چھٹتی نہیں ہے
کرکٹ میرا عشق اور جنون ہے، گیند اور بلے کے ساتھ جوانی کے جو ایام گزرے ہیں انھیں بھولنا چاہوں تو بھی وہ نہیں بھولتے۔۔۔
کرکٹ میرا عشق اور جنون ہے، گیند اور بلے کے ساتھ جوانی کے جو ایام گزرے ہیں انھیں بھولنا چاہوں تو بھی وہ نہیں بھولتے، لاہور جمخانہ کرکٹ گراؤنڈ کے وہ دن دماغ کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ ہیں، عمران خان کے ساتھ وہیں ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کپتان کے عروج کا دور تھا اور میں کرکٹ سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جمخانہ میں صرف ایک ماہ نیٹ پریکٹس کر سکا کیونکہ ایک دن فیلڈنگ پریکٹس کے دوران انگوٹھے کا ناخن ٹوٹ گیا اور میں نے وہاں جانا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ایک بار گیا تھا تو محض اپنا کٹ بیگ لینے کے لیے۔
کپتان کی بولنگ نیٹ میں دیکھی ضرور مگر کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک بار کپتان نے میرے ساتھ گیند تبدیل کیا تو اس وقت میری خوشی دیدنی تھی۔ میں نے نیٹ میں انھیں بولنگ بھی کی لیکن وہ کم عمر سمجھ کر میرا لحاظ کرتے رہے اور ایک بار بھی زوردار ہٹ لگانے کی کوشش نہیں کی ورنہ بڑے سے بڑے بولر کی گیند کو وہ اٹھا کر باہر پھینک دیا کرتے تھے۔ آج بھی اس طرف جانا ہو تو نوجوانی کے وہ دن یاد آ جاتے ہیں۔ کبھی موقع ملے تو نوجوانوں کے ساتھ کرکٹ کھیل لیتا ہوں، کرکٹ سے عشق آج بھی اسی طرح تازہ ہے جیسے جوانی میں تھا۔ میرے بعض قارئین جن میں بیجنگ میں مقیم پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر جیو ٹیکنکل انجینئرنگ جاوید اقبال بھی شامل ہیں ، مجھے کہتے ہیں کہ تم کرکٹ پر مت لکھا کرو، سیاست پر لکھو، شاید وہ درست کہتے ہیں، اصولی طور پر سیاست کے نشیب و فراز پر ہی کالم لکھا جانا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج کرکٹ بھی سیاست ہی ہے۔ اب یہ کھیل بہت حد تک سیاسی ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان بھی اس میں کود پڑے ہیں۔
تحریک طالبان کے ترجمان کا انگریزی میں جو بیان شایع ہوا اس میں یہ دھمکی موجود تھی کہ سچن ٹنڈولکر کی تعریف نہ کی جائے کیونکہ وہ بھارتی کرکٹر ہے۔ اس کے اگلے روز وضاحت البتہ یوں تھی کہ جس طرح بھارتی میڈیا اپنے ہیرو سچن ٹنڈولکر کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتا ہے اس طرح ہمیں بھی اپنے ہیروز کی تعریف کرنی چاہیے۔ تحریک طالبان پاکستان کے اس موقف سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں اپنے ہیروز کی قدر کرنی چاہیے۔ مصباح الحق کی کپتانی میں ٹیم نے جنوبی افریقہ کو اس کے ہوم گراؤنڈ میں ون ڈے سیریز ہرائی ہے تو یہ ہمارے لیے باعث فخر ہونا چاہیے۔ مصباح کی بطور کپتان جیسی پرفارمنس رہی ہے وہ بھی قابل قدر ہے۔ دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے کرکٹر جب کپتان بنتے ہیں تو ان کی اپنی پرفارمنس تباہ ہو جاتی ہے۔
وہ اپنے کندھوں پر کپتانی کا بوجھ اتنا زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ اپنی بیٹنگ یا بولنگ کا بوجھ اٹھانا ان کے لیے محال ہو جاتا ہے۔ لیکن مصباح کے ساتھ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ وہ جب تک عام کھلاڑی تھے تو ان کی کارکردگی عام سے کھلاڑی کی تھی کپتانی کے بعد ان کی کارکردگی میں اتنا نکھار آیا کہ بڑے بڑے کھلاڑی رشک کرتے ہیں۔ انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کرنے کا کارنامہ بھی مصباح الحق کی کپتانی میں انجام دیا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ سے متحدہ عرب امارات میں ون ڈے سیریز ہارنے پر ناقدین ماضی کو یکسر بھول گئے تھے اور مصباح کو گھر کا راستہ دکھانے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ جنوبی افریقہ میں وہی مصباح تھے جن کی قیادت میں پاکستان ایشیاء کی وہ پہلی ٹیم بن گئی جس نے پروٹیز کو ان کے اپنے گھر میں ون ڈے سیریز ہرا دی۔
