹ صرف ایک دن استعمال ہوسکتی ہے ۔ اس لحاظ سے اگر ایک ڈاکٹر سے صرف 2ہفتے بھی کام لیا جاتا ہے تو اُسے 15کٹس درکار ہوں گی جب کہ نرسز و دیگر پیرامیڈک عملہ اور سینیٹری عملہ اس سے علیحدہ ہیں ۔ دنیا میں اس وقت تمام ممالک اپنا بجٹ کورونا سے جنگ میں شعبہ صحت پر لگا رہا ہے ، سوئیٹرز لینڈ میں تو تمام بینک اسپتالوں بالخصوص ڈاکٹروں کے اخراجات کے لیے کھول دیے گئے ہیں ۔
ایسے میں ہمارے یہاں ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج ہورہے ہیں ۔حالانکہ بلوچستان حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا ہے جسے اب شیخ زید اسپتال کوئٹہ کے آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے ۔ اس صورتحال پر سپریم کورٹ بھی اس معاملے پر حکومتی اقدامات پر برہم نظر آتی ہے ۔سندھ کے ڈاکٹرز تو ملکی اختیاریوں سے اس قدر مایوس ہیں کہ انھوں نے تو اپنی ایک کمیٹی بناکر اپنے تئیں اور دوستوں و رشتے داروں سے چندہ وصول کرکے صوبہ بھرکی اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان مہیا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اب تک ٹنڈو محمد خان ، جامشورو ، سجاول ، ٹنڈو آدم ، نوشہرو فیروز اور میہڑ کی 6سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان کی فراہمی کی مناسب کوشش کی ہے ۔
کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ ہم قوم کے ان مسیحاؤں کو اس وائرس کے ہاتھیوں شہید ہوتا نہیں دیکھ سکتے ؟لیکن یہ قدم چھوٹے پیمانے پر ہورہے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ قوم کے صاحب استطاعت لوگوں کو بھی چاہیے کہ اس مشکل صورتحال میں اپنے مال کو ان ڈاکٹر کی زندگیاں بچانے پر صرف کریں جوکہ ہماری جانیں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ جس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اس وبائی صورتحال میں عالمی اداروں سے قرضے معاف کرنے کی اپیلوںکے بجائے ٹیسٹ کٹس، وینٹی لیٹر ، PPEs اور دیگر حفاظتی سامان کی فراہمی کی اپیل کریں تو بہتر ہوگا ۔ اس کے لیے WHO اور ریڈ کراس بہترین فورم ثابت ہوسکتے ہیں ۔
برطانیہ میں واروک یونیورسٹی میں وبائی امراض کے تیز فہم ڈاکٹر مائیکل ٹیلس لی کا کہنا ہے کہ ''دنیا میں جہاں جہاں مرض کی تشخیص کا عمل بروقت اور سخت و عام ہے ،وہاں وہاں موت کی شرح پرضابطہ دیکھنے میں آیا ، چین کے ووہان میں ہر شہری کا ٹیسٹ کیا گیا لیکن اسپین اور اٹلی میں صرف علامات کے حامل مریضوں کے ٹیسٹ کیے گئے ، جس وجہ سے وہاں مرض پھیلتا رہا اور شرح اموات بڑھتا رہا ''۔ اس لیے اگر لوگوں کو بچانا ہے تو اس کا آخری حل وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے ، اور اس کی روک تھام کے لیے کسی خاص دوا یا ویکسین کی ایجاد تک لاک ڈاؤن سمیت عالمی ادارہ صحت کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر کے سوائے کوئی حل نظر نہیں آتا ۔
ڈاکٹروں کو ویسے بھی مسیحاکہا جاتا ہے کہ لیکن کورونا کی وبا کے بعد تو یہ جملہ حقیقی امر بن چکا ہے ۔ لیکن ہم نے اپنی کوتاہیوں سے اپنے ان مسیحاؤں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا رکھی ہیں ۔گلشن ِ حدید کراچی میں الخدمت اسپتال میںبطور ڈرمالوجسٹ فرائض سرانجام دینے والے جینیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر عبدالقادر سومرولوگوں کو اس کورونا مرض سے بچاتے بچاتے 4دن قبل خود اس مرض کا شکار ہوکر اپنی جاں گنوا بیٹھے ۔ یوں ملک میں اب تک 2ڈاکٹر جاں بحق ہوچکے ہیں جوکہ مجموعی ہلاکتوں کا 10%بنتا ہے اور یہ بات نہایت تشویشناک ہے ۔ اب آپ سوچیے کہ کسی بھی جنگ میں محاذ پر موجود فوجی دستوں کو اگر ہتھیار اور حفاظتی سامان میسر نہیں ہوگا تو کیسے اُن کا دل اُس جنگ پر آمادہ ہوگا؟ اور ایسے میں کیسے ہم وہ جنگ جیتنے کی امید کرسکیں گے ؟ اس لیے جس طرح کراچی میں امن کی بحالی کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں 30سال سے رینجرز کو سہولیات ، ہتھیاروں اور مراعات و اختیارات سے لیس کیا ہوا ہے ، جس طرح آپریشن ضرب ِ عضب اور آپریشن ردالفساد کے دوران افواج ِ پاکستان کوضروری ہتھیاروں اور حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ۔
اُسی طرح اُن سے بھی زیادہ خطرناک اس کورونا کے خلاف جنگ میں بطور فورس لڑنے والے ہمارے ڈاکٹر ، پیرا میڈک و سینیٹری عملے کو بھی تمام حفاظتی سامان ماسک ، گلوز ، گوگلز ، سینی ٹائیزر بالخصوص حفاظتی لباس PPEs کی فراہمی کو یقینی بنانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ قومی ذمے داری بھی ہے ۔ جسے پورا کرنا حکومت ِ وقت کا فرض ہے ۔ اس لیے تمام صوبوں، وفاق کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی اداروں بالخصوص ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹیز کو ہر حال میں ڈاکٹروں کو تمام سہولیات ، حفاظتی سامان سے آراستہ کرکے اُن کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا تاکہ وہ اس وبائی وائرس کے خلاف جنگ پُراعتماد طریقے سے لڑنے کی پوزیشن میں آسکیں ۔ وگرنہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ خود اعتمادی کے بغیر تو فوجیں جیتی ہوئی جنگیں بھی ہار جاتی ہیں ۔
سوچیں کہ اس جنگ میں اگر ہمارے یہ محافظ ڈاکٹر خود ہی محفوظ نہیں ہوں گے تو عوام کی زندگی بچانے کے لیے ہم کیا کریں گے ؟ چونکہ یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ کورونا ایک متعدی وائرس ہے جو حفاظتی سامان کی کمی کے باعث ڈاکٹروں و دیگر عملے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا اور ڈاکٹر بیمار ہوتے ہیں یا طبی عملے کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے تو اسٹاف خوف میں مبتلاہوکر ملازمت چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور پھر ہم لوگوں کو کیسے اس وبا سے محفوظ رکھ پائیں گے ؟
دنیا بھر کے ممالک نے حفاظتی و تدارکی اقدامات بڑے پیمانے پر شروع کیے ہیں لیکن بہت دیر ہوچکی ہے ۔یہ سچ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو ایک مخصوص وقت تک روکنا ممکن ہے لیکن وبا کے آنے سے قبل ملک کے زمینی ، بحری و ہوائی بارڈروں کو بند کرنے اور ملک میں سخت لاک ڈاؤن ہی اُس کا واحد حل تھا ، جب کہ ملک میں صحت کی بہتر عمومی سہولیات کے ساتھ ساتھ تمام حفاظتی سامان سے لیس قرنطینہ مراکز کا قیام وبا کی صورت میں نقصانات کو کم سے کم کرنے میں معاون ہوسکتا ہے ۔ مگر جب ابتدائی وقت غیرسنجیدہ روش میں ہی گذار دیا جائے تو پھر اس وائرس کو روکنا ناممکن بن جاتا ہے ۔ امریکا، برطانیہ ، اسپین ، اٹلی ، ایران و دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی یہی کیا ۔
