ڈاکٹروں کے ساتھ تشدد … کچھ پرانی یادیں اور واقعات
’’تھانے کا ماحول‘‘ او ر ’’ہجوم کے ساتھ مناسب اور مّوثر طریقے سے نمٹنا‘‘ابھی تک پولیس کے کمزور ترین پہلو ہیں۔
دوران ِ جنگ ہر قوم اگلی صفوں میں لڑنے والے اپنے سپاہیوں اور جانبازوں پر پھول نچھاور کرتی ہے، ان کے لیے ترانے گائے جاتے ہیں اور تعریف و تحسین کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ انتہائی خطرناک دشمن کے خلاف اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر لڑنے والے ڈاکٹروں کے ساتھ کوئٹہ جیسے اہم شہر میں شرمناک تشدد ہوتے دیکھا تو بہت دکھ ہوا، پولیس کا وحشیانہ پن، بے حسی اور نالائقی کا مظاہرہ دیکھ کر کچھ پرانے واقعات یاد آگئے جو عام قارئین کے لیے دلچسپی اورپولیس افسروں کے لیے افادیت کا موجب ہوں گے۔
پولیس کی طویل سروس میں راقم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ قماربازی(gambling) ایک ایسی لعنت ہے جس سے کئی دیگر جرائم جنم لیتے ہیں، اسی لیے قرآن ِ حکیم میں خالقِ کائنات نے اس لعنت کو ''شیطانی فعل'' قرار دیا ہے۔ راقم بطور ایس پی راولپنڈی میں تعیّنات ہوا تو شہریوں نے جوئے کے ایک بڑے بدنام اڈّے کی نشاندہی کی۔ میں نے خود ریڈ کر کے وہ اڈہ ختم کر دیا تو شہر کا بااثر ایم این اے(حالیہ مرکزی وزیر) تلملا اٹھا اور اس نے مجھے راولپنڈی سے تبدیل کرا دیا۔ اس تبدیلی پر پورے شہر میں بڑا شور مچا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب (میاں نواز شریف) نے مجھے لاہور بلوایا اور کہا کہ ''جرائم کے خاتمے کے لیے آپکی بڑی اچھی شہرت ہے۔ لاہور میں کرائم بہت بڑھ گیا ہے اس لیے ہم آپ کو لاہور تعینات کر رہے ہیں تاکہ یہاں کا کرائم کنٹرول کریں'' ۔
لاہور میں اس وقت تین ہی افسر ہوتے تھے۔ ایک ایس ایس پی اور اس کے ساتھ ایس پی سٹی اور ایس پی کینٹ ۔ مجھے ایس پی سٹی لگایا گیا جسکی Jurisdiction شاہدرہ سے لے کر چوہنگ تک تھی۔ زیادہ تر جلوس ناصر باغ سے شروع ہوتے اور مسجد ِ شہداء پر جا کر اختتام پذیر ہوتے تھے، عام روٹین کے جلوسوں سے ایس ایچ او ہی نمٹ لیتا تھا، ذرا بڑے جلوسوں کو ڈیل کرنے کے لیے متعلقہ ڈی ایس پی کو بھیجا جاتا اور بہت بڑے جلوس کی صورت میں ایس پی سٹی (راقم) کو خود جا نا پڑتا تھا۔ بعض اوقات جلوسوں یا ان کی منزل کی حساسیت کے پیشِ نظر ایس ایس پی اور ڈی آئی جی بھی وائرلیس کے ذریعے رپورٹ لیتے رہتے تھے اور متعلقہ افسر کو براہ ِ راست بھی ہدایات دیا کرتے تھے۔ انھی دنوں ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ کا ایک واقعہ ہو گیا تھا اس لیے جلوسوں کے بارے میں حکومت بڑی حسّاس تھی اور اس کی ہدایات تھیں کہ جلوسوں کو مسجدِ شہداء سے آگے نہ آنے دیا جائے۔
