شوگر ملز مافیا کے خلاف تحقیقات کے دوران اربوں روپے کی ٹیکس چوری کا بھی انکشاف
89 شوگر ملز کا ریکارڈ ایف آئی اے کے قبضہ میں، شوگر ملز ن لیگ، ق لیگ، پی پی، پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور دیگر کی ملکیت
شوگر ملز مافیا کے خلاف تحقیقات میں اربوں روپے ٹیکس چوری کے انکشافات بھی سامنے آگئے، شوگر ملز مالکان نے ڈبل اکاؤنٹس کھول رکھے ہیں جن کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے، ایف آئی اے نے تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔
تحقیقاتی کمیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر شوگر ملز مالکان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کر رکھا ہے اب تک جہاں شوگر ملز مالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی سامنے آئی ہے حیران کن طور پر ٹیکس چوری کے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں۔
ہر شوگر مل کا مالک کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث پایا گیا۔ یہ انکشاف ایف آئی اے کو اس وقت ہوا جب ان لوگوں کے ریکارڈ کو قبضے میں لے کر جانچ پڑتال کی گئی۔ تقریبا ہر مل مالک نے ایک ایکسٹرنل اور ایک انٹرنل اکاؤنٹ بنا رکھا ہے اور ان ڈبل اکاؤنٹس کے ذریعے بڑی مہارت کے ساتھ چینی بنانے اور اسے مارکیٹ میں فروخت کرنے کے معاملات کو مینٹین کیا جارہا ہے۔
ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں چینی کی فروخت لاکھوں روپے ظاہر کر کے اس پر ٹیکس دیا جاتا ہے جبکہ اصل میں پروڈکشن اور خفیہ ڈیلروں کو فروخت کی جانے والی چینی کروڑوں اربوں روپے کی ہوتی ہے جس کا سارا ریکارڈ انٹرنل اکاؤنٹ میں رکھا جاتا ہے اور پھر یہ رقم مختلف بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر دی جاتی ہے۔
جب تحقیقاتی کمیشن نے ایک مل مالک کے دونوں اکاؤنٹ چیک کیے تو معلوم ہوا کہ اصل میں ڈیلر کو 48 کروڑ روپے کی چینی فروخت کی گئی جبکہ ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں ڈیلر کے پاس چینی صرف 36 لاکھ روپے کی ظاہر کی گئی۔ اس طرح اس مل مالک نے 47 کروڑ 64 لاکھ ظاہر نہیں کیے اور 48 کروڑ کے بجائے صرف 36 لاکھ روپے پر ٹیکس دیا اور یہ صرف ایک مل کی ایک دن کی انٹری تھی۔ اسی تناسب سے گزشتہ 5 برس کا حساب لگایا جائے تو رقم اربوں روپے میں چلی جاتی ہے۔
ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اب تک 89 شوگر ملوں کا ریکارڈ قبضہ میں لیا گیا ہے اور یہ سب شوگر ملیں (ن) لیگ،(ق) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت حساس اداروں کے ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہل خانہ کے بااثر ترین افراد سے وابستہ افراد کی ملکیت ہیں اور اربوں روپے کے فراڈ کا سارا کھیل مل جل کر کھیلا جا رہا ہے،ملز مالکان کا تعلق انتہائی سیاسی حریف جماعتوں سے ہے مگر جب بات پیسہ کمانے اور مالی مفادات کی آتی ہے تو تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔
افسر نے بتایا کہ پوری کوشش ہے کہ آئندہ ہفتے تک انکوائری مکمل کرکے رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کر دی جائے گی، شوگر ملز مالکان سے صرف ان کے پلانٹس کی پیداواری صلاحیت، اسٹاک اور خفیہ ڈیلروں کے اکاؤنٹس پر ٹیکس وصول کیا جائے تو وہ رقم سبسڈی سے بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر پنجاب زون ون ڈاکٹر رضوان سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان نے بتایا کہ انکوائری چل رہی ہے ہم نے صرف ریکارڈ قبضہ میں لے کر تحقیقاتی کمیشن کو دیا ہے اس میں کیا نکلا کیا نہیں اس بارے میں کچھ پتا نہیں۔
تحقیقاتی کمیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر شوگر ملز مالکان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کر رکھا ہے اب تک جہاں شوگر ملز مالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی سامنے آئی ہے حیران کن طور پر ٹیکس چوری کے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں۔
ہر شوگر مل کا مالک کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث پایا گیا۔ یہ انکشاف ایف آئی اے کو اس وقت ہوا جب ان لوگوں کے ریکارڈ کو قبضے میں لے کر جانچ پڑتال کی گئی۔ تقریبا ہر مل مالک نے ایک ایکسٹرنل اور ایک انٹرنل اکاؤنٹ بنا رکھا ہے اور ان ڈبل اکاؤنٹس کے ذریعے بڑی مہارت کے ساتھ چینی بنانے اور اسے مارکیٹ میں فروخت کرنے کے معاملات کو مینٹین کیا جارہا ہے۔
ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں چینی کی فروخت لاکھوں روپے ظاہر کر کے اس پر ٹیکس دیا جاتا ہے جبکہ اصل میں پروڈکشن اور خفیہ ڈیلروں کو فروخت کی جانے والی چینی کروڑوں اربوں روپے کی ہوتی ہے جس کا سارا ریکارڈ انٹرنل اکاؤنٹ میں رکھا جاتا ہے اور پھر یہ رقم مختلف بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر دی جاتی ہے۔
جب تحقیقاتی کمیشن نے ایک مل مالک کے دونوں اکاؤنٹ چیک کیے تو معلوم ہوا کہ اصل میں ڈیلر کو 48 کروڑ روپے کی چینی فروخت کی گئی جبکہ ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں ڈیلر کے پاس چینی صرف 36 لاکھ روپے کی ظاہر کی گئی۔ اس طرح اس مل مالک نے 47 کروڑ 64 لاکھ ظاہر نہیں کیے اور 48 کروڑ کے بجائے صرف 36 لاکھ روپے پر ٹیکس دیا اور یہ صرف ایک مل کی ایک دن کی انٹری تھی۔ اسی تناسب سے گزشتہ 5 برس کا حساب لگایا جائے تو رقم اربوں روپے میں چلی جاتی ہے۔
ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اب تک 89 شوگر ملوں کا ریکارڈ قبضہ میں لیا گیا ہے اور یہ سب شوگر ملیں (ن) لیگ،(ق) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت حساس اداروں کے ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہل خانہ کے بااثر ترین افراد سے وابستہ افراد کی ملکیت ہیں اور اربوں روپے کے فراڈ کا سارا کھیل مل جل کر کھیلا جا رہا ہے،ملز مالکان کا تعلق انتہائی سیاسی حریف جماعتوں سے ہے مگر جب بات پیسہ کمانے اور مالی مفادات کی آتی ہے تو تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔
افسر نے بتایا کہ پوری کوشش ہے کہ آئندہ ہفتے تک انکوائری مکمل کرکے رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کر دی جائے گی، شوگر ملز مالکان سے صرف ان کے پلانٹس کی پیداواری صلاحیت، اسٹاک اور خفیہ ڈیلروں کے اکاؤنٹس پر ٹیکس وصول کیا جائے تو وہ رقم سبسڈی سے بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر پنجاب زون ون ڈاکٹر رضوان سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان نے بتایا کہ انکوائری چل رہی ہے ہم نے صرف ریکارڈ قبضہ میں لے کر تحقیقاتی کمیشن کو دیا ہے اس میں کیا نکلا کیا نہیں اس بارے میں کچھ پتا نہیں۔