ہمارے ملک میں بھی اس وائرسی وبا کے حوالے سے حکمرانوں نے لوگوں کو تذبذب کا شکار بنادیا ہے۔ یہاں نہ تو وقت پر پڑوسی ممالک کے ساتھ بارڈر بند کیے گئے ، نہ ایئرپورٹس پر مانیٹرنگ کا انتظامات کیا گیا اور نہ ہی وقت پر قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے اور نہ ہی ملک میں مؤثر لاک ڈاؤن کیا گیا ۔ اور اب جب ملک میں 50 کے قریب لوگ اس وائرس سے اپنی جان کھوچکے ہیں اور 5ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوچکے ہیں تو ایسے میں بھی حکمرانوں کی روش میں سنجیدگی نظر نہیں آتی ۔ اس صورتحال میں بھی ملک بھر کے لیے کوئی یکساں و مساوی مستعد پالیسی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ صوبہ سندھ میں وزیر اعلیٰ نے ضلعی سطح پر آئیسولیشن سینٹر قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور ٹیچنگ اسپتالوں کے لیے 1200آئی سی یو بیڈز کی منظوری دی ہے ، لیکن یہ بہترین انتظامات بھی بلا نتیجہ بن سکتے ہیں اگر ڈاکٹروں اور پیرا میڈک عملے کو حفاظتی سامان سے لیس نہیں کیا گیا ۔
اس جنگ میں نرسز ، لیباریٹری و پیرا میڈک اسٹاف اور سینیٹری عملہ تک اس وقت ہمارے سپاہی ہیں جو ہر محاذ پر اس وبا سے محوئے جنگ ہیں لیکن کورونا کے خلاف اس قومی جنگ میں اگلے محاذوں پر متعین دستے ہمارے ڈاکٹرز ہیں جن کا اس مرض سے دوبدو مقابلہ ہے ۔ ایسے میں اگروہ ضروری حفاظتی و جنگی سامان سے لیس نہیںہوں گے تو وہ کس طرح قوم کا اور اپنا تحفظ کرسکتے ہیں ۔یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ اسپتالوں میں وینٹی لیٹر، حفاظتی لباس (PPEs) اور ICU آپریٹ کرنے والے ڈاکٹرز کی کمی کے باعث مرض کے تیزی سے پھیلنے کا اندیشہ ہے اور ایسی صورت میں بھاری جانی نقصان کاخدشہہے ۔ جس میں ڈاکٹر و پیرا میڈیکل اسٹاف کے بھی متاثر ہونے کے بڑے پیمانے پرواضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ اس بات کے پیش ِ نظر شعبہ صحت سے وابستہ افرادخصوصاً ڈاکٹروں میں شدید بے چینی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔
وہ ڈاکٹر جو اب تک بھی ضروری حفاظتی سامان بالخصوص PPEs کے بغیر اسپتالوں میں فرائض سرانجام دے رہے تھے ، انھوں نے جب دیکھا کہ چین سے آنیوالے ماسک ، PPEs اور دیگر اشیاء ڈاکٹروں اور پیرامیڈک عملے کے بجائے بیوروکریسی اور حکومتی لوگوں میں بانٹے جارہے ہیں تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے صدا ئے احتجاج بلند کی ۔اور ابملک بھر میں ڈاکٹر احتجاج کررہے ہیں ۔
سندھ میں توڈیوٹی کے دوران صرف بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا مگر بلوچستان میں اُن کی بات سننے اور مطالبے ماننے کے بجائے اُن پر تشدد کیا گیا ، انھیں حراست میں لے لیا گیا ۔کچھ دن کے لیے ڈاکٹروں کو ملک کا ہیرو قرار دیکر پہلے پولیس سے اُن کو سلامی دلوائی گئی پھرحق مانگنے پر انھی پولیس والوں سے اُن ہیروز کی لاٹھیوں اور گالیوں سے کروائی گئی، یہ عزت افزائی بھلا کیونکر اُنہیں اس وائرس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرنے کے جذبے سے سرشار رکھ پائے گی ۔ اس صورتحال پر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپ کا سلام ہمارے سر آنکھوں پر مگر حفاظتی سامان کے بغیر ہم مرجائیں گے اس لیے ہمیں سلام کریں یا نہ کریں مگر ہمیں حفاظتی سامان ضرور فراہم کریں ۔
ایسے میں کہ جب وزیر اعظم یہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ رواں ماہ کے آخر تک ملک میں کورونا کے شدید ہوکر 50ہزار کیسز ہونے کا خطرہ ہے لیکن اُس کے باوجود ملک میں آئی سی یو اور زندگی بچانے والی ادویات ، وینٹی لیٹر کی تعداد بڑھانے کی رفتار میں تیزی نہیں آرہی ، اور تو اور ڈاکٹر وں کے حفاظتی سامان بالخصوص لباس یعنی پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ(PPEs) کی فراہمی کے لیے بھی ہنگامی اقدامات نظر نہیں آتے۔ اب جب کہ ملک میں اوپی ڈیز بھی کھول دی گئیں ہیں تو ایسے میں ڈاکٹر و دیگر پیرامیڈک عملے کو حفاظتی سامان کی مزید سخت ضرورت درپیش ہے ۔
