لاک ڈاؤن کا ملین ڈالر سوال

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو سیاسی نظام اور طرز حکمرانی پر عدالت عظمیٰ نے اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو سیاسی نظام اور طرز حکمرانی پر عدالت عظمیٰ نے اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ (فوٹو : فائل)

لاہو ر:
بہرحال ملک کی سیاسی، اقتصادی، سماجی اور کاروباری صورتحال سوالیہ نشان ہے۔ قوم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کا شدید حملہ سیاست کے اعصابی نظام پر ہوا ہے، سیاست دان بوکھلائے ہوئے ہیں، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ کورونا کا انجام کیا ہوگا۔

ایک طرف وزیر اعظم کی تشویش ملکی معیشت کے حوالے سے ہے، ان کا کہنا ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے، لاک ڈاؤن کے سبب حالات اچھے نہیں۔ دوسری جانب ملک میں لاک ڈاؤن کے تسلسل یا عبوری ریلیف اور کاروبار کھولنے کے امکانات پر بریک تھرو کی صورت بھی اہمیت کی حامل ہے، ملک کے سیاسی نظام کو لاحق خطرات کی سنگینی بھی بڑھ گئی ہے، سندھ حکومت کا استدلال یہ ہے کہ کورونا پر بیانیہ ایک ہونا چاہیے، وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سوال اٹھا دیا کہ کیا اتحاد کے لیے لاشیں دیکھنے کے منتظر ہیں، ان کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن مزید سخت ہونا چاہیے۔

دریں اثنا کراچی کے تاجروں نے آج سے شہر میں کاروباری سرگرمیاں شروع کونے کا عندیہ دیا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک انجانی وبائی صورتحال نے بیانیوں کی کثرت پسندی کی ہولناکی پیدا کی، اتفاق رائے دشوار ہوگیا اور سیاسی اشتراک عمل میں بھی قدم قدم پر وفاق اور صوبہ سندھ میں تناؤ کی شدت برقرار رہی، انتظامی انتشار اور فکری خلفشار نے حتمی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے کے لیے ہفتے کی شب سے غوروفکر شروع کیا تو منگل کی سہ پہر کو جاکر فیصلہ ہوا۔

سیاسی مبصرین نے صائب معنوں میں اسے مجتمع ہوتے ہوئے طوفان Gathering Storm سے تعبیر کیا ہے اور سیاست دانوں کو باورکرایا کہ انھیں آیندہ چند دنوں میں قوم کو ہر قیمت پر ذہنی اذیت سے نکالنا ہوگا، حالات کی بہتری کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ایسا ممکن نہیں ہوگا کہ کورونا کے نمٹنے میں عوام آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن کر حکمرانی کے تضادات اور سیاسی وانتظامی ابہام اور کنفیوژن کی نذر ہوجائیں، یہ وقت سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا ہے،کسی جانب سے کوئی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے۔

ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ حکومت اور اپوزیشن میں سرد جنگ جاری رہے اورکورونا سے نمٹنے کے لیے جس عزم، ولولہ اور جوش وجذبہ کی ضرورت ہے اس میں عوامی امنگوں کی بھرپور ترجمانی ہر سطح پر موجود ہی نہ ہو، لہٰذا ملکی مجموعی صورتحال کی اصلاح کے لیے کچھ '' بڑے اور سخت فیصلوں'' کی ضرورت ہے، خدشات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی سیاسی بصیرت سے کام لیا جائے تو ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے، لیکن اس کے لیے تنگ نظری نہیں سیاسی وسعت نظر چاہیے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی کورونا وائرس کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم ریلیف فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ پیرکو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا کو کورونا وبا کے چیلنج کا سامنا ہے، لاک ڈاؤن کے باعث حالات اچھے نہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، انشاء اللہ ہم کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب رہیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکا نے اپنی30کروڑ آبادی کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے2200 ارب ڈالر، جرمنی اور جاپان نے ایک ایک ہزارارب ڈالر سے زائد رقوم مختص کی ہیں جب کہ ہم نے اپنے ملک کی 22 کروڑ آبادی کے لیے8 ارب ڈالرکا پیکیج دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم تمام پاکستانی وزیراعظم ریلیف فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی رقوم و عطیات جمع کرائیں۔ آپ کی مدد سے انشاء اللہ ہم کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

انھوں نے کہا اللہ کے فضل سے پاکستان میں صورتحال اتنی تشویشناک نہیں۔پیرکو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت معیشت اورمعاشی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت کی جانب سے دیے جانے والے مالی پیکیج پر عمل درآمدکے بارے میں جائزہ اجلاس ہوا۔ سیکریٹری خزانہ نے معیشت کے مختلف شعبوں کو دی جانے والی مالی معاونت کی تمام تر تفصیلات اور اب تک ہونے والی پیش رفت سے اجلاس کو تفصیلی طور پرآگاہ کیا۔


اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی صورتحال میں ہماری اولین ترجیح کمزور طبقات خصوصاً مزدور، دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقے کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کورنا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں مختلف شعبوں کی سپورٹ کے لیے 1.2کھرب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ ایم ڈی یوٹیلٹی اسٹورز نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر اسٹاک کی پوزیشن، سیل میں اضافے اور ماہ رمضان کے لیے کی جانے والی تیاریوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔

کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کا غیر ملکی منظرنامہ ملکی قیادت کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے، میڈیا ان ملکوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کی خبریں دے رہا ہے جہاں بے پناہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں، مگر سیاسی بیانیہ سندھ کا کچھ اور ہے اور دیگر صوبائی حکومتیں کورونا سے نمٹنے کے میکنزم میں بنیادی تبدیلیاں لائی ہیں، تاہم عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ لندن اور نیویارک میں کاروباری سرگرمیاں، رفتہ رفتہ نرم تو ہورہی ہیں، اشیائے خورونوش کی فراہمی جاری ہے، لیکن ان ملکوں نے لاک ڈاؤن مکمل کرنے کے بعد ہی اب زندگی کو معمول کے مطابق رواں دواں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اب ضرورت ملکی ضرورت اور عوام کی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں۔

سپریم کورٹ نے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی پر ایک بار پھر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے قرار دیا کہ حکومتی معاونین کی پوری فوج ہے،کابینہ غیر موثر جب کہ کئی ارکان پر سنجیدہ الزامات ہیں، عدلیہ نے اس پر بھی سوال کیا کہ کورونا پر کیسی ٹیم کام کررہی ہے، سندھ حکومت کی کارکردگی کو بھی افسوسناک قرار دیا۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو سیاسی نظام اور طرز حکمرانی پر عدالت عظمیٰ نے اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں، چیف جسٹس نے حکومتی کارکردگی پر کہا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ دوسرے کام بھی کرنے ہوتے ہیں،کیا ملک بند کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ؟ حکومتی مشیران، معاونین کابینہ پر حاوی ہوتے نظر آرہے ہیں، یہ کیا ہورہا ہے، وزیراعظم کی کابینہ غیر موثر جب کہ وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے، کیا پارلیمنٹیرنز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں؟ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں اتنے بڑے مینیوفیکچررز ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بناسکتے؟ عدلیہ نے ملک میں انارکی کی طرف بڑھنے اور کورونا سے سیاسی نظام کو لاحق خطرہ کا انتباہ بھی دیا، یہ بھی کہا کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں اور پولیس ان کو جوتے مار رہی ہے، ایسے سخت ریمارکس ارباب اختیار کے لیے واقعی چشم کشا ہونے چاہئیں، حکومت تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے، اسے جن حالات کا سامنا ہے وہ ایک گمبھیرتا ہے جس سے نکلنا مشکل ٹاسک ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، وفاقی حکومت اور صوبوں میں کورونا سے نمٹنے کے لیے سیاسی اشتراک عمل ناگزیر ہے، اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ملکی افرادی قوت، ہنرمندوں اور دیہاڑی دارطبقوں کو بیروزگاری اور غربت نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے، دیگر صوبوں کی طرح اندرون سندھ اور کراچی میں لاکھوں افراد نان شبینہ کو محتاج ہوگئے، سفید پوشوں کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے، لیبر فورس بیکار گھر بیٹھی ہے، بچوں کے لیے دودھ اور گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا سوال کورونا کے مقابل آگیا ہے،کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے پاکستان کے کاروباری ادارے بے یقینی کا شکار ہوگئے ہیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل خطرے میں ہے۔

پاکستان سے ٹیکسٹائل کی برآمد کے بھاری مالیت کے آرڈر منسوخ ہوگئے، 56 فیصد کاروباری اور تجارتی اداروں کی پیداواری صلاحیت متاثر46 فیصد کو سرمائے کی قلت کا سامنا ہے، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 12 لاکھ ٹن گندم کی فراہمی کی منظور دی ہے۔اسی نکتہ کو سامنے رکھتے ہوئے غریب طبقات حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو لاک ڈاؤن کرنے کی حکمرانوں کو اتنی فکر ہے وہ اس بات کا اندازہ کیوں نہیں لگاتے کہ گھر میں بند کرنے والوں کو جب کھانا اور روزگار نہیں ملے گا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں کورونا کے ساتھ ساتھ بھوک سے مر جانے کا کھلا لائسنس مل گیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کو صرف ویکسین روک سکتی ہے،ایک اور اطلاع کے مطابق پاکستانیوں کا مستحکم امیون سسٹم کورونا کی شکست کا باعث بن رہا ہے، یہ بھی خوش آیند اطلاع ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں نے کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے موثر طریقہ تیار کرلیا ہے، صحت یاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینس امیونوگلوبیولن تیار کرلی گئی ہے جس سے علاج کیا جاسکے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ کورونا کو پاکستان اپنے ہوم گراؤنڈ پر عوام، حکومت اور ڈاکٹروں کے تعاون سے شکست دینے میں کامیاب ہوگا۔
Load Next Story