شاہؒ نانک فریدی
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے یکم اپریل کو اپریل فول منانے والے اس مرتبہ اپنی چوکڑی بھول گئے
جدید انگریزی شاعری کے سرخیل ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی معرکۃ الآرا نظم ''دی ویسٹ لینڈ'' (The Waste Land) کے آغاز میں ماہ اپریل کو سال کا ظالم ترین مہینہ قرار دیا ہے۔
عالمگیر وبا کورونا وائرس کی شدت اور ہلاکت خیزی میں تیزی میں اس ماہ کے دوران ہونے والے اضافے کے حوالے سے ایلیٹ کی بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے یکم اپریل کو اپریل فول منانے والے اس مرتبہ اپنی چوکڑی بھول گئے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی ذاتی رائے سے قطع نظر ہمارے خیال میں تاریخی اور واقعاتی حوالوں سے اپریل کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی ماہ کی 15 تاریخ وہ یادگار دن ہے جب سکھ مت کے بانی بابا گرونانک نے اس جہان رنگ وبو میں قدم رنجہ اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے 21 تاریخ کو اس جہان فانی سے کوچ فرمایا تھا۔ شاعر نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے۔
عجب سرائے بے دنیا کہ جس میں شام و سحر
کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے
آمد برسر مطلب اس وقت ہمارا موضوع ایک خوبصورت کتاب ہے جس کا عنوان ہے ''شاہ، نانک، فرید '' جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ یہ کتاب عظیم صوفیائے کرام شاہ حسینؒ ، بابا فرید الدین مسعودگنج شکرؒ اور سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک دیوکی شخصیات، کلام اور پیام کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب سے بڑھ کر یہ صاحبان ذوق اور جویائے علم کے لیے معلومات کا انمول خزانہ ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ صاحب قلم یوسف مثالی کی عرق ریزی کا بہترین ثمر اور مثالی علمی کاوش ہے۔ انداز بیاں سادہ مگر انتہائی پرکشش ہے۔ دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ پڑھنا شروع کیجیے تو اختتام سے پہلے یہ کتاب آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ مثالی مصنف نے موقعے بہ موقعے اپنے خوب صورت اشعارکی چھاپ لگا کر اس کتاب کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔ اس کتاب کا مقصد قارئین کو ان عظیم بندگان خدا سے روشناس کرانا ہے جنھوں نے زندگی کی اصل حقیقت کو پہچان کر اپنی زندگی کو رضائے الٰہی اور خدمت ورہنمائی خلق کے لیے وقف کردیا۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ، بابا گرو نانک اور شاہ حسینؒ پر مشتمل ان تینوں عظیم المرتبت روحانی شخصیات کا تعلق سرزمین پنجاب سے ہے۔ بابا فریدؒ ان میں اپنی روحانی عظمت اور صوفیانہ شاعری کے لحاظ سے سرفہرست ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب ''گروگرنتھ صاحب'' جو بابا گرو نانک کی تخلیق ہے اس میں شامل بابا فریدؒ کے اشلوک اس مقدس کتاب کی روح ہیں۔
دنیا کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے بابا فریدؒ فرماتے ہیں:
فریدا ایہہ وِس گندلاں' دھریاں کھنڈ لواڑ
اک راہندے راہندے رہ گئے' اک رہندی گئے اجاڑ
اے فرید! یہ دنیا زہریلی ہے اور اس کی تمام کشش محض دھوکہ ہے۔ مرزا غالب نے اسی مفہوم کو یوں ادا کیا ہے:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام محشرِ دامِ خیال ہے
بابا فریدؒ کی جائے پیدائش موضع کوٹھیوال، ملتان اور سن پیدائش 1188 ہے۔ پنجابی زبان میں شاعری کے آغاز کا سہرا بھی بابا فریدؒ ہی کے سر ہے۔
سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک 15 اپریل 1469 کو تلونڈی نامی گاؤں میں ہندوؤں کے کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے جو نانک کے نام پر ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور ہوا۔ نانک نے تلونڈی ہی میں مولوی قطب الدین کے قائم کردہ مکتب میں انھی کے زیر سایہ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اور اپنے فطری کمال سے اپنے استاد کو حیران کردیا۔ تصوف کی روایات سے ان کی آگہی کا آغاز سید حسن نامی صوفی اور درویش سے ان کی ابتدائی ملاقات کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ گرو نانک نے زندگی بھر جن تعلیمات کا پرچار کیا ان کا ماخذ دین اسلام ہی ہے۔ گرو نانک بت پرستی کے سخت مخالف اور سچے اور پکے توحید پرست تھے۔
وہ فرماتے ہیں '' اے رب! تو ایک ہے، واحد اور یکتا ہے۔'' گرنتھ صاحب کے آغاز میں ہی یہ بنیادی نظریہ پیش کیا گیا ہے جسے بد قسمتی سے ان کے پیروکاروں نے موقعے پرست سکھ قیادت کے ہندو لیڈر شپ کے فریب میں آکر فراموش کردیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی بات نہ مان کر شدید نقصان اٹھایا اور قیام پاکستان کے وقت 1947 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلمانوں کا بھی نقصان کیا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کرتار پور راہداری کھول کر سکھ برادری کی جانب نہ صرف دست تعاون بڑھایا ہے بلکہ سکھ قیادت کو ماضی کی غلطیوں کی درستی کا ایک نادر موقعے بھی فراہم کیا ہے۔ امید ہے کہ سکھ قوم ماضی کی غلطیاں دہرانے سے اجتناب کرے گی اور بھارت کی متعصب بی جے پی ہندو قیادت کا آلہ کار بننے کے بجائے خدائے واحد کی پیروکار مظلوم بھارتی مسلم کمیونٹی کا ساتھ دے گی۔ سکھ قوم کو اپنے گرو بابا نانک کے لیے علامہ اقبال کا یہ خراج عقیدت بھی یاد رکھنا چاہیے کہ:
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
مذکورہ کتاب کی ایک اور موضوع شخصیت شاہ حسینؒ ہیں جن کی ذات باصفات بھی تعارف کی محتاج نہیں۔ شاہ صاحب 1538 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ حصول علم کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے آبائی پیشہ کپڑا بننا بھی جاری رکھا۔ اس حوالے سے آپ کے کلام میں چرخے کو مختلف استعاروں کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ معرفت کی منزل تک آپ 36 سال کی عمر میں پہنچے اور 63 برس کی عمر میں 1601 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
شاہ حسینؒ نے معرفت کی معراج تک رسائی حاصل کرکے عوام کی رہنمائی کے لیے اپنی شاعری کی شمع روشن کی۔ یہ کام انھوں نے اپنے کلام بہ صورت کافیوں کے سرانجام دیا جو دل پذیر اور نہایت مقبول ہیں۔
شاہ حسینؒ کی کافیاں پنجابی زبان کا شعری اور ادبی سرمایہ ہیں۔ مثال کے طور پر کافی ملاحظہ فرمائیں:
من اٹکیا بے پروا نال
اوس دین' دونی دے شاہ دے نال
مفہوم: دل بے نیاز کے ساتھ اٹک گیا ہے جو دین و دنیا کا بادشاہ ہے۔ ''شاہ، نانک، فرید'' نامی کتاب مصنف یوسف شامی کا لائق صد تحسین کارنامہ ہے جس کی حیثیت کسی طور بھی کم نہیں۔ فاضل مصنف نے یہ کتاب تحریر کرکے تشنگان روحانیت کے قلوب کی پیاس بجھانے کا اہتمام کیا ہے۔ مادیت پرستی کے اس پرآشوب دور میں اس قسم کی کتابوں کا لکھا جانا اور ان کی اشاعت کی اہمیت بیان سے باہر ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا یہ مشہور شعر معروضی حالات کی خوب ترجمانی کرتا ہے:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور نے اس خوب صورت کتاب کو نہایت اہتمام کے ساتھ شایع کرکے محض دنیا ہی نہیں کمائی بلکہ دین بھی کمایا ہے۔
