طالبان کے ساتھ مذاکرات غیر مبہم پالیسی کی ضرورت
موجودہ حکومت کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے آپشن سے ابھی تک پیچھے نہیں ہٹی اور اس کی کوشش ہے کہ...
موجودہ حکومت کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے آپشن سے ابھی تک پیچھے نہیں ہٹی اور اس کی کوشش ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے ۔ طالبان سے ہر صورت مذاکرات کی حکومتی خواہش سے یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ وہ خطے کے مسائل طاقت کے بجائے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی اسی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت طالبان سے مذاکرات کی بحالی چاہتی ہے۔
اب ''ایکسپریس'' اور ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے' حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا جو عمل کھٹائی میں پڑ گیا ہے اور اس میں جو رکاوٹیں حائل ہوئی ہیں حکومت انھیں دور کر کے پاکستان کو نقصان پہنچائے بغیر مذاکرات کے عمل کو جاری رکھے گی' امن مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور کرکے مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے گا لیکن اس کے لیے وقت کا تعین کرنا اور افراد کے حوالے سے بات کرنا مناسب نہیں۔ وزیراطلاعات و نشریات کی گفتگو سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ میں بدستور کئی رکاوٹیں حائل ہیں جنھیں ابھی تک دور نہیں کیا جا سکا اور حکومت انھیں دور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
حکومت کو طالبان سے مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنا ہوم ورک مکمل کر لینا چاہیے تاکہ امن کے لیے اس کی کوششیں بارآور ہو سکیں۔ حکومتی بیانات سے یہ امر کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے بیک ڈور رابطے جاری ہیں اور حکومت اس سلسلے میں ان علمائے کرام اور دیگر شخصیات کی خدمات حاصل کر رہی ہے جو طالبان میں اپنا اثرورسوخ رکھتے اور انھیں قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن جس گرینڈ جرگے میں شریک ہوئے تھے وہ بھی مذاکراتی عمل ہی کا ایک حصہ تھا۔ جے یو آئی (ف) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان اس صورت میں مذاکرات کریں گے جب انھیں یقین ہو جائے کہ حکومتی اقدامات حقیقی ہیں' کوئی ڈرامہ نہیں'حکومت کو اپنے اقدامات سے طالبان کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا۔
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے آج بھی وہی رکاوٹیں بدستور حائل ہیں جو حکیم اللہ محسود کی موت سے قبل تھیں۔ بظاہر معاملات جوں کے توں دکھائی دے رہے ہیں۔ گو حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد طالبان نے انتقامی کارروائیوں کا بڑا سلسلہ شروع نہیں کیا جس کا خدشہ محسوس کیا جا رہا تھا لیکن طالبان کی ابھرنے والی نئی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کے لیے قطعی انکار کر دیا۔ یہ بات مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ اور دوسرے رہنما خالد خراسانی کا موقف اخبارات میں آ چکا ہے کہ مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ڈرون حملے بند کرائے۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے وزیراعظم محمد نواز شریف اپنے دورہ امریکا میں بھی امریکی صدر اوباما سے یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ارباب حکومت کو بھی اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ ان کے اقدامات اسی وقت موثر ہوں گے جب امریکا ڈرون حملے بند کرے گا۔ ادھر ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی پالیسی کا حصہ ہیں۔ طالبان کو یہ حقیقت مدنظر رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ملک تنہا ڈرون حملے نہیں رکوا سکتا۔ ڈرون حملے روکنے کے لیے حکومت پاکستان امریکا سے بارہا مطالبہ کر چکی ہے مگرحکومت اس سے آگے بڑھ کر بزور قوت ڈرون حملے رکوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
