بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ 2009 میں شیخ مجیب کے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنا چکی ہے
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے درجن بھر قاتلوں میں سے ایک، عبدالماجد کو گزشتہ رات ڈھاکہ کے قریب کیرانی گنج جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
عبدالماجد سابق آرمی کیپٹن تھا جس نے درجن بھر فوجیوں کے ساتھ مل کر 15 اگست 1975 کے روز شیخ مجیب الرحمان اور ان کے اہلِ خانہ کو قتل کیا تھا۔ شیخ مجیب کی دو بیٹیاں، شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ، اس لیے زندہ بچ گئیں کیونکہ وہ اُن دنوں جرمنی میں تھیں۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ 2009 میں شیخ مجیب کے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنا چکی ہے جن میں سے پانچ مجرموں کو 2010 میں پھانسی دی جاچکی ہے۔ تاہم باقی افراد میں سے بیشتر اب بھی مفرور ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ امریکا اور کینیڈا میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ شیخ مجیب کا ایک قاتل کچھ سال پہلے زمبابوے میں طبعی موت مرچکا ہے۔
اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح عبدالماجد نے بھی شیخ مجیب کے قتل کا اعتراف کیا تھا اور بھی کئی سال سے مفرور تھا۔ وہ چند روز پہلے ہی بنگلہ دیش واپس آیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ طویل عرصے تک بھارت میں روپوش رہا۔
بنگلہ دیش واپسی پر اسے منگل کے روز گرفتار کیا گیا جسے بنگلہ دیش کے وزیرِ داخلہ اسدالزماں خان نے ''سال کا سب سے بڑا تحفہ'' قرار دیا تھا۔ عبدالماجد کی جانب سے بنگلہ دیش کے صدر سے سزائے موت کے خلاف رحم کی درخواست بھی کی گئی جسے مسترد کردیا گیا۔
واضح رہے کہ بعد کی بنگلہ دیشی حکومتوں نے شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث فوجیوں کو بڑے عہدوں سے نوازا لیکن شیخ حسینہ کے وزیراعظم بننے کے بعد سے ان لوگوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔
عبدالماجد سابق آرمی کیپٹن تھا جس نے درجن بھر فوجیوں کے ساتھ مل کر 15 اگست 1975 کے روز شیخ مجیب الرحمان اور ان کے اہلِ خانہ کو قتل کیا تھا۔ شیخ مجیب کی دو بیٹیاں، شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ، اس لیے زندہ بچ گئیں کیونکہ وہ اُن دنوں جرمنی میں تھیں۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ 2009 میں شیخ مجیب کے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنا چکی ہے جن میں سے پانچ مجرموں کو 2010 میں پھانسی دی جاچکی ہے۔ تاہم باقی افراد میں سے بیشتر اب بھی مفرور ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ امریکا اور کینیڈا میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ شیخ مجیب کا ایک قاتل کچھ سال پہلے زمبابوے میں طبعی موت مرچکا ہے۔
اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح عبدالماجد نے بھی شیخ مجیب کے قتل کا اعتراف کیا تھا اور بھی کئی سال سے مفرور تھا۔ وہ چند روز پہلے ہی بنگلہ دیش واپس آیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ طویل عرصے تک بھارت میں روپوش رہا۔
بنگلہ دیش واپسی پر اسے منگل کے روز گرفتار کیا گیا جسے بنگلہ دیش کے وزیرِ داخلہ اسدالزماں خان نے ''سال کا سب سے بڑا تحفہ'' قرار دیا تھا۔ عبدالماجد کی جانب سے بنگلہ دیش کے صدر سے سزائے موت کے خلاف رحم کی درخواست بھی کی گئی جسے مسترد کردیا گیا۔
واضح رہے کہ بعد کی بنگلہ دیشی حکومتوں نے شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث فوجیوں کو بڑے عہدوں سے نوازا لیکن شیخ حسینہ کے وزیراعظم بننے کے بعد سے ان لوگوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