مسنگ نواز شریف
آپ ایک لمحے کے لیے مسنگ نواز شریف بن جائیے یا پھر ملک کے تمام مسنگ پرسنز کو حسین نواز شریف سمجھ لیجیے
میاں صاحب آپ کو وہ دن یقیناً یاد ہو گا' فوج نے جب 12 اکتوبر 1999ء کی شام وزیراعظم ہاؤس کو گھیر لیا' آپ کے اے ڈی سی' آپ کے فوجی کمانڈوز اور آپ کے ملٹری اسٹاف نے اپنی نظریں پھیر لیں اور آپ آدھ گھنٹے میں دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کے ہیوی مینڈیٹ وزیراعظم کے عہدے سے اتر کر قیدی وزیراعظم بن گئے' آپ کو شروع میں وزیراعظم ہاؤس میں قید کیا گیا' آپ کو بعد ازاں مری لے جایا گیا اوروہاں گورنر ہاؤس میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا' آپ کمرے میں تنہا تھے' کمرے کے دروازے پر سیل تھی' آپ کو کھانا بھی دروازے کے نیچے سے دیا جاتا تھا' آپ کو اپنے خاندان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔
آپ کے بھائیوں' آپ کے صاحبزادوں اور آپ کے والدین میں سے کون زندہ تھا اور کون دنیا سے رخصت ہو چکا تھا' آپ نہیں جانتے تھے' تنہائی کے ان دنوں میں آپ کے پاس اللہ کی یاد' ایک ڈوبتی تیرتی نامکمل امید اور اپنی ماضی کی غلطیوں کے تجزیے کے سوا کچھ نہیں تھا' آپ اپنے خاندان کے کسی فرد کی آواز سننا چاہتے تھے اور آپ سے اگر کوئی اس وقت اس آواز کے بدلے کوئی قیمت مانگ لیتا تو آپ یہ قیمت اسی وقت چکا دیتے مگر وقت ناراض ہو چکا تھا اور جب وقت ناراض ہوتا ہے تو اللہ انسان کے انتہائی قریبی لوگوں کو اس سے دور کر دیتا ہے' آپ کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا' آپ کے صاحبزادے حسین نواز شریف حافظ قرآن ہیں' قید خانے کے مالکوں نے انھیں قرآن مجید تک فراہم نہ کیا مگر دنیا کی کوئی طاقت زبان نہیں روک سکتی چنانچہ حافظ حسین نواز شریف روز اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔
میاں صاحب آپ کو یاد ہو گا آپ ایک دن انتہائی پریشان تھے' آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں پر توبہ کی اور اچانک ہوا حسین نواز شریف کی بیرک سے آپ کی بیرک کی طرف چلنے لگی' آپ کے کانوں تک حسین نواز شریف کی تلاوت کی آواز پہنچ گئی' یہ آواز اس وقت آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا تحفہ تھا؟ یہ آپ جانتے ہیں یا پھر آپ کا اللہ تعالیٰ۔ آپ آج!جی ہاں آج! ایک لمحے کے لیے اس آواز' مری کی ٹھنڈی پڑتی راتوں اور ان راتوں کو سنبھالتا ہوا کمزور' بدبودار اور چھوٹا سا کمبل' آپ ایک لمحے کے لیے ان تمام چیزوں' ان تمام گزری باتوں کو ذہن میں لائیے' مجھے یقین ہے آپ مسنگ پرسنز' مسنگ پرسنز کے والدین' ان کے بھائیوں اور بہنوں اور دوستوں کا دکھ سمجھ جائیں گے' آپ کو ان میں سے ہر شخص کے اندر ایک جیتا' جاگتا اور تڑپتا میاں نواز شریف نظر آئے گا' آپ اٹھ کر بیٹھ جائیں گے اور شاید آپ کے ماتھے پر پسینہ بھی آ جائے۔
