اسرائیلی ایٹمی پروگرام امن کے لیے خطرہ
اسرائیل مسلم ممالک کو جو کہ توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی توانائی حاصل کر رہے ہیں اپنے دشمنوں کی فہرست۔۔۔
اسرائیل مسلم ممالک کو جو کہ توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی توانائی حاصل کر رہے ہیں اپنے دشمنوں کی فہرست میں رکھتا ہے ایسے ممالک میں ایران، شمالی کوریا اور پاکستان سمیت دیگر شامل ہیں، ایران سے تو اسرائیل کو اس لیے بھی زیا دہ تکلیف ہوتی ہے کہ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جو فلسطینی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس کو نہ صرف سیاسی حمایت فراہم کرتا ہے بلکہ مالی امداد سے بھی نوازتا ہے، اسی طرح پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان بھی ایٹمی توانائی رکھنے والا ملک ہے جو بد قسمتی سے امریکی اور اسرائیلی چنگل میں پھنس چکا ہے اور پاکستان میں عدم استحکام اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے پس پردہ عوامل میں بھی اسرائیل براہ راست اس لیے ہی ملوث ہے کیونکہ پاکستان ایسا اسلامی ملک ہے کہ جہاں ایٹمی طاقت موجود ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام اور حکومت نے اسرائیل کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور پاکستانی پاسپورٹ پر یہ جملہ واضح طور پر بیس کروڑ پاکستانیوں کی ترجمانی کرتا ہے کہ جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لیے کار آمد نہیں اور پوری دنیا کے لیے کار آمد ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ دور میں پاکستان شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اس کے پس پردہ اسرائیل براہ راست ملوث ہے۔
اسرائیل جو پوری دنیا میں یہ واویلا کرتا ہے کہ فلاں ملک ایٹمی حصول کی کوشش کر رہا ہے اور فلاں کے پاس ایٹمی طاقت ہے لیکن کبھی اسرائیل نے اپنے ایٹمی پلانٹس کے بارے میں نہیں بتایا اور صرف یہی نہیں کہ نہیں بتایا بلکہ اقوام متحدہ کے کسی بھی تحقیقاتی ادارے کو اپنے ایٹمی پلانٹوں تک رسائی کی اجازت نہیں دی ہے اور اس معاملے میں اسرائیلی ہٹ دھرمی اور بدمعاشی کے سامنے یورپ ہو یا مغرب ہو دونوں ہی بے بس رہے ہیں اور اقوام متحدہ تو بے حد بے بس نظر آئی ہے، اسرائیل کے ایٹمی پلانٹوں سے ہٹ کر بھی جائزہ لیا جائے تو متعدد مرتبہ خود اسرائیلی ذرایع ابلاغ اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ اسرائیل مہلک اور خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد ایٹم بم رکھتا ہے ، آخر اسرائیل کو 200ایٹم بم رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے یہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے سر زمین فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے بعد سے متعدد مرتبہ فلسطینیوں کو نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا ہے بلکہ آج کے دن تک خطرناک اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف عمل ہے ،جب کہ دنیا کی مقتدر قوتیں جو بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے تو نظر آتی ہیں لیکن در اصل اسرائیلی سفاک ریاست کے سامنے بے بس ہیں جو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانے تو کیا اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی ہیں شاید انھیں اس بات کا علم ہے کہ اگر انھوں نے غاصب اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق مسئلہ دنیا کے سامنے اٹھایا تو اسرائیل جو پہلے ہی پورے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے ممالک میں قتل و غارت گری میں مصروف ہے شاید ان کے ممالک کے ساتھ بھی یہی حال کیا جائے اور ان ممالک سے ان کی حکومتوں کو گرا دیا جائے۔
بہر حال مشرق وسطیٰ میں ناجائز اور فلسطینی عوام کی زمینوں کو غصب کرنیوالی صیہونی ریاست کے ایٹمی منصوبوں کو طشت ازبام کرنا ہی ہو گا ورنہ خطرہ دونوں صورتوں میں پوری دنیا کے سر پر لٹکتا ہی رہے گا کیونکہ اسرائیل کی جارحانہ اور دہشت گردانہ پالیسیوں اور عزائم سے واضح طور پر ایسا لگتا ہے کہ غاصب اسرائیل صرف فلسطین پر غاصبانہ تسلط تک محدود نہیں رہنا چاہتا بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا غلام بنا کر اس پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے، جنوبی ایشیاء کا حال بھی اسی طرح ہے، اور اگر ان تمام معاملات کی تحقیق کی جائے تو تمام تر سازشوں کے تانے بانے اسرائیل تک جا ملتے ہیں۔ جہاں تک ایران کے ایٹمی تنازعے کا مسئلہ ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایران کا ایٹمی تنازعہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا بلکہ یہ اسرائیل ہے جس کا ایٹمی تنازعہ موجود ہے حتیٰ کہ امریکی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے جو مسلم ممالک اور اسلام کی دشمن ہے اس تک نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے لیکن وزیرا عظم بنجمن نتن یاہو ہیں کہ جو مسلسل ایران پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے ، اس واویلے کا اصل مقصد دنیا کی توجہ کو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے دور کرنا تھا اور دنیا کے ایک اور مسلمان ملک پر جو اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے ایٹمی انرجی کا حصول کر رہا ہے اسے روکا جائے اور کمزور کیا جائے حیرت انگیز بات ہے کہ نیتن یاہو جو صیہونی ریاست اسرائیل کے اندر موجود لیکوڈ پارٹی کے پچاس سال سے صدر آ رہے ہیں ہمیشہ ایک ہی بات کو دہراتے رہے ہیں کہ ایران چند ماہ میں ایٹم بم بنانے والا ہے جب کہ حال ہی میں ہونے والے عالمی طاقتوں اور ایران کے مذاکرات نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا کی عالمی طاقتوں بشمول امریکا نے ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ایران نے پہلے روز سے کہا تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں رکھتا کیونکہ ایسے ہتھیار جو انسانی زندگی کے لیے مہلک ہوں اسلام بھی اجازت نہیں دیتا اور ایران اسلامی اصولوں کے مطابق ایسا کسی قسم کا کوئی ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا کیونکہ یہ بات اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے ایران کے خلاف کیا جانے والا پراپیگنڈا جھوٹ پر مبنی ہے اور ایران نہیں بلکہ اسرائیل ہے جس کے پاس سیکڑوں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں،اسرائیل ہی ہے کہ جس نے آج تک این پی ٹی (ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کا معاہدہ) پر دستخط نہیں کیے جب کہ ایران اس پر دستخط کر چکا ہے،کوئی بھی حکومت یا ادارہ اس بات کو نہیں جانتا ہے کہ اسرائیل کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق چار سو ایٹمی ہتھیار غاصب اسرائیل کے پاس موجود ہیں جو کہ صرف مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہیں۔دوسری طرف ایران میں جانے والی تحقیقاتی ٹیموں کے مشاہدہ کاروں کو وہاں پہنچ کر اس بات کا احساس ہوا کہ وہ غلط مقام پر ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش کر رہے ہیں اور ان کو احساس ہوا کہ انھیں ڈائمونا نیوکلئیر سینٹر کا معائنہ کرنا چاہیے تھا جو کہ اسرائیل میںموجود ہے اور جہاں سیکڑوں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی سمجھدار اور با شعور ریاستیں مل کر بیٹھ جائیں اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے امن کے لیے خطرہ غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور اسرائیلی ہٹ دھرمی کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے اسرائیل کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لیا جائے اور دنیا کے امن کو یقینی بنایا جائے۔