حکومت دانشمندی سے کام لے

کیا ہی بہتر ہوتا مساجد کھولنے کا اعلان علماء کے بجائے خود وزیر اعظم کرتے۔



حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت دو ہفتے بڑھا کر تعمیراتی صنعت کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی علماء کرام نے بھی مساجد کھولنے اور رمضان المبارک میں نماز تراویح کا اعلان کردیا ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا مساجد کھولنے کا یہ اعلان علماء کے بجائے خود وزیر اعظم کرتے۔ اس اعلان سے جہاں دینی طبقے کے دل جیتے جاسکتے تھے وہاں یہ عمل اﷲ کو راضی کرنے کاباعث بھی بنتا۔ جب اﷲ ناراض ہے توبگڑے کام کیسے سنور سکتے ہیں۔

تفتان سے لے کے تادم تحریر کون سا ایسا عمل ہے جسے اﷲ کو راضی کرنے کا سبب قرار دیا جاسکتاہے؟ کورونا نے پورے ملک میں کہرام مچا رکھا ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے ایک دوسرے کے خلاف توپوں کے منہ کھولے ہوئے ہیں، مشکل کی جس گھڑی میں قوم کو وحدت و اتحاد کی لڑی میں پرونا تھا، حکمران خود ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، لفظی گولہ باری ان کی قیادت وسیادت اور ویژن کا پتا دے رہی ہے۔ پورے ملک خصوصاً پنجاب میں وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار سے گورننس کا پول کھل گیا ہے۔

کورونا کی صورتحال پر ازخود نوٹس کے معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت کے اقدامات پر ذرا سا عدم اطمینان کا اظہار کیا کرڈالا، کل تک جوڈیشل ایکٹوازم پر شادیانے بجانے والے آج صف ماتم بچھائے بیٹھے ہیں، سوشل میڈیا پر عدالت عظمیٰ کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا ہے وہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں۔

ایک مسلم معاشرے میں مساجدکی بندش کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ رب کو راضی کرنے کے لیے مساجد سے بہتر کوئی جگہ نہیں لیکن ہم نے جس انداز سے مساجد کو بند کرانے کی کوشش کی، اس سے خالق بھی ناراض اور مخلوق بھی۔ ہم نے گزشہ کالموں میں اس بات کااظہار کیا تھا کہ ہمیں کورونا سے بڑے بحران کا سامنا ہے اور وہ بحران گورننس کا بحران ہے، آج سپریم کورٹ نے ہماری بات کو درست ثابت کردیا۔ ہم نے 19 مارچ کے کالم میں لکھا تھا کہ گزشتہ چند ماہ سے جب پوری دنیا کو کورونا وائرس سے پھوٹنے والی وبا کا سامنا تھا اور تدبیری طور پر متاثرہ ممالک لاک ڈاؤن کی طرف جارہے تھے، عین اس موقع پر ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے۔

تبلیغی جماعت نے ہمیشہ دین کی دعوت دی اور لوگوں کو نیکی کے کاموں کی طرف بلایا لیکن تبلیغی جماعت کو بھی کورونا کے پھیلاو کے لیے ذمے دار ٹھہرایا گیا اور پھر جہاں کہیں مساجد میں جماعتیں موجود تھیں وہاں انھیں پکڑا گیا اور بعض جگہ تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، کئی افراد کے خلاف پرچے بھی کاٹے گئے۔ جب معاملہ بگڑتا نظر آیا تو بڑی بڑی سیاسی و مذہبی شخصیات اس معاملے میں کود پڑیں، سب سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن نے اس عمل کی کھل کرمذمت کی۔ مولانا کے بعد حکومت کے اتحادی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بھی دبنگ انداز میں تبلیغی جماعت کے ساتھیوں پرتشدد کے خلاف آواز اٹھائی، ان کا کہنا تھا کہ تبلیغی جماعت سے متعلق کوئی ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔

تبلیغی جماعت پرامن ضرور ہے لیکن لاوارث نہیں۔ جب قد آور شخصیات کھڑی ہوئیں تو حکومت بھی حرکت میں آئی۔ جس طرح تبلیغی جماعت کو ہدف بنایا گیا' ایک وقت میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے حکومت کورونا سے لڑتے لڑتے قوم کو لڑوا دے گی۔

کورونا وائرس کا کوئی مسلک ہے نہ کوئی مذہب ، یہ ایک وباء ہے جو کسی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ بعض حکومتی شخصیات کے غیرذمے دارانہ رویے نے ملک میں ایک اور خوفناک بحران کو دعوت دینے کی کوشش کی، جس کے اثرات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ کوئی ایسا طبقہ نہیں جو حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر اطمینان کااظہار کررہا ہو، سب کے سب پریشان بیٹھے ہیں اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ کورونا سے ہرگز ہرگز لڑا نہیں جاسکتا، یہ ایسی وباء ہے جسے میرے رب کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ٹال سکتی اور رب کو تو ہم نے پہلے ہی ناراض کررکھا ہے۔

جب تک اﷲ راضی نہیں ہوگا، آپ کا کوئی بگڑا کام نہیں سنور سکتا، کیونکہ بگڑی بنانے والی ذات صرف اورصرف اﷲ تعالی کی ہے، اسے راضی کئے بغیر آپ لاکھ جتن کرلیں اسی طرح ہر معاملے میں رسوائی ملے گی اور جب تک مسجدوں کے دروازے نہیں کھلیں گے تب تک اﷲ راضی نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھ سے بالا ہے کے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے صرف مسجدوں کے دروازے ہی کیوں بند کئے گئے، تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ پیارے نبیﷺ ہر مصیبت کے وقت نماز کے ذریعے اﷲ تعالی سے مدد لیا کرتے تھے۔ یہ ہمارے لیے سبق ہے، ہم کیوں اس سبق کو بھول گئے ؟ مکمل لاک ڈاون میں بھی بازاروں کی رونقیں عروج پر رہیں، بینک ،ڈاکخانے، ریلوے ورکشاپس، سرکاری دفاترہر جگہ لوگوں کا رش رہا، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سارا زور مساجد بند کرانے پر لگایا جاتا رہا۔

پولیس کے ذریعے مساجد کو بند کرانے کی کوشش کرائی گئی، بعض علماء کرام پر پرچے بھی کاٹے گئے۔ کراچی پولیس کی ایک لیڈی پولیس افسر کے چرچے پورے ملک میں ہورہے ہیں، نمازیوں کے خلاف تو ایف آئی آر درج ہوگئی، کیا مذکورہ پولیس کے اس "شرفانہ انداز" پر بھی کوئی ایکشن لیا گیا ہے؟ یہ صورتحال بھی گورننس کے نام پر دھبہ ہے۔ لاک ڈاون میں توسیع کے ساتھ ہی کراچی کے علماء نے مفتی تقی عثمانی اور اسلام آباد کے علماء نے پیر عزیز الرحمان ہزاروی کی سربراہی میں مساجد کھولنے کا اعلان کردیا۔ علماء نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ مساجد میں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا،رمضان المبارک کے دوران نمازیں، تراویح و اعتکاف جاری رہے گا۔

اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ فیصلہ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان یا پیر عزیز الرحمان ہزاروی ہی کا نہیں بلکہ تمام مکاتب فکرکے علماء کا متفقہ فیصلہ ہے۔ حکومت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فیصلے کو تسلیم کرے اور کسی قسم کی ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کرے۔ مساجد آباد ہوں گی تو اﷲ راضی ہوگا، جب اﷲ راضی ہوگا تو اس کی رحمت نازل ہوگی جو کورونا وباء کو بہا لے جائے گی۔ اس لیے حکومت دانشمندی کا مظاہرہ کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