کورونا وبا کی آڑ میں مہنگائی کا ذمہ دار کون
ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا گیا
پوری دنیا اس وقت بُری طرح موذی اور متعدی مرض کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ ہر طرف خوف اور آہ وبکا کا عالم ہے۔
حکومتیں اس وبا کے پھیلاؤ کی شدّت کم کرنے کے لیے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں بروئے کار لارہی ہیں، تاکہ کسی طرح بھی ہو اس ناگہانی آفت سے اپنے عوام کو حتی المقدور محفوظ بنایا جا سکے، لیکن انتہائی شرم ناک، تکلیف دہ اور قابل مذمت امر یہ ہے کہ قیامت صغریٰ کے اس ہیبت ناک مرحلے پر ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ناجائز ذرایع سے دولت کے حصول کی حرص و ہوس سے گلے تک بھرے کچھ سفاک، لالچی اور منافع خور تاجر، دکان داراور آڑھتی بنیادی ضروری اشیائے خورونوش، پھل اور سبزیوں کی قیمتیں فوراً بڑھا دیتے ہیں، جس سے عوام بالخصوص مزدور، دیہاڑی دار اور چھوٹے موٹے ملازمت پیشہ افراد انتہائی بری طرح پستے ہیں اور اُن پر اس ناجائز بوجھ ڈالے جانے کی کہیں اور کسی فورم پر کوئی مناسب تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جب کھانے پینے کی اشیا بازار میں وافر دست یاب ہیں اور ان کی ترسیل بھی معمول کے مطابق ہو رہی ہے، تو پھر کیوں ان اشیائے خوردو نوش کو معمول کے مناسب داموں کی بہ جائے انتہائی مہنگا فروخت کیا جاتا ہے۔ ان اشیا کی قیمتیں فوراََ کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، جس سے معاشرے کے وہ افراد جو پہلے ہی غربت، مفلسی، تنگ دستی، مناسب روزگار اور ذرایع آمدن نہ ہونے کے پیش نظر معاشی مسائل سے دو چار ہوتے ہیں اور اضافی بوجھ اُٹھانے کی بالکل سکت نہیں رکھتے کیسے اپنے گھر کا چولھا جلائیں گے، کس طرح اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں گے۔ یہ ہیں وہ تلخ حقائق جن کا بخوبی علم ہونے کے باوجود ہم بے حسی و بے شرمی کا انتہائی ڈھٹائی سے مظاہرہ کرتے آرہے ہیں اور ان بے بس طبقات کی آواز نہیں بنتے، کیوں کہ ان کے دُکھ والم میں اضافہ کی بدولت ہمارے مفادات پر قطعاً کوئی زد نہیں پڑتی۔
گزشتہ دنوں ایک سبزی فروش کی دکان پر ایک گاہک نے انتہائی سہمے ہوئے لہجے میں سبزیوں کے بھاؤ پوچھنے کی جسارت کی تو دکان دار نے بڑی بے باکی سے بتایا کہ ٹینڈے 70 روپے کلو، بینگن 60، کدو 70، شملہ 120، کریلا 200 اور بھنڈی 250 روپے کلو۔ گاہک بے چارہ سنتے ہی سرد آہ بھر کے اور واپس گھر کی راہ لی۔ میں نے دکان دار سے دریافت کیا کہ ان سبزیوں کی قیمتیں کل پرسوں تک تو تقریباً آدھی تھیں اور یہ سب تو یہاں کی مقامی پیداوار ہیں، اچانک آج انہیں کیوں پر لگ گئے ہیں، دوسرا ان کی ترسیل بھی تو کسی طرح متاثر نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے ناپید ہونے کا کوئی خدشہ ہے، آپ خوامخواہ لوگوں پر کیوں ظلم کر رہے ہیں۔
ایک کریانے کی دکان پر مشاہدے میں آیا، جہاں چند دن پہلے تک جو انڈے ہمیں فی درجن 110 روپے میں دست یاب تھے، اُس دن 140 روپے فی درجن فروخت کیے جا رہے تھے ۔ حالاں کہ لوگوں کی ریلیف کی خاطر حکومت کورونا کے اس بحران میں پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر چکی ہے، جس کا اثر خود بخود اشیائے خوردونوش پر بھی نظر آنا چاہیے تھا، قبل ازیں یہ دکان دار خود ہی ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے کہ مہنگائی کی وجہ محض تیل کی قیمتیں ہیں، لیکن اب کی بار تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود 'کورونا' کی آڑ میں اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔
دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں ہمیشہ قومی ومذہبی تہواروں و دیگر زمینی و آسمانی آفات کے موقع پر تاجر اپنے لوگوں کو خصوصی ریلیف دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان موقعوں پر غریب عوام کو ریلیف دینا تو درکنار اُلٹا مصنوعی مہنگائی کر کے انتہائی دیدہ دلیری سے من مانے دام وصول کیے جاتے ہیں اور اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی مافیا بہت طاقتور ہے، کیوں کہ سرکار کو خاطر میں لائے بغیر وہ بلا خوف وخطر کبھی تبدیلی اور کبھی کورونا کی آڑ میں عوام کا لہو پی رہے ہیں۔
شرم آنی چاہئے ایسے خوں خوار بھیڑیوں کو جو مذہبی تہواروں اور ناگہانی آفات کے دوران بھی مجبور و بے بس عوام سے اُن کی بے بسی، لاچاری اور بیماری پر ناجائز فائدہ اُٹھا کر اپنے بال بچوں کو رزق حرام کھلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اُنہیں شاید اس امر کا ادراک نہیں ہے کہ ایسے موقعوں پر اپنے لوگوں کو جائز ریلیف دے کر آپ اُن کی دل جوئی کا ساماں کر سکتے ہیں اور آپ کا یہ عمل اللہ عزو جل کے ہاں بے حد قبول و مقبول بھی ہو گا۔ یاد رکھو ہمیشہ لوگوں میں آسانیاں بانٹو اور اگر آپ دکھی انسانیت کی مدد نہیں کر سکتے، تو کم از کم اُنہیں مصنوعی مہنگائی کے بے رحم پھندے میں جکڑ کر اذیت مت پہنچاؤ۔
یہاں یہ امر حکومت کی توجہ کا متقاضی ہے کہ وہ ایسے ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کر کے لوگوں کی پہلے ہی کٹھن ہونے والی زندگیوں کو مزید مشکل میں ڈالنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے۔ ان کی سزاؤں کے قوانین مزید سخت کر کے ان کا موثر نفاذ کرے، تاکہ آئندہ کوئی شخص ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی گرانی کی جرأ ت نہ کر سکے۔
حکومتیں اس وبا کے پھیلاؤ کی شدّت کم کرنے کے لیے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں بروئے کار لارہی ہیں، تاکہ کسی طرح بھی ہو اس ناگہانی آفت سے اپنے عوام کو حتی المقدور محفوظ بنایا جا سکے، لیکن انتہائی شرم ناک، تکلیف دہ اور قابل مذمت امر یہ ہے کہ قیامت صغریٰ کے اس ہیبت ناک مرحلے پر ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ناجائز ذرایع سے دولت کے حصول کی حرص و ہوس سے گلے تک بھرے کچھ سفاک، لالچی اور منافع خور تاجر، دکان داراور آڑھتی بنیادی ضروری اشیائے خورونوش، پھل اور سبزیوں کی قیمتیں فوراً بڑھا دیتے ہیں، جس سے عوام بالخصوص مزدور، دیہاڑی دار اور چھوٹے موٹے ملازمت پیشہ افراد انتہائی بری طرح پستے ہیں اور اُن پر اس ناجائز بوجھ ڈالے جانے کی کہیں اور کسی فورم پر کوئی مناسب تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جب کھانے پینے کی اشیا بازار میں وافر دست یاب ہیں اور ان کی ترسیل بھی معمول کے مطابق ہو رہی ہے، تو پھر کیوں ان اشیائے خوردو نوش کو معمول کے مناسب داموں کی بہ جائے انتہائی مہنگا فروخت کیا جاتا ہے۔ ان اشیا کی قیمتیں فوراََ کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، جس سے معاشرے کے وہ افراد جو پہلے ہی غربت، مفلسی، تنگ دستی، مناسب روزگار اور ذرایع آمدن نہ ہونے کے پیش نظر معاشی مسائل سے دو چار ہوتے ہیں اور اضافی بوجھ اُٹھانے کی بالکل سکت نہیں رکھتے کیسے اپنے گھر کا چولھا جلائیں گے، کس طرح اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں گے۔ یہ ہیں وہ تلخ حقائق جن کا بخوبی علم ہونے کے باوجود ہم بے حسی و بے شرمی کا انتہائی ڈھٹائی سے مظاہرہ کرتے آرہے ہیں اور ان بے بس طبقات کی آواز نہیں بنتے، کیوں کہ ان کے دُکھ والم میں اضافہ کی بدولت ہمارے مفادات پر قطعاً کوئی زد نہیں پڑتی۔
