ٹاٹ سے کرسی تک کا سفر
ملک کے معروف شاعر اور ہمارے قطعہ نگار جناب انور مسعود کے ایک قطعے سے میں نے ایک شعر ان کی اجازت کے بغیر۔۔۔
ملک کے معروف شاعر اور ہمارے قطعہ نگار جناب انور مسعود کے ایک قطعے سے میں نے ایک شعر ان کی اجازت کے بغیر اپنے اوپر صادق کر لیا ہے، اس لیے کہ یہ میرے بہت ہی حسب حال تھا۔ شہر میں رہنے والے ایک اصیل دیہاتی نے اس شعر میں اپنی حالت کی سچی تصویر دیکھی، اب وہ شعر سن لیجیے۔
دھواں دھواں ہے درختوں کی داستاں انور
کہ جنگلوں میں پلے اور بستیوں میں جلے
میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ پنجاب کے سلسلہ کوہستان نمک کی ایک پہاڑی وادی سون سکیسر کا پیدائشی ہوں۔ جسم کی ابتدائی توانائیاں گاؤں کی گلیوں اور کھیتوں سے حاصل کیں، جوانی کا آغاز ہوا تو لاہور کے تدریسی مرکزوں نے اپنی طرف کھینچ لیا پھر صحافت میں آ گئے اور اب تک درختوں کی یہ داستان جو دھواں دھواں ہو چکی ہے پلی بڑھی تو جنگلوں میں لیکن مدتوں سے جل رہی ہے لاہور کی بھٹیوں میں۔ آج لاہورمیں جلنے والی ان لکڑیوں کو گاؤں بہت یاد آرہا ہے جہاں کے پہاڑوں کی چوٹیوں اور ڈھلوانوں میں کبھی وہ لہلاتی تھیں اور ان کے قدموں میں اگنے والی گھاس سے گاؤں کے مویشی زندگی پاتے تھے۔ ہرنوں کی جنگلی نسل سے تعلق رکھنے والی بکریاں جھاڑیوں کی شاخوں کو اپنے سامنے جھکا کر ان کے پتے نوچ لیتی تھیں اور پھر ٹنڈ منڈ شاخوں کو ہواؤں میں گویا اچھال دیتی تھیں۔
جیسا کہ میں بار بار عرض کر چکا ہوں کہ میں ایک بارانی علاقے کا جم پل ہوں جس کی روزی آسمانوں سے بادلوں کی کرمفرمائی سے نازل ہوتی ہے، ادھر بہت عرصے سے بارشیں نہیں ہوئیں، قحط کی سی حالت ہے اور میں نے ایسے سال بھی دیکھے ہیں کہ گندم کی کاشت کے موقع پر بارش نہ ہوئی، زمین خاک اڑاتی رہی اور آسمان یہ تماشا دیکھتا رہا۔
میں لاہور میں گاؤں کی گندم کا آٹا کھاتا ہوں جس کے ایک پھلکے کی توانائی کئی ڈبل روٹیوں پر بھاری ہوتی ہے اور ذائقہ قدرت کا ایک عطیہ۔ کوئی دو تین برس پہلے وہی سال پھر آ گیا جب گندم کی کاشت کے وقت بارش نہ ہوئی اور اطلاع مل گئی کہ اس سال تو لاہور کی گندم پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔ میں کئی دن گاؤں کی گندم کے بغیر لاہور کی ایک فاسٹ فوڈ پر گزر بسر کرتا رہا مگر کب تک' لاہور کی منڈی سے گندم منگوانے کا کہا اور اس طرح لاہور کی آب و ہوا مکمل ہو گئی۔ جس شہر میں آپ کو پسند کا کھانا نہ ملے، اس شہر میں رہنا کیا' یہ تو جنگلوں کی آزاد پیداوار کو لاہور کے چولہوں سے جلانے والی بات ہوئی جہاں کی آگ بھی مصنوعی ہوتی ہے یعنی گیس کی آگ۔ بارانی علاقے کے ایک شاعر کے بقول میری تو قسمت بھی بارانی ہے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ واپس آزاد ہواؤں میں کیوں نہ نکل جاؤں، اس عمر میں مجھے اسی توانائی کی ضرورت ہے جس میں میری پرورش ہوئی تھی لیکن ہماری حکومتوں نے ملک کو غیر متوازن کر دیا ہے، اچھے اسکول شہروں میں اور اچھا علاج بھی شہروں میں۔ میں ان دنوں جہاں رہتا ہوں اس کے چند قدم کے فاصلے پر ایک اچھا اسپتال ہے۔ گزشتہ دنوں بخار ہوا تو گھر والوں کو فکر ہوئی کہ کہیں یہ ڈینگی نہ ہو چنانچہ چند منٹ میں اسپتال کے بستر پر دراز تھا اور تشخیص کا سلسلہ جاری تھا۔ تسلی ہو گئی کہ میاں شہباز شریف والا ڈینگی نہیں ہے، کوئی دوسرا شوقیہ قسم کا بخار ہے جو دوسرے دن ہی ڈاکٹروں نے ختم کر دیا۔ اب اگر میں گاؤں میں ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا، اس کا کوئی سوال نہ تھا اور بچوں کی تعلیم کا کیا کریں۔ دیہات کے ٹاٹ اسکول اب بھی زندہ ہیں مگر ٹاٹ سے اٹھ کر بچے کہاں جائیں۔
کسی نہ کسی شہر میں کیونکہ کرسیوں والے اسکول تو وہیں شہروں میں ہیں۔ میں نے ایک سی ایس پی افسر کے گھر 'ٹاٹ' دیکھا اور اس افسر نے بتایا کہ میں اس ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتا رہا اور اسے ساتھ رکھتا ہوں کہ اپنی اوقات نہ بھولوں اور اس ٹاٹ کی برکت بھی اس گھر پر برستی رہے۔ یہ افسر ظاہر ہے کہ میری طرح دیہاتی تھا جس کی ماں نے زیور جیسی پیاری چیز بیچ کر اس کے شہر میں داخلے کا بندوبست کیا اور باپ نے زمین بیچ کر اسے سی ایس پی بنایا۔ ہمارے ہاں ترقی بہت ہوئی مگر بے ربط۔ دیہات وہی پرانے ٹاٹ والے دیہات رہے اور شہر دن بدن بڑھتے گئے۔ اس میں ایوب خان کا زمانہ استثنیٰ ہے جس کا ذکر کبھی کریں گے۔
جب کبھی شہر والے خبر چھپواتے ہیں کہ فلاں چیز کی قیمت کم کی جائے تو وہ دیہات کی ہوتی ہے جو زیادہ پاکستانیوں کا سہارا بنتی ہے لیکن یہ دیہات والے کسی چیز کی قیمت میں کمی کا مطالبہ نہیں کر سکتے جو شہروں کے کارخانے بناتے ہیں اور اپنی مرضی کے بھاؤ فروخت کرتے ہیں، دیہات والے شہروں کی ہی مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کبھی وہ علاج کے بغیر مر جاتے ہیں تو کبھی تعلیم کے بغیر ان کے بچے جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔
شہر والے ناراض نہ ہوں سبزیوں کی قیمت میں اضافے نے دیہات کے کئی مسئلے حل کر دیے ہیں۔ اب اگر شہر والے منڈیوں میں بیٹھے آڑھتیوں کو قابو نہیں کر سکتے جو قیمتوں میں زبردست اضافہ کر دیتے ہیں تو اس میں دیہات والوں کا کیا قصور۔ صنعتی مصنوعات کی طرح اگر دیہات والوں نے کبھی زرعی مصنوعات میں اضافہ کر دیا تو کیا غضب ہو گیا۔ شہروں کی پوری حکومت اب زرعی اجناس کو سستا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں دیہات والوں کا اگلے سال کا سیزن کیسا ہو گا۔ بارش ہو گی یا نہیں۔