ڈرون حملوں پر امریکی موقف بھی سب کے سامنے ہے جو یہ حملے روکنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ ایسی صورت میں طالبان سے مذاکراتی عمل کیسے شروع ہو گا ابھی تک یہ سوال جواب طلب ہے کیونکہ اگر مذاکرات شروع کرنے سے قبل یا اس کے دوران ڈرون حملہ ہو جاتا ہے اور کوئی اہم طالبان لیڈر ہلاک ہو جاتا ہے تو پھر وہی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے موقع پر پیدا ہوئی تھی۔ ادھر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں طالبان مختلف گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور اب انھیں شکست دینا نا ممکن نہیں رہا۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کافی دن تک نئے سربراہ کا انتخاب نہیں کر سکے تھے، بعد میں پہلی بار ایسی قیادت سامنے آئی جس کا تعلق جنوبی وزیرستان یا محسود قبیلے سے نہیں تھا۔
مولوی فضل اللہ اور خالد خراسانی دونوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقے سے ہے،جس کی وجہ سے طالبان کے دوسرے گروپوں کے اختلافات کی خبریں بھی آتی رہیں۔ طالبان کی صفوں میں اگر اختلافات ہیں تو اس کا خدشہ موجود رہے گا کہ مذاکرات کا عمل شاید پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طالبان کے گروپ باہم دست وگریبان ہوجائیں ،بہرحال حکومت مذاکرات کے عمل میں کسی قسم کی تاخیر نہ کرے اور اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کرے کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے گی حکومت کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ عوام میں بے یقینی اور اضطراب موجود رہے گا' یہ اسی کنفیوژن اور اضطراب کا نتیجہ تھا کہ جماعت اسلامی کے امیر کا متنازعہ بیان سامنے آیا اور پھر پاک فوج کو اس کا جواب دینا پڑا' مولانا فضل الرحمن نے بھی ایسا بیان دیا تھا۔
جس پر خاصی لے دے ہوئی تھی' اس قسم کی صورتحال سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو کو ابہام میں رکھنے کے بجائے واضح اور شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے' طالبان پر واضح کیا جائے کہ وہ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی جیسے ایشو سے ہٹ کر یہ بتائے کہ کیا وہ ریاست پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یا نہیں' خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط کسی کالعدم تنظیم کے مطالبے پر تبدیل نہیں ہوتے' زمین کا سچ یہ ہے کہ تحریک طالبان اتنی بڑی عسکری قوت نہیں کہ جسے پاک فوج جیسی پروفیشنل آرمی شکست نہ دے سکے' یہ صرف ابہام ہی جس کی وجہ سے طالبان طاقتور نظر آتے ہیں ورنہ ایسی بکھر ہوئی تنظیم کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف واضح اور غیر مبہم ترجیحات کی ہے' حکومت کو سب سے پہلے اس پر کام کرنا چاہیے' تب ہی طالبان ایشو کسی نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔
اب ''ایکسپریس'' اور ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے' حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا جو عمل کھٹائی میں پڑ گیا ہے اور اس میں جو رکاوٹیں حائل ہوئی ہیں حکومت انھیں دور کر کے پاکستان کو نقصان پہنچائے بغیر مذاکرات کے عمل کو جاری رکھے گی' امن مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور کرکے مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے گا لیکن اس کے لیے وقت کا تعین کرنا اور افراد کے حوالے سے بات کرنا مناسب نہیں۔ وزیراطلاعات و نشریات کی گفتگو سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ میں بدستور کئی رکاوٹیں حائل ہیں جنھیں ابھی تک دور نہیں کیا جا سکا اور حکومت انھیں دور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
حکومت کو طالبان سے مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنا ہوم ورک مکمل کر لینا چاہیے تاکہ امن کے لیے اس کی کوششیں بارآور ہو سکیں۔ حکومتی بیانات سے یہ امر کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے بیک ڈور رابطے جاری ہیں اور حکومت اس سلسلے میں ان علمائے کرام اور دیگر شخصیات کی خدمات حاصل کر رہی ہے جو طالبان میں اپنا اثرورسوخ رکھتے اور انھیں قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن جس گرینڈ جرگے میں شریک ہوئے تھے وہ بھی مذاکراتی عمل ہی کا ایک حصہ تھا۔ جے یو آئی (ف) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان اس صورت میں مذاکرات کریں گے جب انھیں یقین ہو جائے کہ حکومتی اقدامات حقیقی ہیں' کوئی ڈرامہ نہیں'حکومت کو اپنے اقدامات سے طالبان کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا۔
