کورونا وائرس سنجیدہ ہم اب بھی نہیں ہیں
جلد بازی، سیاست اور جذباتی فیصلے ملک میں بڑی تباہی اور خرابی لا سکتے ہیں۔
پوری دنیا کو ایک ہی قسم کے چیلنج کا سامنا ہے، ایک طرف کورونا وائرس کا پھیلائو اور دوسری جانب گہری کھائی کی طرف جاتی معیشت۔ یہ دونوں کیفیات یقینا تیسری عالمی جنگ کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے، اور ویسے بھی پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں دنیا کی معیشتوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچا تھا جتنا کورونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ سے پہنچنے کا خدشہ ہے۔
عالمی بینک اس کا تخمینہ 6ہزار ارب ڈالر لگا رہا ہے جب کہ آئی ایم ایف کا خدشہ ہے کہ یہ وباء مزید چند مہینے بھی چلی تو نقصان تخمینوں سے کئی گنا بڑھ جائے گا۔ لہٰذامسئلہ یہ ہے کہ وائرس سے بچائو بھی بہت ضروری ہے اور عوام کا پیٹ پالنے ، انھیں بھوک سے بچانے اور ان کے علاج معالجے کے لیے پیسوں کا ہونا یعنی معیشت بہتر کرنا بھی بہت ضروری ہے، اسی چیز کو ذہن میں رکھ کر تادم تحریر حکومت لاک ڈائون میں نرمی کا سوچ رہی ہے،لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر احتیاط نہ برتی اور لاک ڈائون میں مزید چند روز کا اضافہ نہ کیا تو(خاکم بدہن) خزاں کے پتوں کی طرح یہاں بھی لاشیں گریں گی۔
کورونا کا ابھی زور ٹوٹا ہے نہ پاکستان میں پیک ٹائم شروع ہوا،عام شہریوں کے ساتھ اب ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی اس کے نشانہ پر ہے جب کہ لوکل ٹرانسمیشن کی شرح بھی پچاس فیصد سے بڑھ گئی جو الارمنگ ہے، معمولی سی بے تدبیری اور نرمی امریکا، برطانیہ، اٹلی، ایران اور اسپین جیسی صورت حال کا سبب بن سکتی ہے، زود فراموش ہم پرلے درجے کے ہیں، بے احتیاطی ہمارے مزاج کا حصہ ہے، ابھی میں نے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کیا ہے، یقین مانیں مجھے کہیں لاک ڈائون نظر نہیں آیا، شہر کے شہر کھلے ہیں۔ بچے تالابوں میں بے فکری سے نہا رہے ہیں، کرکٹ کھیل رہے ہیں، اور کہیں کہیں تو چھوٹے موٹے میلے ٹھیلے بھی لگے ہیں۔ الغرض ہم معمولی فائدے کے لالچ میں بڑا نقصان اٹھا لینے کے عادی ہیں اورپھر ملال بھی کوئی نہیں ہوتا ۔
یہ صورتحال محض پاکستان تک محدود نہیں امریکا پہلے، اٹلی میںدوسرے نمبر پر زیادہ اموات ہوئی ہیں، اسپین، فرانس اور جرمنی سب اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں لیکن سب سے سبق آموز کیس امریکا کا ہے۔دنیا کے امیر ترین ملک میں Covid 19 کا حملہ سنگین ترین ہے۔ اب تک قریباً ساڑھے پانچ لاکھ افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ہزاردو دو ہزار افراد یومیہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور صرف امریکا میں مرنے والوںکی تعداد 20ہزارسے زائد ہوچکی ہے۔ بالخصوص نیویارک کی صورتحال بہت ابتر ہے جہاں 170600 سے زائدافراد وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور قریباً8700 اموات ہو چکی ہیں۔
مغربی دنیا کا حوالہ دے کر میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت احتیاط ہی سے وبا کے پھیلائو کو روکا جا سکتا ہے۔ ذمے داری اور دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت جاری لاک ڈائون کی مدت مزید بڑھا دی جائے اور باہر چلنے پھرنے پر پابندیاں سخت ہوں۔ غربت ہے، لوگ بھوکے مر جائیں گے، ہماری صورت حال دیگر ممالک کے مقابلے میں مختلف ہے، یہ نعرے سیاسی نعرے ہیں۔ یہ وقت سستی سیاست کا نہیں، انسانی جانیں محفوظ کرنے کا ہے۔ اس موذی وبا کا پھیلائو روکنے کا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت پالیسی ساز ادارے 1918ء کے انفلوئنزا کے بارے میں لکھی گئی کتابیں اور دستاویزات، شماریات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ چند دن پہلے جان بیری، جس نے اس موضوع پر ایک جامع کتاب تحریر کی ہے کا ایک انٹرویو الجزیرہ پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک غلط سیاسی فیصلے نے فلاڈیلفیا شہر میں بیس ہزار جانیں گنوا دی تھیں۔ یہ جنگِ عظیم اول کے بعد کا واقعہ ہے جب فوجی محاذوں سے واپس آ رہے تھے۔ ان کی فتح کی خوشی میں شہر میں استقبالی جلوس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ اس جلوس میں شامل ہوئے تھے۔
منتظمین اس جلوس سے پیدا ہونے والے خطرات سے پوری طرح با خبر اور آگاہ تھے، مگر وہ جشن کو منسوخ کر کے اس کی سیاسی قیمت نہیں چکانا چاہتے تھے۔ وہ عوام کی خواہش اور سیاست کے تقاضوں کی رو میں بہہ گئے۔ بہت مشکل ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں سیاسی مفادات سے الگ ہو کر عوام کے مفادات میں فیصلے صادر ہوں۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کیوں کہ پاکستان میں جیسے جیسے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں ویسے ویسے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ہمیں یہ تحقیق بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں صورت حال زیادہ خراب ہوگی۔ امپیریل کالج، لندن کی حالیہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے رواں سال 4 کروڑ افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں مریضوں کی تعداد میں اس لیے تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے کیوں کہ وہاں ٹیسٹ کی بہترین سہولیات موجود ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں مارچ، 2020 کے اختتام تک شرح اموات بہت زیادہ نہیں ہے مگر مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ خطرے کی علامت ہے۔ لہٰذاچین نے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کا واحد حل لاک ڈائون نکالا ہے اور اب پوری دنیا اسی چینی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔
بہرکیف جلد بازی، سیاست اور جذباتی فیصلے ملک میں بڑی تباہی اور خرابی لا سکتے ہیں۔ ہوش مندی، تاریخ پہ نظر اور اس وبا کا نہ صرف ملک کے اندر پھیلنے کا رجحان بلکہ جو ممالک اس کا نسبتاً زیادہ شکار ہوئے ہیں، وہاں کا تجربہ بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ اس وقت ہم نے ذرا ضبط، تحمل اور برداشت سے کچھ کام لے لیا تو بڑی آزمائش اور طویل تر تالے بندیوں سے بچ نکلیں گے۔ موجودہ حالات میں رہبری سیاست سے نہیں، تاریخ اور سائنس سے مطلوب و مقصود ہے۔
حکومتی ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، لاک ڈائون کی خلاف ورزی، غیر ضروری طور پر باہر نکلنا، بھیڑ سے اجتناب نہ کرنا، ہمارا اجتماع رویہ ہے!جس سے بچنے میں ہی سب کی عافیت ہے، ورنہ خدانخواستہ پچھتانے کے سوا ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