لوگ پوچھتے ہیں جنوبی افریقہ میں اچانک ایسا کیا ہوا کہ یو اے ای میں بری طرح مار کھانے والی ٹیم نے مخالف ٹیم کو آگے لگا لیا۔ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے۔ دورہ شروع ہونے سے قبل اعلان کیا گیا کہ مصباح الحق ورلڈ کپ تک کپتان رہیں گے۔ کھلاڑیوں کی پرفارمنس میں بہتری کے لیے یہ اعلان ہی کافی تھا۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ کسی اور کھلاڑی کی طرف سے مصباح کا تختہ الٹنے کا امکان ختم ہو گیا ہے تو انھوں نے اپنی 100فیصد صلاحیت کھانا شروع کر دی۔ بنیادی طور پر یہ ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے کہ جب کسی کے پاس طاقت یا اقتدار آتا ہے تو ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ جیسے ہی ہمیں کوئی شخص کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے ہم فوراً اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہیں اور نئے مرکز سے رجوع کر لیتے ہیں۔
جب تک مصباح کی کپتانی کے بارے میں شکوک وشبہات تھے قومی ٹیم دو، تین دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی تھی جیسے ہی انھیں معلوم ہوا کہ فی الحال مصباح کی کپتانی سے جان نہیں چھوٹے گی ٹیم پھر سے یکجان ہو گئی۔ کپتان نے سیریز تو جیت لی مگر ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انھوں کچھ غلطیاں دہرائیں بھی۔ یو اے ای کی سیریز میں اسد شفیق کو ون ڈے سیریز میں چانس دے کر انھوں نے دیکھ لیا تھا اس کے باوجود ناصر جمشید کے ایک بار پھر فلاپ ہونے پر انھیں آخری ون ڈے میں نا صرف شامل کیا بلکہ اوپن بھی کرا دی۔ نتیجہ وہی رہا۔ اسد شفیق خود بھی کچھ نہ کر سکے اور ٹیم بھی ہار گئی۔ اسد شفیق ٹیسٹ کرکٹ کے لیے بہترین ہیں۔ ون ڈے میں کسی نئے بیٹسمین کو موقع دیا جائے۔
میں جنید خان کا ایک انٹرویو دیکھ رہا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ پہلے دو ون ڈے میں کوئی وکٹ نہیں لے سکے تھے لیکن اس وقت کے کوچ وقار یونس نے انھیں کہا کہ تم وکٹ لو یا نہ لو میں تمہیں ٹیم میں رکھوں گا۔ اس کے بعد جنید خان نے کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ نوجوانوں کو کھیلنے کا موقع دینا ہے تو انھیں اعتماد بھی دیں۔ ورلڈ کپ میں سوا سال سے کچھ زیادہ عرصہ باقی ہے۔ دو تین اور نوجوان تیار کر لیے گئے تو پھر پاکستان کی ٹیم کسی بھی بڑی ٹیم کو چیلنج کر سکے گی۔
چلتے چلتے مصباح کی ایک زیادتی کا ذکر بھی کر دوں۔ خدا خدا کر کے ڈیل سٹین ان فٹ ہوئے تھے اور وہ میچ نہیں کھیل رہے تھے لیکن مصباح نے حفیظ کو آخری ون ڈے نہیں کھلایا۔ محمد حفیظ کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ شاہد آفریدی کے حوالے سے بھی ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ لالے کی بولنگ بڑی زور دار جا رہی ہے اور ٹیم کو ان کی ضرورت ہے لیکن بیٹنگ میں ان سے امیدیں لگانا چھوڑ دیں۔ بیٹنگ آرڈر میں انھیں بلاول اور انور علی کے بعد بھجوایا کریں۔ آپ ان کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کریں میں دعوے سے کہتا ہوں بیٹنگ کے حوالے سے ان پر تنقید ختم ہو جائے گی۔ آخر میں سری لنکا کے خلاف سیریز کے لیے بیسٹ آف لک۔