گزشتہ دنوں ایک سبزی فروش کی دکان پر ایک گاہک نے انتہائی سہمے ہوئے لہجے میں سبزیوں کے بھاؤ پوچھنے کی جسارت کی تو دکان دار نے بڑی بے باکی سے بتایا کہ ٹینڈے 70 روپے کلو، بینگن 60، کدو 70، شملہ 120، کریلا 200 اور بھنڈی 250 روپے کلو۔ گاہک بے چارہ سنتے ہی سرد آہ بھر کے اور واپس گھر کی راہ لی۔ میں نے دکان دار سے دریافت کیا کہ ان سبزیوں کی قیمتیں کل پرسوں تک تو تقریباً آدھی تھیں اور یہ سب تو یہاں کی مقامی پیداوار ہیں، اچانک آج انہیں کیوں پر لگ گئے ہیں، دوسرا ان کی ترسیل بھی تو کسی طرح متاثر نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے ناپید ہونے کا کوئی خدشہ ہے، آپ خوامخواہ لوگوں پر کیوں ظلم کر رہے ہیں۔
ایک کریانے کی دکان پر مشاہدے میں آیا، جہاں چند دن پہلے تک جو انڈے ہمیں فی درجن 110 روپے میں دست یاب تھے، اُس دن 140 روپے فی درجن فروخت کیے جا رہے تھے ۔ حالاں کہ لوگوں کی ریلیف کی خاطر حکومت کورونا کے اس بحران میں پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر چکی ہے، جس کا اثر خود بخود اشیائے خوردونوش پر بھی نظر آنا چاہیے تھا، قبل ازیں یہ دکان دار خود ہی ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تھے کہ مہنگائی کی وجہ محض تیل کی قیمتیں ہیں، لیکن اب کی بار تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود 'کورونا' کی آڑ میں اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔
دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں ہمیشہ قومی ومذہبی تہواروں و دیگر زمینی و آسمانی آفات کے موقع پر تاجر اپنے لوگوں کو خصوصی ریلیف دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان موقعوں پر غریب عوام کو ریلیف دینا تو درکنار اُلٹا مصنوعی مہنگائی کر کے انتہائی دیدہ دلیری سے من مانے دام وصول کیے جاتے ہیں اور اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی مافیا بہت طاقتور ہے، کیوں کہ سرکار کو خاطر میں لائے بغیر وہ بلا خوف وخطر کبھی تبدیلی اور کبھی کورونا کی آڑ میں عوام کا لہو پی رہے ہیں۔
شرم آنی چاہئے ایسے خوں خوار بھیڑیوں کو جو مذہبی تہواروں اور ناگہانی آفات کے دوران بھی مجبور و بے بس عوام سے اُن کی بے بسی، لاچاری اور بیماری پر ناجائز فائدہ اُٹھا کر اپنے بال بچوں کو رزق حرام کھلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اُنہیں شاید اس امر کا ادراک نہیں ہے کہ ایسے موقعوں پر اپنے لوگوں کو جائز ریلیف دے کر آپ اُن کی دل جوئی کا ساماں کر سکتے ہیں اور آپ کا یہ عمل اللہ عزو جل کے ہاں بے حد قبول و مقبول بھی ہو گا۔ یاد رکھو ہمیشہ لوگوں میں آسانیاں بانٹو اور اگر آپ دکھی انسانیت کی مدد نہیں کر سکتے، تو کم از کم اُنہیں مصنوعی مہنگائی کے بے رحم پھندے میں جکڑ کر اذیت مت پہنچاؤ۔
یہاں یہ امر حکومت کی توجہ کا متقاضی ہے کہ وہ ایسے ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کر کے لوگوں کی پہلے ہی کٹھن ہونے والی زندگیوں کو مزید مشکل میں ڈالنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے۔ ان کی سزاؤں کے قوانین مزید سخت کر کے ان کا موثر نفاذ کرے، تاکہ آئندہ کوئی شخص ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی گرانی کی جرأ ت نہ کر سکے۔