ہم تمام لوگ خوف' پریشانی' اندیشوں' غلطیوں اور گناہوں میں گندھے ہوئے گوشت پوست کے انسان ہیں' ہم سب ایک جیسے ہیں'ہم پر جب زکام حملہ کرتا ہے تو میاں صاحب آپ اور عام مزدور دونوں کی ناک بہتی ہے اور دونوں ٹشو پیپر تلاش کرتے ہیں' چوٹ' دکھ' درد اور پریشانی دونوں کو بے چین کر دیتی ہے اور ہم عام شہری ہوں یا وزیراعظم' ہم سب کو پانی' ہوا اور خوراک ' سانس لینے' عدالت میں قانون کا سامنا کرنے' اپنی ماں کے ہاتھ چومنے' اپنی بیٹی' اپنے بیٹے سے گلے ملنے اور اپنے والد کو گلے لگانے کا حق چاہتے ہیں' ہم بیٹے بھی ہوتے ہیں' شوہر بھی اور باپ بھی اور ہم سب کے دکھ اور تکلیف بھی ایک جیسے ہوتے ہیں' آپ یاد رکھئے' آپ بھی ایک وقت میں مسنگ پرسن تھے اور آپ بھی ملک میں انصاف تلاش کرتے پھر رہے تھے لیکن انصاف کے راستے میں رائفل' بوٹ اور جنرل پرویز مشرف کے احکامات کھڑے تھے مگر آج آپ سیکڑوں ہزاروں مسنگ پرسنز کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وزیراعظم ہاؤس کو انجوائے کر رہے ہیں۔
آپ ایک لمحے کے لیے مسنگ نواز شریف بن جائیے یا پھر ملک کے تمام مسنگ پرسنز کو حسین نواز شریف سمجھ لیجیے' آپ کو لوگوں کا دکھ سمجھ آ جائے گا' صدر پرویز مشرف کے دور سے ملک بھر سے مشکوک لوگ اٹھائے جا رہے ہیں' یہ لوگ عقوبت خانوں میں پھینکے جاتے ہیں اور وہاں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے' آپ کسی ایک مسنگ پرسن کی کہانی سن لیجیے' آپ پھر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکیں گے' مسنگ پرسنز کے لواحقین دس سال سے پارلیمنٹ ہاؤس' میڈیا کے دفاتر اور پریس کلب کے سامنے دھرنے دے رہے ہیں' ہم صحافی کالم اور پروگرام کر کے تھک گئے ہیں مگر جبر کے نظام کی پیشانی پر خدا ترسی کا ایک قطرہ تک نہیں ابھرا' آپ تصور کیجیے' بلوچستان کے 35 مسنگ پرسنز کے لواحقین کوئٹہ سے ساڑھے سات سو کلو میٹر کا پیدل سفر کر کے کراچی پہنچے اور یہ لوگ 12 دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہیں' ان میں بوڑھی خواتین'جوان لڑکیاں اور نابالغ بچیاں بھی شامل ہیں۔
آپ ان کے پاؤں میں آبلے بھی دیکھ سکتے ہیں' یہ لوگ کیا چاہتے ہیں' یہ صرف ایک بار اپنے اپنے نواز شریف اور حسین نواز کو دیکھنا چاہتے ہیں' یہ اس کی تلاوت' اس کی آواز سننا چاہتے ہیں مگر ہمارا نظام ان کی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دے رہا' میں ہرگز یہ نہیں کہتا' یہ مسنگ پرسنز بے گنا ہیں' یہ تمام لوگ مجرم ہو سکتے ہیں' یہ گناہگار' قاتل' غدار اور ظالم بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہم آئین توڑنے' لال مسجد پر حملہ کرنے' سپریم جوڈیشری کو معطل کرنے اور ججوں کو گھروں میں محبوس کرنے والے ملزم جنرل(ریٹائر) پرویز مشرف کو عدالتوں میں پیش ہونے' وکیل کرنے' ثبوت اور دلائل دینے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں مگر یہ مسنگ پرسنز عدالت میں پیش ہونے کا حق نہیں رکھتے؟ یہ لوگ یقیناً مجرم ہوں گے لیکن ان کے جرم کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا ان کے لیے قانون مختلف اور جنرل مشرف کے لیے قانون اور ہے' دنیا کا قانون سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو بھی اپنی صفائی کا موقع دیتا ہے لیکن ہم مسنگ پرسنز کو تھانے اور عدالت میں پیش ہونے تک کی اجازت نہیں دے رہے' کیا یہ ظلم نہیں؟ کیا یہ زیادتی نہیں؟۔
میاں صاحب چیف جسٹس آف پاکستان اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے مسنگ پرسنز کا ایشو حل کرنا چاہتے ہیں' آپ مہربانی فرما کر ان کا ساتھ دیں' آپ عدالت کے احکامات پر عمل کا حکم جاری کر دیں' آپ بلوچستان کے 33مسنگ پرسنز کو عدالت میں پیش کریں اور باقی تمام مسنگ پرسنز کو دہشت گردی کی عدالتوں کے حوالے کر دیں' عدالتیں ان کا فیصلہ کریں' ملک میں اگر دہشت گردوں کے لیے قانون نہیں تو آپ ایک آدھ دن میں قانون بنائیں' یہ لوگ اگر مجرم ہیں تو انھیں کڑی سے کڑی سزا دیں اور یہ اگر بے گناہ ہیں تو پھر ان بے گناہوں کو اٹھانے والوں' حراست میں رکھنے والوں اور ان پر تشدد کرنے والوں کو سزا دیں' آپ نے کل موٹر ویز کے سابق آئی جی ظفر عباس لک کو گریڈ 21 سے گریڈ 20 میں ''ڈی موٹ'' کردیا تھا' ظفرعباس لک کا قصور یہ تھا' آپ کے وزیراعظم بننے کے بعد اس نے سرکاری خزانے سے آپ کے لیے مبارک باد کا اشتہار دے دیا تھا۔
آپ ناراض ہو گئے اور آپ نے اسے ''ڈی موٹ'' کر دیا لیکن کیا آپ مسنگ پرسنز اور بے گناہ مسنگ پرسنز کو غیر قانونی حراست میں رکھنے' انھیں تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے والے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بھی یہ سلوک کر سکیں گے؟ کیا آپ انھیں بھی ''ڈی موٹ'' کریں گے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ تھیوری اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے' ذاتی قید' ذاتی دکھ اور ذاتی مسائل ذاتی ہوتے ہیں اور پرائے مسائل' پرائے دکھ اور پرائی قید پرائی ہوتی ہے' ہم صرف اپنی ماؤں کو مائیں' اپنی بہنوں کو بہنیں اور اپنی بیٹیوں کو بیٹیاں سمجھتے ہیں' ہم اپنی غلطیوں کے وکیل ہوتے ہیں اور دوسروں کی خطاؤں کے جج' ہم اپنے بڑے سے بڑے جرم' بڑے سے بڑے گناہ کو قابل معافی سمجھتے ہیں جب کہ ہم دوسروں کی معمولی سی غلطیوں پر تارا مسیح بن جاتے ہیں۔
ہم سعودی عرب اور لندن میں بھی بیٹھے ہوں تو ہمیں پاکستانی عدالتوں سے انصاف چاہیے ہوتا ہے لیکن ملک کے غریب اور بے آسراء لوگ کوئٹہ' پشاور' کراچی اور اسلام آباد کے سیف ہاؤسز میں ہوں تو بھی ہم انھیں تھانے' کچہری اور عدالت کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے' ہمارے ملک میں آج بھی چیف آف آرمی اسٹاف وزیر دفاع کو سیلوٹ کر دے تو یہ بریکنگ نیوزہوتی ہے اور ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں' ہم نے آج بھی انصاف کو طاقتور