WHO اور چین سے بڑے پیمانے پر امدادی سامان، حفاظتی لباس کی رسد کے باوجود بھی ڈاکٹروں کو مکمل طور پر تو ماسک او رسینی ٹائیزر بھی میسر نہیں اور ملک میں کروڑوں روپے کا حفاظتی سامان سیاستدانوں و سرکاری عملداروں میں تقسیم کرنے کی خبریں گردش میں ہیں ۔جس پر ڈاکٹر سوال کررہے ہیں کہ جب ہمیں اس وبائی جنگ میں سپاہی کا درجہ دیا جارہا ہے تو پھر اس جنگ میں ضروری ہتھیار ( حفاظتی سامان) مانگنے پر ہمیں تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے ؟ کیا کسی بھی ملک میں سرحدوں پر جانے والے سپاہیوں کو ہتھیار ( اسلحہ ) مانگنے پر لاٹھیاں ماری جا سکتی ہیں ؟اگر نہیں تو پھر ہماری تذلیل کیوںکی جارہی ہے ؟ کیا ایسی تذلیلی صورتحال میں ہمارا دل اس جنگ کے لیے آمادہ ہوگا اور کیا ایسے میں ہم لوگوں کا تحفظ کرپائیں گے ؟ پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ کی ایک کٹ صرف ایک دن استعمال ہوسکتی ہے ۔ اس لحاظ سے اگر ایک ڈاکٹر سے صرف 2ہفتے بھی کام لیا جاتا ہے تو اُسے 15کٹس درکار ہوں گی جب کہ نرسز و دیگر پیرامیڈک عملہ اور سینیٹری عملہ اس سے علیحدہ ہیں ۔ دنیا میں اس وقت تمام ممالک اپنا بجٹ کورونا سے جنگ میں شعبہ صحت پر لگا رہا ہے ، سوئیٹرز لینڈ میں تو تمام بینک اسپتالوں بالخصوص ڈاکٹروں کے اخراجات کے لیے کھول دیے گئے ہیں ۔
ایسے میں ہمارے یہاں ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج ہورہے ہیں ۔حالانکہ بلوچستان حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا ہے جسے اب شیخ زید اسپتال کوئٹہ کے آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے ۔ اس صورتحال پر سپریم کورٹ بھی اس معاملے پر حکومتی اقدامات پر برہم نظر آتی ہے ۔سندھ کے ڈاکٹرز تو ملکی اختیاریوں سے اس قدر مایوس ہیں کہ انھوں نے تو اپنی ایک کمیٹی بناکر اپنے تئیں اور دوستوں و رشتے داروں سے چندہ وصول کرکے صوبہ بھرکی اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان مہیا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اب تک ٹنڈو محمد خان ، جامشورو ، سجاول ، ٹنڈو آدم ، نوشہرو فیروز اور میہڑ کی 6سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان کی فراہمی کی مناسب کوشش کی ہے ۔
کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ ہم قوم کے ان مسیحاؤں کو اس وائرس کے ہاتھیوں شہید ہوتا نہیں دیکھ سکتے ؟لیکن یہ قدم چھوٹے پیمانے پر ہورہے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ قوم کے صاحب استطاعت لوگوں کو بھی چاہیے کہ اس مشکل صورتحال میں اپنے مال کو ان ڈاکٹر کی زندگیاں بچانے پر صرف کریں جوکہ ہماری جانیں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ جس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اس وبائی صورتحال میں عالمی اداروں سے قرضے معاف کرنے کی اپیلوںکے بجائے ٹیسٹ کٹس، وینٹی لیٹر ، PPEs اور دیگر حفاظتی سامان کی فراہمی کی اپیل کریں تو بہتر ہوگا ۔ اس کے لیے WHO اور ریڈ کراس بہترین فورم ثابت ہوسکتے ہیں ۔