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے آج بھی وہی رکاوٹیں بدستور حائل ہیں جو حکیم اللہ محسود کی موت سے قبل تھیں۔ بظاہر معاملات جوں کے توں دکھائی دے رہے ہیں۔ گو حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد طالبان نے انتقامی کارروائیوں کا بڑا سلسلہ شروع نہیں کیا جس کا خدشہ محسوس کیا جا رہا تھا لیکن طالبان کی ابھرنے والی نئی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کے لیے قطعی انکار کر دیا۔ یہ بات مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ اور دوسرے رہنما خالد خراسانی کا موقف اخبارات میں آ چکا ہے کہ مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ڈرون حملے بند کرائے۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے وزیراعظم محمد نواز شریف اپنے دورہ امریکا میں بھی امریکی صدر اوباما سے یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ارباب حکومت کو بھی اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ ان کے اقدامات اسی وقت موثر ہوں گے جب امریکا ڈرون حملے بند کرے گا۔ ادھر ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی پالیسی کا حصہ ہیں۔ طالبان کو یہ حقیقت مدنظر رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ملک تنہا ڈرون حملے نہیں رکوا سکتا۔ ڈرون حملے روکنے کے لیے حکومت پاکستان امریکا سے بارہا مطالبہ کر چکی ہے مگرحکومت اس سے آگے بڑھ کر بزور قوت ڈرون حملے رکوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
ڈرون حملوں پر امریکی موقف بھی سب کے سامنے ہے جو یہ حملے روکنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ ایسی صورت میں طالبان سے مذاکراتی عمل کیسے شروع ہو گا ابھی تک یہ سوال جواب طلب ہے کیونکہ اگر مذاکرات شروع کرنے سے قبل یا اس کے دوران ڈرون حملہ ہو جاتا ہے اور کوئی اہم طالبان لیڈر ہلاک ہو جاتا ہے تو پھر وہی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے موقع پر پیدا ہوئی تھی۔ ادھر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں طالبان مختلف گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور اب انھیں شکست دینا نا ممکن نہیں رہا۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کافی دن تک نئے سربراہ کا انتخاب نہیں کر سکے تھے، بعد میں پہلی بار ایسی قیادت سامنے آئی جس کا تعلق جنوبی وزیرستان یا محسود قبیلے سے نہیں تھا۔
مولوی فضل اللہ اور خالد خراسانی دونوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقے سے ہے،جس کی وجہ سے طالبان کے دوسرے گروپوں کے اختلافات کی خبریں بھی آتی رہیں۔ طالبان کی صفوں میں اگر اختلافات ہیں تو اس کا خدشہ موجود رہے گا کہ مذاکرات کا عمل شاید پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طالبان کے گروپ باہم دست وگریبان ہوجائیں ،بہرحال حکومت مذاکرات کے عمل میں کسی قسم کی تاخیر نہ کرے اور اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کرے کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے گی حکومت کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ عوام میں بے یقینی اور اضطراب موجود رہے گا' یہ اسی کنفیوژن اور اضطراب کا نتیجہ تھا کہ جماعت اسلامی کے امیر کا متنازعہ بیان سامنے آیا اور پھر پاک فوج کو اس کا جواب دینا پڑا' مولانا فضل الرحمن نے بھی ایسا بیان دیا تھا۔
جس پر خاصی لے دے ہوئی تھی' اس قسم کی صورتحال سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو کو ابہام میں رکھنے کے بجائے واضح اور شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے' طالبان پر واضح کیا جائے کہ وہ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی جیسے ایشو سے ہٹ کر یہ بتائے کہ کیا وہ ریاست پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یا نہیں' خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط کسی کالعدم تنظیم کے مطالبے پر تبدیل نہیں ہوتے' زمین کا سچ یہ ہے کہ تحریک طالبان اتنی بڑی عسکری قوت نہیں کہ جسے پاک فوج جیسی پروفیشنل آرمی شکست نہ دے سکے' یہ صرف ابہام ہی جس کی وجہ سے طالبان طاقتور نظر آتے ہیں ورنہ ایسی بکھر ہوئی تنظیم کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف واضح اور غیر مبہم ترجیحات کی ہے' حکومت کو سب سے پہلے اس پر کام کرنا چاہیے' تب ہی طالبان ایشو کسی نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