انگولا میں پاکستانی پھلوں کے باغات

انگولا کی آب و ہوا سرد ہے اور وہاں کی مٹی میں ایسے اجزا موجود ہیں جس کی وجہ سے باغات زیادہ لمبے عرصے تک قائم نہیں رہتے

بائیو آرگینک طریقوں سے پاکستان میں پودوں کی پنیری تیار کرکے انگولا میں لگائی جارہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

افریقی ملک انگولا کے شہر لمبانگو کے لوگ ان دنوں خاصے خوش دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہاں لگائے جانے والے مختلف پھلوں کے باغات ہیں۔ جن میں امردو، سنگترہ، کینو سمیت دیگر پھل دار پودے شامل ہیں۔ ایسا نہیں کہ کہ انگولا میں پھلوں کے باغات نہیں ہیں۔ یہاں لوگوں نے کئی اقسام کے باغات لگائے ہیں لیکن وہ باغات ایک یا دو بار پھل دینے کے بعد ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی خوشی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں جو پھل دار پودے لگائے جارہے ہیں وہ کئی سال تک پھل دیتے رہیں گے اور یہ پودے پاکستان سے امپورٹ کیے گئے ہیں۔

انگولا کی آب و ہوا سرد ہے اور یہاں کی مٹی میں ایسے اجزا موجود ہیں جس کی وجہ سے باغات زیادہ لمبے عرصے تک قائم نہیں رہتے۔ لیکن ایک پاکستانی زرعی ماہر سید بابر علی بخاری نے ان کی مشکل کو آسان کردیا ہے۔ انہوں نے بائیو آرگینک طریقوں سے پودوں کی پنیری تیار کی تھی، جو انگولا میں لگائی جارہی ہے۔


سید بابر علی کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ کئی برسوں سے زرعی شعبے میں تحقیق سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے امریکا سمیت کئی ممالک میں اس حوالے سے تربیت حاصل کی ہے۔ سید بابر علی بخاری نے بائیو آرگینک لیکویڈ تیار کیا ہے، جس کی مدد سے بنجر، ریتیلی اور سیم زدہ زمینوں میں کاشت کاری کی جاسکتی ہے، وہ پاکستان کے مختلف اضلاع میں اس کا کامیاب تجربہ بھی کرچکے ہیں۔ میری خود سید بابر بخاری سے متعدد ملاقاتیں رہی ہیں اور پنجاب کے مختلف اضلاع، جن میں قصور، لاہور، نارووال، سیالکوٹ، ساہیوال سمیت چند دیگر شہر شامل ہیں، وہاں جاچکا ہوں اور یہاں ان کے فارمولے کی وجہ سے جو فصلیں کاشت کی گئیں، ان کے نتائج بھی دیکھ چکا ہوں۔ دریائے ستلج کے ریتیلے علاقے میں امرود کے باغات اور پنجاب کی مشرقی سرحد سے جڑے علاقوں میں چاول اور اب گندم کی معمول سے کئی گنا زیادہ اور بہتر فصل ان کی کامیابیوں کا ثبوت ہے۔

خیر میں بات کررہا تھا انگولا کی۔ سید بابر بخاری گزشتہ کئی ہفتوں سے انگولا میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ انگولا کی حکومتی اور فوجی شخصیات کی دعوت پر وہاں گئے ہوئے ہیں۔ ان سے معمول کی گپ شپ کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں کس مقصد کےلیے آئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ بخاری صاحب دنیا بھر میں کورونا کا مسئلہ بنا ہوا ہے آپ بھی واپس آجائیں۔ تو انہوں نے بتایا کہ یہاں ابھی تک ایسا کوئی خطرہ نہیں اور وہ جس کام کےلیے یہاں آئے ہوئے ہیں وہ مکمل کرکے واپس آئیں گے۔

انہوں نے پھر یہ تمام تفصیلات بتائیں کہ یہاں وہ مختلف پاکستانی پھلوں کےباغات لگا رہے ہیں۔ وہاں کی آب وہوا اور مٹی کی وجہ سے وہاں باغات زیادہ عرصہ قائم نہیں رہتے۔ اس کےلیے انہوں نے اب خاص طور پر مختلف پھلوں کی پنیری تیار کی ہے اور یہ پنیری پاکستان میں ہی تیار کی گئی تھی۔ سید بابر بخاری نے بتایا انہوں نے بائیو آرگینک لیکویڈ تیار کیا ہے۔ پھل اور پھول دار پودوں کی پنیری تیار ہونے کے بعد ان پودوں کو جڑوں سمیت اکھاڑ لیا گیا اور جڑوں سے مٹی الگ کرکے انہیں اس لیکویڈ کھاد میں رکھا گیا۔ اس کے بعد جڑوں سمیت ان پودوں کو ڈبوں میں پیک کرکے انگولا لایا گیا۔ یہاں ان کی کاشت کی گئی، جو کامیاب رہی۔




دلچسپ بات یہ ہے کہ مٹی کے بغیر محفوظ کیے گئے ان پودوں نے ایک ہی ہفتے میں نہ صرف انگولا کی زمین میں جڑیں پکڑنا شروع کردیں، بلکہ دو ماہ کے دوران ان پودوں پر پھول اور پھل بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بابر بخاری نے دعویٰ کیا کہ دنیا میں پہلی بار یہ کامیاب تجربہ کیا گیا ہے، جب ایک ملک سے پودوں کو جڑوں سمیت مٹی کے بغیر دوسرے ملک منتقل کیا گیا اور وہ یہاں گروتھ پکڑ رہے ہیں۔ اس بائیو آرگینک فارمولے کی وجہ سے یہ پھل دار باغات کیڑوں اور سنڈیوں کے حملے سے محفوظ رہیں گے، جبکہ پھل زیادہ بہتر اور خوش ذائقہ ہوگا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ غیرملکی سرزمین پر لگائے گئے پاکستانی پودے پر لگا پھل جیسے ہی پک کر تیار ہوگا وہ ہمارے لیے پاکستان بھی لے کر آئیں گے تاکہ ان کے دعوؤں کی تصدیق ہوسکے۔

بابر بخاری سمجھتے ہیں کہ اس کامیاب تجربے سے نہ صرف ہم پاکستان سے پودے مختلف ممالک کو ایکسپورٹ کرسکتے ہیں بلکہ پاکستان میں بھی نرسری کے شعبے کو فروغ ملے گا۔ بیماریوں سے پاک پھل اور پھول دار پودے تیار ہوسکیں گے اور ان کی مختلف علاقوں میں کاشت بھی ہوسکے گی، جہاں کی مٹی ایک دوسرے سے مختلف ہوگی۔ انہوں نے کہا یہ فارمولا ایسے ہی ہے جیسے ہم بچوں کو بچپن میں مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین دیتے ہیں جو بڑا ہونے پر ان کو بیماریوں سے بچاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story