لوگوں کی دہلیز پر باندھ رکھا ہے' میاں صاحب آپ اگر آج مظلوموں کی دعائیں لینا چاہتے ہیں' آپ اگر ملک پر سایہ فگن نحوست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپ تمام مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کرنے کا اعلان کر یں' آپ خدا اور خلق خدا دونوں کی خوشنودی پا جائیں گے ' مسنگ پرسنز کے دکھ کو ماضی کا ایک مسنگ پرسن ہی سمجھ سکتا ہے' مسنگ میاں نواز شریف۔
آپ کے بھائیوں' آپ کے صاحبزادوں اور آپ کے والدین میں سے کون زندہ تھا اور کون دنیا سے رخصت ہو چکا تھا' آپ نہیں جانتے تھے' تنہائی کے ان دنوں میں آپ کے پاس اللہ کی یاد' ایک ڈوبتی تیرتی نامکمل امید اور اپنی ماضی کی غلطیوں کے تجزیے کے سوا کچھ نہیں تھا' آپ اپنے خاندان کے کسی فرد کی آواز سننا چاہتے تھے اور آپ سے اگر کوئی اس وقت اس آواز کے بدلے کوئی قیمت مانگ لیتا تو آپ یہ قیمت اسی وقت چکا دیتے مگر وقت ناراض ہو چکا تھا اور جب وقت ناراض ہوتا ہے تو اللہ انسان کے انتہائی قریبی لوگوں کو اس سے دور کر دیتا ہے' آپ کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا' آپ کے صاحبزادے حسین نواز شریف حافظ قرآن ہیں' قید خانے کے مالکوں نے انھیں قرآن مجید تک فراہم نہ کیا مگر دنیا کی کوئی طاقت زبان نہیں روک سکتی چنانچہ حافظ حسین نواز شریف روز اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔
میاں صاحب آپ کو یاد ہو گا آپ ایک دن انتہائی پریشان تھے' آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں پر توبہ کی اور اچانک ہوا حسین نواز شریف کی بیرک سے آپ کی بیرک کی طرف چلنے لگی' آپ کے کانوں تک حسین نواز شریف کی تلاوت کی آواز پہنچ گئی' یہ آواز اس وقت آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا تحفہ تھا؟ یہ آپ جانتے ہیں یا پھر آپ کا اللہ تعالیٰ۔ آپ آج!جی ہاں آج! ایک لمحے کے لیے اس آواز' مری کی ٹھنڈی پڑتی راتوں اور ان راتوں کو سنبھالتا ہوا کمزور' بدبودار اور چھوٹا سا کمبل' آپ ایک لمحے کے لیے ان تمام چیزوں' ان تمام گزری باتوں کو ذہن میں لائیے' مجھے یقین ہے آپ مسنگ پرسنز' مسنگ پرسنز کے والدین' ان کے بھائیوں اور بہنوں اور دوستوں کا دکھ سمجھ جائیں گے' آپ کو ان میں سے ہر شخص کے اندر ایک جیتا' جاگتا اور تڑپتا میاں نواز شریف نظر آئے گا' آپ اٹھ کر بیٹھ جائیں گے اور شاید آپ کے ماتھے پر پسینہ بھی آ جائے۔
ہم تمام لوگ خوف' پریشانی' اندیشوں' غلطیوں اور گناہوں میں گندھے ہوئے گوشت پوست کے انسان ہیں' ہم سب ایک جیسے ہیں'ہم پر جب زکام حملہ کرتا ہے تو میاں صاحب آپ اور عام مزدور دونوں کی ناک بہتی ہے اور دونوں ٹشو پیپر تلاش کرتے ہیں' چوٹ' دکھ' درد اور پریشانی دونوں کو بے چین کر دیتی ہے اور ہم عام شہری ہوں یا وزیراعظم' ہم سب کو پانی' ہوا اور خوراک ' سانس لینے' عدالت میں قانون کا سامنا کرنے' اپنی ماں کے ہاتھ چومنے' اپنی بیٹی' اپنے