ایک روز میں لوئر مال پر واقع اپنے دفترمیں بیٹھا تھا،وائرلیس سیٹ کو آن کیا تو ایک جلوس کا پیغام چل رہا تھا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ جلوس کی تعداد ہزاروں میں ہے تو میرے کان کھڑے ہو ئے اور میں نے موقعے پر موجود پولیس افسروں سے مزید معلومات لیں جن سے پتہ چلا کہ یہ ٹیچرز (اساتذہ) کا جلوس ہے جو اپنے مطالبات کے سلسلے میں سیکریٹری تعلیم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں افسران بھی انواع و اقسام کے ہوتے ہیں ۔کچھ نیک دل تو یقینََاعوامی مسائل سے ہمدردی رکھتے ہیںمگر زیادہ تر اپنے اختیارات کے نشے میں سرشار، احساسِ حاکمیّت کا شکار اور عام آدمیوں سے بیزار رہتے ہیں۔ذاتی معیشت مستحکم کرنا اور زندگی کی رنگینیوں سے لطف اٹھانا ہی اُنکا مطمعء نظر ہو تا ہے اور وہ مظاہرین سے ملنا یا ان کے مسائل سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔
میں درخواست گزاروں کی باتیں سننے میں مصروف تھا کہ وائرلیس آپریٹر نے مجھے آکر بتایا سر ! پولیس جلوس کو روکنے کے لیے فورس استعمال کرنے لگی ہے۔ پولیس ملازمین نے لاٹھیاں سیدھی کر لی ہیں۔ میں نے فورََا وائرلیس پر موقعے پر موجود افسروں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا '' تمام ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو میرا حکم ہے کہ فورس ہرگزاستعمال نہیں کی جائے گی، یہ اساتذہ کاجلوس ہے جو معاشرے کا سب سے قابلِ احترام طبقہ ہے۔کسی ٹیچر کو اِسٹک کی معمولی نوک بھی ٹچ نہیں ہونی چاہیے، میں خود ان سے بات چیت کے لیے موقعے پر پہنچ رہا ہوں'' چند منٹ میں ہی میں موقعے پر پہنچ گیا۔ ہائیکورٹ کے سامنے جلوس کے شرکاء نعرے لگا رہے تھے ۔
میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو وہ رک گئے۔ پھر میں نے انھیںکہا آپ کے پانچ رہنما ذرا سائیڈ پر آئیں تاکہ مسئلے کی نوعیّت پوچھ لی جائے۔ ان کے پانچ لیڈروں سے بات ہو گئی تو میں انھیں لے کر وزیر تعلیم کے دفترچلا گیا۔ حسُنِ اتفاق سے وزیر صاحب ایک دیانتدار اور کام سے لگن رکھنے والے انسان (بیرسٹر عثمان ابراہیم )تھے۔ انھوں نے وفد کے لیڈروں کو چائے پلائی، مطمئن کیا اور دس پندرہ منٹ میں جلوس منتشر ہو گیا اور ٹریفک رواں دواں ہو گئی۔
سروس کے دوران پولیس کو میری واضح ہدایات تھیںکہ معاشرے کے معماروں اور مسیحاؤں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھانا۔ اگر ان میں سے کوئی زیادتی بھی کر لے تو بھی برداشت کرنا ہے۔ retaliate نہیں کرنا۔ پنڈی اور لاہور میںبارہا اساتذہ اور ڈاکٹروں کے جلوسوں سے واسطہ پڑتا رہا مگران کے خلاف کبھی بد تمیزی نہیں ہونے دی۔ اپنے کولیگز اور سینئر افسروں کے منع کرنے کے باوجود میں جلوسوں کے اندر جا پہنچتا تھا اور جلوسوں کے منتظمین یا لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کیا کرتا تھا، کئی سال پہلے میں خود پنجاب یونیورسٹی لاء کالج اسٹوڈنٹس یونین کا صدر رہ چکا تھا اس لیے شاید اُسوقت کی خود اعتمادی کے باعث میں پُر تشدّد جلوسوں سے کبھی خائف نہیں ہوا مگر ان کے مسائل سے لاتعلق رہنے کے بجائے انھیں سمجھنے اور انھیں حل کروانے میں مدد کی کوشش کیا کرتا تھا۔