عالمگیر وبا کورونا وائرس کی شدت اور ہلاکت خیزی میں تیزی میں اس ماہ کے دوران ہونے والے اضافے کے حوالے سے ایلیٹ کی بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے یکم اپریل کو اپریل فول منانے والے اس مرتبہ اپنی چوکڑی بھول گئے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی ذاتی رائے سے قطع نظر ہمارے خیال میں تاریخی اور واقعاتی حوالوں سے اپریل کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی ماہ کی 15 تاریخ وہ یادگار دن ہے جب سکھ مت کے بانی بابا گرونانک نے اس جہان رنگ وبو میں قدم رنجہ اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے 21 تاریخ کو اس جہان فانی سے کوچ فرمایا تھا۔ شاعر نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے۔
عجب سرائے بے دنیا کہ جس میں شام و سحر
کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے
آمد برسر مطلب اس وقت ہمارا موضوع ایک خوبصورت کتاب ہے جس کا عنوان ہے ''شاہ، نانک، فرید '' جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ یہ کتاب عظیم صوفیائے کرام شاہ حسینؒ ، بابا فرید الدین مسعودگنج شکرؒ اور سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک دیوکی شخصیات، کلام اور پیام کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب سے بڑھ کر یہ صاحبان ذوق اور جویائے علم کے لیے معلومات کا انمول خزانہ ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ صاحب قلم یوسف مثالی کی عرق ریزی کا بہترین ثمر اور مثالی علمی کاوش ہے۔ انداز بیاں سادہ مگر انتہائی پرکشش ہے۔ دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ پڑھنا شروع کیجیے تو اختتام سے پہلے یہ کتاب آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ مثالی مصنف نے موقعے بہ موقعے اپنے خوب صورت اشعارکی چھاپ لگا کر اس کتاب کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔ اس کتاب کا مقصد قارئین کو ان عظیم بندگان خدا سے روشناس کرانا ہے جنھوں نے زندگی کی اصل حقیقت کو پہچان کر اپنی زندگی کو رضائے الٰہی اور خدمت ورہنمائی خلق کے لیے وقف کردیا۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ، بابا گرو نانک اور شاہ حسینؒ پر مشتمل ان تینوں عظیم المرتبت روحانی شخصیات کا تعلق سرزمین پنجاب سے ہے۔ بابا فریدؒ ان میں اپنی روحانی عظمت اور صوفیانہ شاعری کے لحاظ سے سرفہرست ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب ''گروگرنتھ صاحب'' جو بابا گرو نانک کی تخلیق ہے اس میں شامل بابا فریدؒ کے اشلوک اس مقدس کتاب کی روح ہیں۔
دنیا کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے بابا فریدؒ فرماتے ہیں:
فریدا ایہہ وِس گندلاں' دھریاں کھنڈ لواڑ
اک راہندے راہندے رہ گئے' اک رہندی گئے اجاڑ
اے فرید! یہ دنیا زہریلی ہے اور اس کی تمام کشش محض دھوکہ ہے۔ مرزا غالب نے اسی مفہوم کو یوں ادا کیا ہے:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام محشرِ دامِ خیال ہے
بابا فریدؒ کی جائے پیدائش موضع کوٹھیوال، ملتان اور سن پیدائش 1188 ہے۔ پنجابی زبان میں شاعری کے آغاز کا سہرا بھی بابا فریدؒ ہی کے سر ہے۔
سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک 15 اپریل 1469 کو تلونڈی نامی گاؤں میں ہندوؤں کے کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے جو نانک کے نام پر ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور ہوا۔ نانک نے تلونڈی ہی میں مولوی قطب الدین کے قائم کردہ مکتب میں انھی کے زیر سایہ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اور اپنے فطری کمال سے اپنے استاد کو حیران کردیا۔ تصوف کی روایات سے ان کی آگہی کا آغاز سید حسن نامی صوفی اور درویش سے ان کی ابتدائی ملاقات کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ گرو نانک نے زندگی بھر جن تعلیمات کا پرچار کیا ان کا ماخذ دین اسلام ہی ہے۔ گرو نانک بت پرستی کے سخت مخالف اور سچے اور پکے توحید پرست تھے۔
وہ فرماتے ہیں '' اے رب! تو ایک ہے، واحد اور یکتا ہے۔'' گرنتھ صاحب کے آغاز میں ہی یہ بنیادی نظریہ پیش کیا گیا ہے جسے بد قسمتی سے ان کے پیروکاروں نے موقعے پرست سکھ قیادت کے ہندو لیڈر شپ کے فریب میں آکر فراموش کردیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی بات نہ مان کر شدید نقصان اٹھایا اور قیام پاکستان کے وقت 1947 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلمانوں کا بھی نقصان کیا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کرتار پور راہداری کھول کر سکھ برادری کی جانب نہ صرف دست تعاون بڑھایا ہے بلکہ سکھ قیادت کو ماضی کی غلطیوں کی درستی کا ایک نادر موقعے بھی فراہم کیا ہے۔ امید ہے کہ سکھ قوم ماضی کی غلطیاں دہرانے سے اجتناب کرے گی اور بھارت کی متعصب بی جے پی ہندو قیادت کا آلہ کار بننے کے بجائے خدائے واحد کی پیروکار مظلوم بھارتی مسلم کمیونٹی کا ساتھ دے گی۔ سکھ قوم کو اپنے گرو بابا نانک کے لیے علامہ اقبال کا یہ خراج عقیدت بھی یاد رکھنا چاہیے کہ:
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
مذکورہ کتاب کی ایک اور موضوع شخصیت شاہ حسینؒ ہیں جن کی ذات باصفات بھی تعارف کی محتاج نہیں۔ شاہ صاحب 1538 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ حصول علم کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے آبائی پیشہ کپڑا بننا بھی جاری رکھا۔ اس حوالے سے آپ کے کلام میں چرخے کو مختلف استعاروں کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ معرفت کی منزل تک آپ 36 سال کی عمر میں پہنچے اور 63 برس کی عمر میں 1601 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
شاہ حسینؒ نے معرفت کی معراج تک رسائی حاصل کرکے عوام کی رہنمائی کے لیے اپنی شاعری کی شمع روشن کی۔ یہ کام انھوں نے اپنے کلام بہ صورت کافیوں کے سرانجام دیا جو دل پذیر اور نہایت مقبول ہیں۔
شاہ حسینؒ کی کافیاں پنجابی زبان کا شعری اور ادبی سرمایہ ہیں۔ مثال کے طور پر کافی ملاحظہ فرمائیں:
من اٹکیا بے پروا نال
اوس دین' دونی دے شاہ دے نال
مفہوم: دل بے نیاز کے ساتھ اٹک گیا ہے جو دین و دنیا کا بادشاہ ہے۔ ''شاہ، نانک، فرید'' نامی کتاب مصنف یوسف شامی کا لائق صد تحسین کارنامہ ہے جس کی حیثیت کسی طور بھی کم نہیں۔ فاضل مصنف نے یہ کتاب تحریر کرکے تشنگان روحانیت کے قلوب کی پیاس بجھانے کا اہتمام کیا ہے۔ مادیت پرستی کے اس پرآشوب دور میں اس قسم کی کتابوں کا لکھا جانا اور ان کی اشاعت کی اہمیت بیان سے باہر ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا یہ مشہور شعر معروضی حالات کی خوب ترجمانی کرتا ہے:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور نے اس خوب صورت کتاب کو نہایت اہتمام کے ساتھ شایع کرکے محض دنیا ہی نہیں کمائی بلکہ دین بھی کمایا ہے۔