بیٹے سے گلے ملنے اور اپنے والد کو گلے لگانے کا حق چاہتے ہیں' ہم بیٹے بھی ہوتے ہیں' شوہر بھی اور باپ بھی اور ہم سب کے دکھ اور تکلیف بھی ایک جیسے ہوتے ہیں' آپ یاد رکھئے' آپ بھی ایک وقت میں مسنگ پرسن تھے اور آپ بھی ملک میں انصاف تلاش کرتے پھر رہے تھے لیکن انصاف کے راستے میں رائفل' بوٹ اور جنرل پرویز مشرف کے احکامات کھڑے تھے مگر آج آپ سیکڑوں ہزاروں مسنگ پرسنز کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وزیراعظم ہاؤس کو انجوائے کر رہے ہیں۔
آپ ایک لمحے کے لیے مسنگ نواز شریف بن جائیے یا پھر ملک کے تمام مسنگ پرسنز کو حسین نواز شریف سمجھ لیجیے' آپ کو لوگوں کا دکھ سمجھ آ جائے گا' صدر پرویز مشرف کے دور سے ملک بھر سے مشکوک لوگ اٹھائے جا رہے ہیں' یہ لوگ عقوبت خانوں میں پھینکے جاتے ہیں اور وہاں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے' آپ کسی ایک مسنگ پرسن کی کہانی سن لیجیے' آپ پھر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکیں گے' مسنگ پرسنز کے لواحقین دس سال سے پارلیمنٹ ہاؤس' میڈیا کے دفاتر اور پریس کلب کے سامنے دھرنے دے رہے ہیں' ہم صحافی کالم اور پروگرام کر کے تھک گئے ہیں مگر جبر کے نظام کی پیشانی پر خدا ترسی کا ایک قطرہ تک نہیں ابھرا' آپ تصور کیجیے' بلوچستان کے 35 مسنگ پرسنز کے لواحقین کوئٹہ سے ساڑھے سات سو کلو میٹر کا پیدل سفر کر کے کراچی پہنچے اور یہ لوگ 12 دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہیں' ان میں بوڑھی خواتین'جوان لڑکیاں اور نابالغ بچیاں بھی شامل ہیں۔
آپ ان کے پاؤں میں آبلے بھی دیکھ سکتے ہیں' یہ لوگ کیا چاہتے ہیں' یہ صرف ایک بار اپنے اپنے نواز شریف اور حسین نواز کو دیکھنا چاہتے ہیں' یہ اس کی تلاوت' اس کی آواز سننا چاہتے ہیں مگر ہمارا نظام ان کی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دے رہا' میں ہرگز یہ نہیں کہتا' یہ مسنگ پرسنز بے گنا ہیں' یہ تمام لوگ مجرم ہو سکتے ہیں' یہ گناہگار' قاتل' غدار اور ظالم بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہم آئین توڑنے' لال مسجد پر حملہ کرنے' سپریم جوڈیشری کو معطل کرنے اور ججوں کو گھروں میں محبوس کرنے والے ملزم جنرل(ریٹائر) پرویز مشرف کو عدالتوں میں پیش ہونے' وکیل کرنے' ثبوت اور دلائل دینے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں مگر یہ مسنگ پرسنز عدالت میں پیش ہونے کا حق نہیں رکھتے؟ یہ لوگ یقیناً مجرم ہوں گے لیکن ان کے جرم کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا ان کے لیے قانون مختلف اور جنرل مشرف کے لیے قانون اور ہے' دنیا کا قانون سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو بھی اپنی صفائی کا موقع دیتا ہے لیکن ہم مسنگ پرسنز کو تھانے اور عدالت میں پیش ہونے تک کی اجازت نہیں دے رہے' کیا یہ ظلم نہیں؟ کیا یہ زیادتی نہیں؟۔