ایک اور واقعہ بھی یاد آرہا ہے۔ میں ایس ایس پی لاہور (اُسوقت لاہور پولیس کا سربراہ ایس ایس پی ہوتا تھا) تھا اور اپنے دفتر میں موجود تھا کہ میرے اسٹاف آفیسر نے آکر بتایا کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے ورکروں (جو جی ٹی ایس بند ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہو رہے تھے) کا جلوس سول سیکریٹریٹ کے گیٹ پر پہنچ چکا ہے۔ میںنے ایس پی سٹی اور متعلقہ ڈی ایس پی کو موقعے پر بھیجا، اُدھر ڈی سی کو بھی فون کیا کہ وہ بھی اے ڈی سی اور اے سی کو بھجوا دیں۔
آدھ پون گھنٹے کے بعد میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ایس پی سٹی اور اے ڈی سی دونوں موقعے پر موجود ہیں۔ میں مطمئن ہو گیا کہ دونوں ذمے دار افسر ہیں جلوس کے شرکاء سے مذاکرات کر کے حل نکال لیں گے۔ چونکہ سیکڑوں کی تعداد میں درخواست گزار آئے ہوئے تھے اس لیے میں ان کے مسائل سننے میں مصروف ہو گیا۔ جلوس کے سیکریٹریٹ پہنچنے کے دو گھنٹے بعد مجھے چیف سیکریٹری (پرویز مسعود صاحب) کا میسج ملا کہ احتجاج والوں نے سیکریٹریٹ کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور ہم محبوس ہو گئے ہیں۔ باہر نہیں نکل سکتے کوئی حل نکالو۔
میں فوری طور پر سیکریٹریٹ کے مین گیٹ پر پہنچا، اے ڈی سی اور ایس پی آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے، میں نے پوچھا دو گھنٹے ہو چکے ہیں آپ نے ان کے ساتھ بات چیت نہیں کی! جواب ناں میں تھا۔ میں نے کسی قدر ناراضگی کا اظہار کیا اور جلوس کے لیڈروں سے ملکر چار آدمیوں کا وفد بنا کر انھیں چیف سیکریٹری کے پاس لے گیا۔ وہاں سے وہ خوشی خوشی واپس آئے اور پندرہ منٹ میں وہ نتیجہ حاصل کر لیا گیا جو تھوڑی سے دانش ، حکمت اور سمجھداری سے کا م لے کر دو گھنٹے پہلے بھی حاصل کیا جا سکتاتھا۔کیا کوئٹہ میں ڈاکٹروں کے نمایندوں کے ساتھ سینئر افسر بات چیت کی کوشش کرتے تو وہ انکار کر دیتے، میرے خیال میں وہ انکار نہ کرتے مگر کوئی ذمّے دار حکومتی نمایندہ ان کی اشک شوئی کے لیے تیار تو ہوتا۔
پولیس کارکردگی کے کئی پہلو بہتر ہوئے ہیں مگر ''تھانے کا ماحول'' او ر ''ہجوم کے ساتھ مناسب اور مّوثر طریقے سے نمٹنا''ابھی تک پولیس کے کمزور ترین پہلو ہیں۔کراچی میں مسجد کے منتظمین سے پہلے بات ہونی چاہیے تھی،خاتون پولیس افسرکا مسجد کے اندر جا کر نمازیوں سے بد تمیزی کرناانتہائی نا مناسب فعل تھا۔حکومت کے احکامات پر عمل درآمد ضرور کرائیں مگر حکمت کے ساتھ۔ کراچی پولیس کے سربراہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے وہ ایک ایماندار افسر ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ اس کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائیں گے اور تمام پولیس افسروں کو لوگوں کی حسا سّیت کے بارے میں sensitise بھی کریں گے۔