برطانیہ میں واروک یونیورسٹی میں وبائی امراض کے تیز فہم ڈاکٹر مائیکل ٹیلس لی کا کہنا ہے کہ ''دنیا میں جہاں جہاں مرض کی تشخیص کا عمل بروقت اور سخت و عام ہے ،وہاں وہاں موت کی شرح پرضابطہ دیکھنے میں آیا ، چین کے ووہان میں ہر شہری کا ٹیسٹ کیا گیا لیکن اسپین اور اٹلی میں صرف علامات کے حامل مریضوں کے ٹیسٹ کیے گئے ، جس وجہ سے وہاں مرض پھیلتا رہا اور شرح اموات بڑھتا رہا ''۔ اس لیے اگر لوگوں کو بچانا ہے تو اس کا آخری حل وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے ، اور اس کی روک تھام کے لیے کسی خاص دوا یا ویکسین کی ایجاد تک لاک ڈاؤن سمیت عالمی ادارہ صحت کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر کے سوائے کوئی حل نظر نہیں آتا ۔
ڈاکٹروں کو ویسے بھی مسیحاکہا جاتا ہے کہ لیکن کورونا کی وبا کے بعد تو یہ جملہ حقیقی امر بن چکا ہے ۔ لیکن ہم نے اپنی کوتاہیوں سے اپنے ان مسیحاؤں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا رکھی ہیں ۔گلشن ِ حدید کراچی میں الخدمت اسپتال میںبطور ڈرمالوجسٹ فرائض سرانجام دینے والے جینیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر عبدالقادر سومرولوگوں کو اس کورونا مرض سے بچاتے بچاتے 4دن قبل خود اس مرض کا شکار ہوکر اپنی جاں گنوا بیٹھے ۔ یوں ملک میں اب تک 2ڈاکٹر جاں بحق ہوچکے ہیں جوکہ مجموعی ہلاکتوں کا 10%بنتا ہے اور یہ بات نہایت تشویشناک ہے ۔ اب آپ سوچیے کہ کسی بھی جنگ میں محاذ پر موجود فوجی دستوں کو اگر ہتھیار اور حفاظتی سامان میسر نہیں ہوگا تو کیسے اُن کا دل اُس جنگ پر آمادہ ہوگا؟ اور ایسے میں کیسے ہم وہ جنگ جیتنے کی امید کرسکیں گے ؟ اس لیے جس طرح کراچی میں امن کی بحالی کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں 30سال سے رینجرز کو سہولیات ، ہتھیاروں اور مراعات و اختیارات سے لیس کیا ہوا ہے ، جس طرح آپریشن ضرب ِ عضب اور آپریشن ردالفساد کے دوران افواج ِ پاکستان کوضروری ہتھیاروں اور حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ۔
اُسی طرح اُن سے بھی زیادہ خطرناک اس کورونا کے خلاف جنگ میں بطور فورس لڑنے والے ہمارے ڈاکٹر ، پیرا میڈک و سینیٹری عملے کو بھی تمام حفاظتی سامان ماسک ، گلوز ، گوگلز ، سینی ٹائیزر بالخصوص حفاظتی لباس PPEs کی فراہمی کو یقینی بنانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ قومی ذمے داری بھی ہے ۔ جسے پورا کرنا حکومت ِ وقت کا فرض ہے ۔ اس لیے تمام صوبوں، وفاق کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی اداروں بالخصوص ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹیز کو ہر حال میں ڈاکٹروں کو تمام سہولیات ، حفاظتی سامان سے آراستہ کرکے اُن کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا تاکہ وہ اس وبائی وائرس کے خلاف جنگ پُراعتماد طریقے سے لڑنے کی پوزیشن میں آسکیں ۔ وگرنہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ خود اعتمادی کے بغیر تو فوجیں جیتی ہوئی جنگیں بھی ہار جاتی ہیں ۔
سوچیں کہ اس جنگ میں اگر ہمارے یہ محافظ ڈاکٹر خود ہی محفوظ نہیں ہوں گے تو عوام کی زندگی بچانے کے لیے ہم کیا کریں گے ؟ چونکہ یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ کورونا ایک متعدی وائرس ہے جو حفاظتی سامان کی کمی کے باعث ڈاکٹروں و دیگر عملے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا اور ڈاکٹر بیمار ہوتے ہیں یا طبی عملے کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے تو اسٹاف خوف میں مبتلاہوکر ملازمت چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور پھر ہم لوگوں کو کیسے اس وبا سے محفوظ رکھ پائیں گے ؟