دولت کو کامیابی سمجھنے والے اعصابی تناؤ کا شکار رہتے ہیں تحقیق
یہ کیفیت انہیں ڈپریشن اور اینگژائٹی میں مبتلا کرکے مستقل نفسیاتی مریض بھی بنا سکتی ہے
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو مال و دولت کے حصول کو کامیابی تصور کرتے ہیں وہ اپنی روزمرہ زندگی میں اکیلے پن کا شکار رہنے کے علاوہ ہر وقت اعصابی تناؤ اور شخصی آزادی میں کمی کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔
ان کی یہی کیفیت بعد ازاں انہیں اضمحلال (ڈپریشن) اور تشویش (اینگژائٹی) کا شکار بنا دیتی ہے اور وہ ممکنہ طور پر مستقل نفسیاتی مریض بھی بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی میں روپے پیسے کے مقابلے میں اہلِ خانہ، دوست، احباب اور دوسرے سماجی تعلقات کی زیادہ اہمیت ہے۔ تاہم مال و دولت کے حصول میں خوشی ڈھونڈنے والے لوگ اس چکر میں ان ہی انسانی رشتوں کی قربانی دیتے ہیں۔
نتیجتاً اُن کے پاس پیسہ تو آجاتا ہے لیکن وہ اہم رشتوں اور سماجی تعلقات میں مضبوطی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، زیادہ پیسہ کمانے کی دُھن انہیں اعصابی تناؤ کا شکار رکھتی ہے جبکہ اسی بناء پر ذاتی خوشی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے کام ہی کرتے ہیں جن سے پیسے کا حصول وابستہ ہو۔
یہ مزاج اور معمول ان میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ وہ فرد کی حیثیت سے آزاد نہیں؛ اور اس طرح وہ مال دار ہوجانے کے باوجود بھی اکیلے پن، اعصابی تناؤ اور احساسِ مجبوری کا شکار رہتے ہیں۔ یہ کیفیت انہیں ڈپریشن اور اینگژائٹی سمیت دوسری کئی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔
نیویارک کی یونیورسٹی آف بفیلو میں کیے گئے اس مطالعے میں ایسی پانچ نفسیاتی تحقیقات سے حاصل شدہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا جن میں 2500 سے زائد افراد شریک تھے۔ نتائج وہی نکلے جو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔
ریسرچ جرنل ''پرسنیلٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی بلیٹن'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مصنفین نے مشورہ دیا ہے کہ اگرچہ پیسہ کمانا ہماری زندگی کی ضرورت ہے لیکن اس سے خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ، دوستوں اور پڑوسیوں کےلیے بھی وقت نکالیں، چاہے اس کی وجہ سے ان کی آمدن ہی میں کچھ کمی کیوں نہ واقع ہوجائے۔
ان کی یہی کیفیت بعد ازاں انہیں اضمحلال (ڈپریشن) اور تشویش (اینگژائٹی) کا شکار بنا دیتی ہے اور وہ ممکنہ طور پر مستقل نفسیاتی مریض بھی بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی میں روپے پیسے کے مقابلے میں اہلِ خانہ، دوست، احباب اور دوسرے سماجی تعلقات کی زیادہ اہمیت ہے۔ تاہم مال و دولت کے حصول میں خوشی ڈھونڈنے والے لوگ اس چکر میں ان ہی انسانی رشتوں کی قربانی دیتے ہیں۔
نتیجتاً اُن کے پاس پیسہ تو آجاتا ہے لیکن وہ اہم رشتوں اور سماجی تعلقات میں مضبوطی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، زیادہ پیسہ کمانے کی دُھن انہیں اعصابی تناؤ کا شکار رکھتی ہے جبکہ اسی بناء پر ذاتی خوشی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے کام ہی کرتے ہیں جن سے پیسے کا حصول وابستہ ہو۔
یہ مزاج اور معمول ان میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ وہ فرد کی حیثیت سے آزاد نہیں؛ اور اس طرح وہ مال دار ہوجانے کے باوجود بھی اکیلے پن، اعصابی تناؤ اور احساسِ مجبوری کا شکار رہتے ہیں۔ یہ کیفیت انہیں ڈپریشن اور اینگژائٹی سمیت دوسری کئی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔
نیویارک کی یونیورسٹی آف بفیلو میں کیے گئے اس مطالعے میں ایسی پانچ نفسیاتی تحقیقات سے حاصل شدہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا جن میں 2500 سے زائد افراد شریک تھے۔ نتائج وہی نکلے جو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔
ریسرچ جرنل ''پرسنیلٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی بلیٹن'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مصنفین نے مشورہ دیا ہے کہ اگرچہ پیسہ کمانا ہماری زندگی کی ضرورت ہے لیکن اس سے خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ، دوستوں اور پڑوسیوں کےلیے بھی وقت نکالیں، چاہے اس کی وجہ سے ان کی آمدن ہی میں کچھ کمی کیوں نہ واقع ہوجائے۔