میاں صاحب چیف جسٹس آف پاکستان اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے مسنگ پرسنز کا ایشو حل کرنا چاہتے ہیں' آپ مہربانی فرما کر ان کا ساتھ دیں' آپ عدالت کے احکامات پر عمل کا حکم جاری کر دیں' آپ بلوچستان کے 33مسنگ پرسنز کو عدالت میں پیش کریں اور باقی تمام مسنگ پرسنز کو دہشت گردی کی عدالتوں کے حوالے کر دیں' عدالتیں ان کا فیصلہ کریں' ملک میں اگر دہشت گردوں کے لیے قانون نہیں تو آپ ایک آدھ دن میں قانون بنائیں' یہ لوگ اگر مجرم ہیں تو انھیں کڑی سے کڑی سزا دیں اور یہ اگر بے گناہ ہیں تو پھر ان بے گناہوں کو اٹھانے والوں' حراست میں رکھنے والوں اور ان پر تشدد کرنے والوں کو سزا دیں' آپ نے کل موٹر ویز کے سابق آئی جی ظفر عباس لک کو گریڈ 21 سے گریڈ 20 میں ''ڈی موٹ'' کردیا تھا' ظفرعباس لک کا قصور یہ تھا' آپ کے وزیراعظم بننے کے بعد اس نے سرکاری خزانے سے آپ کے لیے مبارک باد کا اشتہار دے دیا تھا۔
آپ ناراض ہو گئے اور آپ نے اسے ''ڈی موٹ'' کر دیا لیکن کیا آپ مسنگ پرسنز اور بے گناہ مسنگ پرسنز کو غیر قانونی حراست میں رکھنے' انھیں تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے والے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بھی یہ سلوک کر سکیں گے؟ کیا آپ انھیں بھی ''ڈی موٹ'' کریں گے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ تھیوری اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے' ذاتی قید' ذاتی دکھ اور ذاتی مسائل ذاتی ہوتے ہیں اور پرائے مسائل' پرائے دکھ اور پرائی قید پرائی ہوتی ہے' ہم صرف اپنی ماؤں کو مائیں' اپنی بہنوں کو بہنیں اور اپنی بیٹیوں کو بیٹیاں سمجھتے ہیں' ہم اپنی غلطیوں کے وکیل ہوتے ہیں اور دوسروں کی خطاؤں کے جج' ہم اپنے بڑے سے بڑے جرم' بڑے سے بڑے گناہ کو قابل معافی سمجھتے ہیں جب کہ ہم دوسروں کی معمولی سی غلطیوں پر تارا مسیح بن جاتے ہیں۔
ہم سعودی عرب اور لندن میں بھی بیٹھے ہوں تو ہمیں پاکستانی عدالتوں سے انصاف چاہیے ہوتا ہے لیکن ملک کے غریب اور بے آسراء لوگ کوئٹہ' پشاور' کراچی اور اسلام آباد کے سیف ہاؤسز میں ہوں تو بھی ہم انھیں تھانے' کچہری اور عدالت کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے' ہمارے ملک میں آج بھی چیف آف آرمی اسٹاف وزیر دفاع کو سیلوٹ کر دے تو یہ بریکنگ نیوزہوتی ہے اور ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں' ہم نے آج بھی انصاف کو طاقتور لوگوں کی دہلیز پر باندھ رکھا ہے' میاں صاحب آپ اگر آج مظلوموں کی دعائیں لینا چاہتے ہیں' آپ اگر ملک پر سایہ فگن نحوست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپ تمام مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کرنے کا اعلان کر یں' آپ خدا اور خلق خدا دونوں کی خوشنودی پا جائیں گے ' مسنگ پرسنز کے دکھ کو ماضی کا ایک مسنگ پرسن ہی سمجھ سکتا ہے' مسنگ میاں نواز شریف۔