سویڈن میں لاک ڈاؤن کیوں نہیں

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کی سویڈن میں حکومت سیاستدان نہیں، ماہرین چلاتے ہیں


عمران ملک April 16, 2020
شدید تنقید اور اعتراضات کے باوجود سویڈش حکومت نے وہاں لاک ڈاؤن نہیں کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI ': کورونا وائرس نے پوری دنیا کو مفلوج کردیا ہے۔ امریکا کے بعد یورپ مجموعی طور پر اس وبا سے شدید متاثرہ خطہ بن چکا ہے۔ اٹلی، اسپین، جرمنی، فرانس اور بیلجیئم میں طویل اور سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود ابھی تک کورونا کے پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ دنیا بھر میں جب ہر ملک لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہے، وہیں سویڈن یورپ کا ایک ایسا ملک ہے جو بغیر لاک ڈاؤن کیے کورونا وائرس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن جیسے سخت اقدامات کیے بغیر بھی سویڈن نے کورونا وائرس کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے سے روک رکھا ہے۔ سویڈن میں اب تک بارہ ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور تقریباً بارہ سو اموات ہوچکی ہیں۔

متاثرہ افراد میں نو ہزار سے زائد کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے جبکہ مرنے والوں میں اسّی فیصد کی عمریں ساٹھ سال سے نوّے سال کے درمیان تھیں۔ مرنے والوں کی اکثریت پہلے سے مختلف بیماریوں کا شکار تھی۔ سویڈن کے ہمسایہ ممالک ناروے اور ڈنمارک کے مقابلے میں شرح اموات زیادہ ہونے کے باوجود سویڈن نے نہ تو اپنی سرحدیں بند کی ہیں اور نہ ہی ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ صرف کالج اور یونیورسٹیوں کو بند کیا گیا ہے، البتہ سکول اور ڈے کیئر سینٹرز کھلے ہیں۔ شاپنگ مالز، سپر مارکیٹس، دفاتر اور تمام کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں۔ لوگ روزمرہ کی خریداری معمول کے مطابق کر رہے ہیں۔ بارز، ریسٹورنٹس اور ہوٹلز بھی کھلے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں بھی معمول کا کام جاری ہے۔ حکام کی جانب سے کسی بھی ایونٹ کےلیے پچاس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ شہریوں کو غیر ضروری سفر سے منع کیا گیا ہے اور سیلف کیئر کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

سماجی فاصلے (سوشل ڈسٹینسنگ) کے حوالے سے اسٹورز، مارکیٹس، دفاتر، بس اسٹیشن، ہر جگہ پر ''ڈیڑھ میٹر'' فاصلہ رکھنے کے سائن بورڈز لگا دیئے گئے ہیں جن پر عمل کیا جارہا ہے۔ ملک میں کہیں بھی ہنگامی صورتحال ہے اور نہ ہی عام لوگوں میں کسی طرح کی بے چینی ہے۔ لاک ڈاؤن سے انکار کی پالیسی پر سویڈش حکومت کو ملک کے اندر اور باہر، دونوں اطراف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، مگر ساتھ ہی اس اقدام کو عوامی اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم اسٹیفن لوفن کی مقبولیت چند ہفتوں میں پچیس فیصد سے بڑھ کر پچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ وائرس کے شدید خطرات کے باوجود سویڈن میں باقاعدہ لاک ڈاؤن کیوں نہیں کیا جا رہا اور حکومت اور عام شہری اتنے پُراعتماد کیوں ہیں؟ اس کا جواب جاننے کےلیے سویڈن کے سماجی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ سویڈن کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے جس میں سے ایک چوتھائی حصہ دارالحکومت اسٹاک ہوم اور اس کے آس پاس آباد ہے۔

بائیس فیصد آبادی پینسٹھ سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہے جس کی اکثریت اولڈ ہومز میں رہتی ہے اور یہی اصل میں کورونا سے متاثرہ طبقہ ہے۔ سویڈن کی بیس فیصد آبادی سنگل ہاؤس ہولڈ یعنی اکیلے رہنے والے لوگوں کی ہے جن کا میل جول نہایت کم ہے۔ ملک میں کام کرنے والوں میں تقریباً آدھے لوگ پہلے سے ہی گھروں سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ دفاتر یا فیلڈ میں کام کرنے والے بھی کام کے بعد گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سویڈن میں ہیلتھ کیئر کا نظام دنیا میں بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ سویڈن کی پبلک ہیلتھ ایجنسی صحت سے متعلقہ تمام امور کی ذمہ دار ہے۔ ہیلتھ ایجنسی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر عوام کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنے کے ساتھ حکومتی اقدامات کے حوالے سے بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔

ہیلتھ اتھارٹیز کی جانب سے کورونا کی وبا سے نمٹنے کےلیے پیشگی انتظامات کیے گئے تھے۔ عام لوگوں کو انتہائی ایمرجنسی کے علاوہ اسپتال آنے سے منع کر دیا گیا۔

ہیلتھ اسٹاف کی ممکنہ کمی کا زبردست حل یہ نکالا گیا کہ اسکینڈے نیوین ایئرلائن کا تربیت یافتہ فلائٹ اسٹاف، جو فضائی آپریشن بند ہونے کی وجہ سے فارغ تھا، اسے فوری طور پر سپورٹنگ ہیلتھ اسٹاف میں شامل کر لیا گیا اور سویڈش آرمی کی مدد سے ایمرجنسی فیلڈ ہاسپٹلز قائم کیے گئے ہیں۔

سویڈن میں مقامی حکومتوں کا جدید نظام موجود ہے۔ ہر شہر یا بلدیہ کو ''کمیون'' کہا جاتا ہے اور تمام کمیونز میں ہیلتھ کا ایک مربوط نظام کام کر رہا ہے جس کی بدولت شہریوں میں وبا کا خوف بھی باقی ملکوں کی نسبت کم ہے۔ کمزور مخلوط حکومت ہونے کے باوجود اپوزیشن اور میڈیا بھی مکمل لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کے خلاف حکومتی پالیسی کے حامی نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ سویڈن میں عوام کا حکومت اور صحت سے متعلق اداروں پر اعتماد بہت مضبوط ہے، لہذا وبا کے دنوں میں حکام کی جانب سے دی گئی اطلاعات پر مکمل بھروسہ کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کی سویڈن میں حکومت سیاستدان نہیں، ماہرین چلاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں