ایران کا درست سمت میں پہلا قدم

امریکا اوراس کے اتحادی طویل عرصے سے ایران پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہوجائے۔


Zaheer Akhter Bedari December 02, 2013
[email protected]

امریکا اوراس کے اتحادی طویل عرصے سے ایران پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہوجائے۔ایران اقتصادی پابندیوں میں اس طرح جکڑا گیا کہ وہ بدحالی کا شکار ہوگیا لیکن امریکا کے دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہ ہوا،ایران کی امریکا سے محاذ آرائی کا یہ سلسلہ ایران کے سابقہ حکمران احمدی نژاد کے پورے دور میں جاری رہا۔ ایران سے امریکا کی دشمنی کی بڑی وجہ ایران کی اسرائیل دشمنی تھی چونکہ آج کی ''جمہوری دنیا'' میں ''قومی مفادات'' کو اولیت حاصل ہے اس لیے امریکا سمیت ہر ملک کی پالیسیاں قومی مفاد کے محور پر ہی گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی مکمل طور پر قومی مفاد کے گرد گھومتی ہے اسے اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں رہی کہ ایران کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت سے عالمی امن اور عالمی مفادات کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ خاص طور پر مسلم دنیا میں امریکا کی اس پالیسی سے امریکا کے خلاف نفرت میں کس شدت سے اضافہ ہورہا ہے۔

ایران میں احمدی نژادکے بعد حسن روحانی کی قیادت میں جو حکومت برسر اقتدار آئی اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ اعتدال پسند حکومت ہے۔ اس تاثر کے پس منظر میں ہم نے اپنے دو تین کالموں میں حسن روحانی حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ایران اور مسلم دنیا کے اجتماعی مفادات کی خاطر اپنی پالیسیوں خصوصاً ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تبدیلی لاکر ایران کو معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کرے اور امریکا اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف تنہا لڑنے کے بجائے ان ملکوں کے ساتھ مل کر جو امریکا اور اسرائیلی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں امریکا اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کرے۔ دوسرا مشورہ ہم نے حسن روحانی حکومت کو یہ دیا تھا کہ وہ طویل مسلکی سیاست سے باہر نکل کر مسلم ملکوں میں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ جنگ کو روکنے میں کردار ادا کرے۔

جہاں تک پہلی تجویز کا تعلق ہے ہمیں بڑی خوشی ہے کہ حسن روحانی حکومت نے ایرانی عوام کے مفاد کی خاطر اپنے ایٹمی پروگرام میں لچک پیدا کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران اور چھ ملکوں کے درمیان وہ معاہدہ ہوا جس کی اس خطے کے عوام کو ضرورت تھی ویسے تو ایران ہمیشہ یہی کہتا رہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ سو ان ہی خطوط پر یہ تاریخی معاہدہ ہوا اور امریکی صدر اوباما نے نہ صرف اس بات کو تسلیم کیا کہ ایران کو پرامن ایٹمی سرگرمیوں کا حق حاصل ہے بلکہ ایران کی معاشی بحالی کے لیے لگ بھگ 11 ارب ڈالر دینے کا اعلان بھی کیا۔ یہ معاہدہ نہ ایران کی شکست ہے نہ امریکا کی فتح بلکہ اس پورے خطے میں رہنے والے عوام کے بہتر مستقبل اور امن کے فروغ کی علامت ہے۔ اس معاہدے میں امریکا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

امن کے حق میں اور جنگ کے خلاف کی جانے والی ہرکوشش کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ لیکن دنیا کے اہل خرد اس معاہدے کے تناظر میں امریکی حکومت سے یہ سوال کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں کہ کیا دنیا کی واحد سپر پاور اپنی خارجہ پالیسیوں میں غیر جانبدار ہے؟ اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے ایران پر اقتصادی دباؤ ڈال کر جو معاہدہ کروایا ہے کیا وہ دنیا کے امن کی خاطر کیا گیا ہے یا صرف اسرائیل کے تحفظ کی خاطر؟ اگر یہ معاہدہ صرف اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر کرایا گیا ہے تو پھر امریکی صدر کے اس بیان کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے کہ ''اس معاہدے سے دنیا کے امن کی کوششوں میں پیش رفت ہوئی ہے؟''امریکا مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں خصوصاً خاندانی حکمرانیوں والے عرب ملکوں کو اپنا تابعدار بناکر انھیں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے سے تو روک رہا ہے لیکن اسرائیل کے فلسطینیوں پر بڑھتے ہوئے مظالم سے جہاں مسلم ملکوں کے اعتدال پسند عوام انتہا پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں وہیں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کھاد کا کام کر رہے ہیں۔

امریکا ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے فروغ کے سامان پیدا کر رہا ہے اس دوغلی سیاست کا ایک اور نمونہ ہم شام میں امریکی مداخلت میں دیکھ سکتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کو دنیا کے دشمن امن کے دشمن قرار دینے والا امریکا شام میں بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے القاعدہ اور طالبان کو جمہوریت کے سپاہیوں کی طرح استعمال کر رہا ہے اور بشارالاسد کی حکومت کا تختہ امریکا اس لیے الٹنا چاہتا ہے کہ بشارالاسد شام کو سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شامی آمریت کے خلاف جمہوری لڑائی میں مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں اور شیوخ کے بھاری سرمایے کو استعمال کر رہا ہے۔

ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روک کر اوباما اس کامیابی کو دنیا کے امن کے لیے نیک شگون قرار دے رہے ہیں جب کہ ایران ابھی تک ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی طرف صرف معمولی سی پیش رفت کر رہا تھا اور مستقبل قریب میں اسرائیل سے ایران کی جنگ کے کوئی واضح امکانات بھی نہیں تھے لیکن ہندوستان اور پاکستان دونوں ایٹمی ملک ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان بار بار پیدا ہونے والی کشیدگی انھیں جنگ کے قریب لاتی رہی ہے کیا یہ صورت حال دنیا کے امن کے لیے خطرہ نہیں؟ اگر ہے تو امریکا آنکھیں بند کیے کیوں بیٹھا ہے؟

دنیا کا ہر ذی شعور انسان ایٹمی ہتھیاروں کو پوری انسانی برادری کے لیے ایک ہولناک خطرہ سمجھتی ہے۔ اور ایٹمی ہتھیار واقعی دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ کیا یہ خطرہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے سے کم یا ختم ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں، کیونکہ ہیروشیما اور ناگاساکی سے سیکڑوں گنا زیادہ خطرناک ایٹمی ہتھیار امریکا، روس سمیت کئی ملکوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور کسی بھی وقت کسی بھی ملک کی حماقت کی وجہ سے یہ ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں کیوبا کے مسئلے پر روس اور امریکا ایٹمی جنگ کے قریب پہنچ چکے تھے۔

امریکا بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا سرپرست اور محافظ ہے اور دنیا بھر کے عوام اس استحصالی نظام کی تباہ کاریوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آرہے ہیں لاطینی امریکا کے ملک سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے شدید مخالف ہیں۔ وینزویلا کے ہیوگوشاویز امریکا اس کے نظام اس کی پالیسیوں کے سخت دشمن تھے اگرچہ وہ اب اس دنیا میں نہ رہے لیکن کیا اس امکان کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ لاطینی امریکا یا دنیا کے کسی اور ملک میں امریکا اور اس کے نظام کا کوئی دشمن پیدا ہوسکتا ہے اور اگر کوئی ایسا دشمن پیدا ہوگیا اور دنیا اس کے ساتھ ہوگئی تو کیا امریکا اور اس کے اتحادی اپنے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کریں گے؟

بے شک ایران کو ایٹمی ملک بننے سے روکنا ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن دنیا کے سر پر جو ہزاروں ایٹمی ہتھیار لٹک رہے ہیں ان کی موجودگی تک کیا دنیا ایٹمی خطرے سے محفوظ رہے گی؟ ہرگز نہیں، ایران کو ایٹمی ملک بننے سے روک کر بغلیں بجانے والے اگر دنیا کو ایٹمی خطرے سے نجات دلانے میں واقعی مخلص ہیں تو پھر انھیں دنیا میں موجود ایٹمی ذخائر کو تلف کرنے کے ایک ایسے جامع پروگرام پر متفق ہونا پڑے گا جس میں کسی قسم کی جانبداری امتیاز اور قومی مفاد کا کوئی دخل نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