نوٹ : وفاقی حکومت کی طرف سے مستحقین میں پیسوں کی تقسیم کا طریقہء کار ( جسکے نتیجے میںکئی خواتین ہلاک اور زخمی ہو چکی ہیں) نا اہلی اور بد انتظامی کی بدترین مثال ہے۔ اس سے پہلے حکومتیں غریب گھرانوں میں زکوٰۃ اور BISP کی امداد اُنکے گھروں پر تقسیم کرتی رہی ہیں، یہ رقم بھی ان کے گھروں پر تقسیم ہو یا ان کے اکاؤنٹ کھلوا کر وہاں شفٹ کر دی جائے، کئی بہتر حل موجود ہیں۔ مگر بیسیوں جگہوں پر سیکڑوں عورتوں کا مجمع لگوانا بدترین حل ہے۔ اس طرح کے مجمعے خود حکومت، ڈاکٹروں اور WHO کی واضح ہدایات کی کھلی خلاف ورزی ہے، مگر کسی چینل اور کسی اینکر کواس پر اعتراض نہیں، انھیں صرف مسجدوں پر تالے لگوانے سے غرض ہے۔
پولیس کی طویل سروس میں راقم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ قماربازی(gambling) ایک ایسی لعنت ہے جس سے کئی دیگر جرائم جنم لیتے ہیں، اسی لیے قرآن ِ حکیم میں خالقِ کائنات نے اس لعنت کو ''شیطانی فعل'' قرار دیا ہے۔ راقم بطور ایس پی راولپنڈی میں تعیّنات ہوا تو شہریوں نے جوئے کے ایک بڑے بدنام اڈّے کی نشاندہی کی۔ میں نے خود ریڈ کر کے وہ اڈہ ختم کر دیا تو شہر کا بااثر ایم این اے(حالیہ مرکزی وزیر) تلملا اٹھا اور اس نے مجھے راولپنڈی سے تبدیل کرا دیا۔ اس تبدیلی پر پورے شہر میں بڑا شور مچا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب (میاں نواز شریف) نے مجھے لاہور بلوایا اور کہا کہ ''جرائم کے خاتمے کے لیے آپکی بڑی اچھی شہرت ہے۔ لاہور میں کرائم بہت بڑھ گیا ہے اس لیے ہم آپ کو لاہور تعینات کر رہے ہیں تاکہ یہاں کا کرائم کنٹرول کریں'' ۔
لاہور میں اس وقت تین ہی افسر ہوتے تھے۔ ایک ایس ایس پی اور اس کے ساتھ ایس پی سٹی اور ایس پی کینٹ ۔ مجھے ایس پی سٹی لگایا گیا جسکی Jurisdiction شاہدرہ سے لے کر چوہنگ تک تھی۔ زیادہ تر جلوس ناصر باغ سے شروع ہوتے اور مسجد ِ شہداء پر جا کر اختتام پذیر ہوتے تھے، عام روٹین کے جلوسوں سے ایس ایچ او ہی نمٹ لیتا تھا، ذرا بڑے جلوسوں کو ڈیل کرنے کے لیے متعلقہ ڈی ایس پی کو بھیجا جاتا اور بہت بڑے جلوس کی صورت میں ایس پی سٹی (راقم) کو خود جا نا پڑتا تھا۔ بعض اوقات جلوسوں یا ان کی منزل کی حساسیت کے پیشِ نظر ایس ایس پی اور ڈی آئی جی بھی وائرلیس کے ذریعے رپورٹ لیتے رہتے تھے اور متعلقہ افسر کو براہ ِ راست بھی ہدایات دیا کرتے تھے۔ انھی دنوں ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ کا ایک واقعہ ہو گیا تھا اس لیے جلوسوں کے بارے میں حکومت بڑی حسّاس تھی اور اس کی ہدایات تھیں کہ جلوسوں کو مسجدِ شہداء سے آگے نہ آنے دیا جائے۔
ایک روز میں لوئر مال پر واقع اپنے دفترمیں بیٹھا تھا،وائرلیس سیٹ کو آن کیا تو ایک جلوس کا پیغام چل رہا تھا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ جلوس کی تعداد ہزاروں میں ہے تو میرے کان کھڑے ہو ئے اور میں نے موقعے پر موجود پولیس افسروں سے مزید معلومات لیں جن سے پتہ چلا کہ یہ ٹیچرز (اساتذہ) کا جلوس ہے جو اپنے مطالبات کے سلسلے میں سیکریٹری تعلیم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں افسران بھی انواع و اقسام کے ہوتے ہیں ۔کچھ نیک دل تو یقینََاعوامی مسائل سے ہمدردی رکھتے ہیںمگر زیادہ تر اپنے اختیارات کے نشے میں سرشار، احساسِ حاکمیّت کا شکار اور عام آدمیوں سے بیزار رہتے ہیں۔ذاتی معیشت مستحکم کرنا اور زندگی کی رنگینیوں سے لطف اٹھانا ہی اُنکا مطمعء نظر ہو تا ہے اور وہ مظاہرین سے ملنا یا ان کے مسائل سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔
میں درخواست گزاروں کی باتیں سننے میں مصروف تھا کہ وائرلیس آپریٹر نے مجھے آکر بتایا سر ! پولیس جلوس کو روکنے کے لیے فورس استعمال کرنے لگی ہے۔ پولیس ملازمین نے لاٹھیاں سیدھی کر لی ہیں۔ میں نے فورََا وائرلیس پر موقعے پر موجود افسروں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا '' تمام ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو میرا حکم ہے کہ فورس ہرگزاستعمال نہیں کی جائے گی، یہ اساتذہ کاجلوس ہے جو معاشرے کا سب سے قابلِ احترام طبقہ ہے۔کسی ٹیچر کو اِسٹک کی معمولی نوک بھی ٹچ نہیں ہونی چاہیے، میں خود ان سے بات چیت کے لیے موقعے پر پہنچ رہا ہوں'' چند منٹ میں ہی میں موقعے پر پہنچ گیا۔ ہائیکورٹ کے سامنے جلوس کے شرکاء نعرے لگا رہے تھے ۔
میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو وہ رک گئے۔ پھر میں نے انھیںکہا آپ کے پانچ رہنما ذرا سائیڈ پر آئیں تاکہ مسئلے کی نوعیّت پوچھ لی جائے۔ ان کے پانچ لیڈروں سے بات ہو گئی تو میں انھیں لے کر وزیر تعلیم کے دفترچلا گیا۔ حسُنِ اتفاق سے وزیر صاحب ایک دیانتدار اور کام سے لگن رکھنے والے انسان (بیرسٹر عثمان ابراہیم )تھے۔ انھوں نے وفد کے لیڈروں کو چائے پلائی، مطمئن کیا اور دس پندرہ منٹ میں جلوس منتشر ہو گیا اور ٹریفک رواں دواں ہو گئی۔
سروس کے دوران پولیس کو میری واضح ہدایات تھیںکہ معاشرے کے معماروں اور مسیحاؤں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھانا۔ اگر ان میں سے کوئی زیادتی بھی کر لے تو بھی برداشت کرنا ہے۔ retaliate نہیں کرنا۔ پنڈی اور لاہور میںبارہا اساتذہ اور ڈاکٹروں کے جلوسوں سے واسطہ پڑتا رہا مگران کے خلاف کبھی بد تمیزی نہیں ہونے دی۔ اپنے کولیگز اور سینئر افسروں کے منع کرنے کے باوجود میں جلوسوں کے اندر جا پہنچتا تھا اور جلوسوں کے منتظمین یا لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کیا کرتا تھا، کئی سال پہلے میں خود پنجاب یونیورسٹی لاء کالج اسٹوڈنٹس یونین کا صدر رہ چکا تھا اس لیے شاید اُسوقت کی خود اعتمادی کے باعث میں پُر تشدّد جلوسوں سے کبھی خائف نہیں ہوا مگر ان کے مسائل سے لاتعلق رہنے کے بجائے انھیں سمجھنے اور انھیں حل کروانے میں مدد کی کوشش کیا کرتا تھا۔
ایک اور واقعہ بھی یاد آرہا ہے۔ میں ایس ایس پی لاہور (اُسوقت لاہور پولیس کا سربراہ ایس ایس پی ہوتا تھا) تھا اور اپنے دفتر میں موجود تھا کہ میرے اسٹاف آفیسر نے آکر بتایا کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے ورکروں (جو جی ٹی ایس بند ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہو رہے تھے) کا جلوس سول سیکریٹریٹ کے گیٹ پر پہنچ چکا ہے۔ میںنے ایس پی سٹی اور متعلقہ ڈی ایس پی کو موقعے پر بھیجا، اُدھر ڈی سی کو بھی فون کیا کہ وہ بھی اے ڈی سی اور اے سی کو بھجوا دیں۔
آدھ پون گھنٹے کے بعد میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ایس پی سٹی اور اے ڈی سی دونوں موقعے پر موجود ہیں۔ میں مطمئن ہو گیا کہ دونوں ذمے دار افسر ہیں جلوس کے شرکاء سے مذاکرات کر کے حل نکال لیں گے۔ چونکہ سیکڑوں کی تعداد میں درخواست گزار آئے ہوئے تھے اس لیے میں ان کے مسائل سننے میں مصروف ہو گیا۔ جلوس کے سیکریٹریٹ پہنچنے کے دو گھنٹے بعد مجھے چیف سیکریٹری (پرویز مسعود صاحب) کا میسج ملا کہ احتجاج والوں نے سیکریٹریٹ کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور ہم محبوس ہو گئے ہیں۔ باہر نہیں نکل سکتے کوئی حل نکالو۔
میں فوری طور پر سیکریٹریٹ کے مین گیٹ پر پہنچا، اے ڈی سی اور ایس پی آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے، میں نے پوچھا دو گھنٹے ہو چکے ہیں آپ نے ان کے ساتھ بات چیت نہیں کی! جواب ناں میں تھا۔ میں نے کسی قدر ناراضگی کا اظہار کیا اور جلوس کے لیڈروں سے ملکر چار آدمیوں کا وفد بنا کر انھیں چیف سیکریٹری کے پاس لے گیا۔ وہاں سے وہ خوشی خوشی واپس آئے اور پندرہ منٹ میں وہ نتیجہ حاصل کر لیا گیا جو تھوڑی سے دانش ، حکمت اور سمجھداری سے کا م لے کر دو گھنٹے پہلے بھی حاصل کیا جا سکتاتھا۔کیا کوئٹہ میں ڈاکٹروں کے نمایندوں کے ساتھ سینئر افسر بات چیت کی کوشش کرتے تو وہ انکار کر دیتے، میرے خیال میں وہ انکار نہ کرتے مگر کوئی ذمّے دار حکومتی نمایندہ ان کی اشک شوئی کے لیے تیار تو ہوتا۔
پولیس کارکردگی کے کئی پہلو بہتر ہوئے ہیں مگر ''تھانے کا ماحول'' او ر ''ہجوم کے ساتھ مناسب اور مّوثر طریقے سے نمٹنا''ابھی تک پولیس کے کمزور ترین پہلو ہیں۔کراچی میں مسجد کے منتظمین سے پہلے بات ہونی چاہیے تھی،خاتون پولیس افسرکا مسجد کے اندر جا کر نمازیوں سے بد تمیزی کرناانتہائی نا مناسب فعل تھا۔حکومت کے احکامات پر عمل درآمد ضرور کرائیں مگر حکمت کے ساتھ۔ کراچی پولیس کے سربراہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے وہ ایک ایماندار افسر ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ اس کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائیں گے اور تمام پولیس افسروں کو لوگوں کی حسا سّیت کے بارے میں sensitise بھی کریں گے۔
نوٹ : وفاقی حکومت کی طرف سے مستحقین میں پیسوں کی تقسیم کا طریقہء کار ( جسکے نتیجے میںکئی خواتین ہلاک اور زخمی ہو چکی ہیں) نا اہلی اور بد انتظامی کی بدترین مثال ہے۔ اس سے پہلے حکومتیں غریب گھرانوں میں زکوٰۃ اور BISP کی امداد اُنکے گھروں پر تقسیم کرتی رہی ہیں، یہ رقم بھی ان کے گھروں پر تقسیم ہو یا ان کے اکاؤنٹ کھلوا کر وہاں شفٹ کر دی جائے، کئی بہتر حل موجود ہیں۔ مگر بیسیوں جگہوں پر سیکڑوں عورتوں کا مجمع لگوانا بدترین حل ہے۔ اس طرح کے مجمعے خود حکومت، ڈاکٹروں اور WHO کی واضح ہدایات کی کھلی خلاف ورزی ہے، مگر کسی چینل اور کسی اینکر کواس پر اعتراض نہیں، انھیں صرف مسجدوں پر تالے لگوانے سے غرض ہے۔