کورونا اور معاشی حقیقت پسندی

کورونا وائرس کے بطن سے عالمی معیشت سمیت پاکستان کے سماجی اور معاشی منظر نامہ کے لیے بڑے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

کورونا وائرس کے بطن سے عالمی معیشت سمیت پاکستان کے سماجی اور معاشی منظر نامہ کے لیے بڑے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دنیا کے اسٹیج پر کورونا وائرس ''وار'' نے نیا محاذ کھول لیا ہے۔ غیرملکی طاقتوں کے درمیان اقتصادی اور مالیاتی جنگ کی کشمکش تیز ہونے کا خدشہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی فنڈنگ فوری روکنے کا حکم دے دیا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک عالمی ادارہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو چھپانے اور بد انتظامی کا مرتکب ہوا جس پر انھوں نے ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ فوری طور پر روکنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس کی وبا روکنے سے متعلق اپنی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام رہا۔

آئی ایم ایف نے انتباہ کیا ہے کہ معاشی دباؤ عوامی احتجاج کی شکل اختیار کرسکتا ہے، کورونا سے متاثرہ ملکوں کو ممکنہ بدامنی سے روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی، آئی ایم ایف نے جنوبی افریقہ کا حوالہ دیا ہے کہ جہاں عوامی مظاہرے ہوئے، عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ عوامی رد عمل اسی صورت میں سامنے آسکتا ہے جب عوام کو یقین آجائے کہ حکومتوں کے اقدامات کورونا سے نمٹنے میں اطمینان بخش نہیں رہے۔

پاکستان سمیت متعدد ممالک کے نزدیک اس کارروائی کا مقصد چین کے خلاف توپوں کا رخ موڑنا ہے، ماہرین کے مطابق امریکا وائرس کی جنگ کو اقوام متحدہ کی انتظامی کوتاہی یا ملی بھگت قراردے کر ایک خوفناک مہم جوئی کو ہوا دے رہا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے استفسارکیا کہ کیا عالمی ادارہ صحت نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے چین میں کورونا وائرس کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے طبی ماہرین بھیجے۔ اگر ایسا ہوتا تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا تھا اور اموات کی تعداد بھی کم ہوتی۔

واضح رہے کہ امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت پر ''چین کی جانب داری'' کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس ادارے نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے فیصلوں اور عملی اقدامات میں بہت تاخیر کی جس کی وجہ سے یہ عالمی وبا سنگین ہوگئی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھماکا خیز بیان بھی دیا کہ وہ 31اپریل تک امریکا سے لاک ڈاؤن اٹھا لیں گے، یوں وائرس کے بے قابو ہونے اور معاشی صورتحال کے ہولناک بگولوں کی یورش کی پیشگوئیوں کا سلسلہ بھی شروع ہونے والا ہے۔

ملکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ ریکارڈ 40 کھرب تک پہنچ سکتا ہے، مہنگائی کی شرح11.1 فیصد اور آیندہ برس8 فیصد رہے گی، بجٹ خسارہ بلند ترین سطح پر رہنے کی توقع ہے، کورونا سے پہلے خسارہ جی ڈی پی کے7.3 فیصد تک رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو اب 9.2فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کو ایک کروڑ40 لاکھ ڈالر ملنے کا امکان ہے۔

بلوم برگ کے مطابق تقریباً ایک صدی میں دنیا اپنی بدترین کساد بازاری کا شکار ہوگئی مگر گیانا نامی چھوٹی سے جنوبی امریکی معیشت جنگلوں میں گھری ہونے کے باعث بڑی حد تک دنیا کے تیز ترین اکنامک اضافے کا لطف اٹھائے گی، دریں اثنا جی 20 غریب ممالک کے لیے یکم مئی 2020 کو واجب الادا قرضوں کی واپسی معطل کرنے کی منظوری دیگی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی اطلاع بھی ہے، جی سیون کی وڈیو کانفرنس بھی جمعرات سے شروع ہوگئی، ذرایع کے مطابق تیل کی قیمتیں2002 کی سطح پر آگئیں، ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 26اپریل سے10مئی تک کورونا خطرناک ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے خلاف امریکی اقدام پر سخت اضطراب پایا جاتا ہے، کئی ملکوں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ یہ وقت عالمی ادارہ صحت کے لیے امریکی امداد روکنے یا اس میں کمی کا نہیں ہے بلکہ یہ وقت اتحاد و یکجہتی اور بین الاقوامی برادری کے کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس کے نتائج کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کا ہے، چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ امریکی فیصلے سے تمام ممالک متاثر ہوں گے۔ جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیںہوتی اور ہمیں اس کے خلاف مل کر کام کرنا ہوگا۔


امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر پیٹرس ہیرس نے اسے غلط سمت میں ایک خطرناک اقدام قراردیتے ہوئے صدر ٹرمپ سے اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈرن نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔

آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ وہ ڈبلیو ایچ او کے بارے میں ٹرمپ کی تنقید سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن ڈبلیو ایچ او بحر الکاہل میں ہمارے خطے سمیت بہت اہم کام کرتا ہے اور ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ واضع رہے کہ امریکا ڈبلیو ایچ او کا سب سے بڑا ڈونر ہے جس نے 2019 میں اپنے بجٹ کا 15 فیصد 40 کروڑ ڈالر عالمی ادارہ صحت کو فنڈ دیا، مائیکروسافٹ کے شریک بانی اور چیئرمین بل گیٹس نے ٹوئٹ میں کہا کہ صحت کے بحران کے دوران ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ روکنا خطرناک ہے، ڈبلیو ایچ او کے اقدامات سے وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی ہے اگر ڈبلیو ایچ او کا کام رک جاتا ہے تو کوئی دوسری تنظیم اس کی جگہ نہیں لے سکتی۔

اس عالمی سیاق وسباق میں ملک کی داخلی لاک ڈاؤن پالیسی کے ملک گیر نفاذ نے بھی بڑا کنفیوژن پھیلایا ہے، ملک میں کاروبار جزوی بحال ہوا جب کہ پنجاب میں لاک ڈاؤن میں مزید 25 اپریل تک توسیع کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے، سندھ کو ایک ہفتے کی مہلت حاصل ہوئی۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ لاک ڈاؤن پر تمام صوبے فیصلوں میں خود مختار ہیں۔

حیرت اس بات پر کہ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی اور لفظی جنگ کا افسوس ناک سلسلہ جاری ہے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ نرمی نہیں ہوگی، لاک ڈاؤن مزید سخت ہوگا عوام الناس کورونا سے بچنے کے لیے گھروں پر رہیں، انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو مطمئن کریں گے، وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف نازیبا مہم کا نوٹس لیا ہے، وزیر اعظم نے سپریم کورٹ میں غیرسنجیدہ رویے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش کی ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق 21 کروڑ عوام کو سامنے رکھ کر فیصلے کررہے ہیں، قوم کے سامنے پوری دیانتداری سے حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ وفاق اور اکائیوں میں جس سطح کا اتفاق رائے اور اشتراک عمل کورونا کے بارے میں نظر آنا چاہیے اس سے عوام کو شدید الجھن اور مسائل درپیش ہیں، لوگ کورونا کے ڈر سے سہم گئے ہیں۔

دنیا میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین 20 لاکھ اور ہلاکتیں ایک لاکھ 29 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہیں، جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق اس بیماری سے صحتیاب ہونے والوں کی تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہے، سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہو چکی ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے باعث 28 ہزار 200 سے زائد افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں جب کہ 6لاکھ 14 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

جرمنی نے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا فیصلہ کیا ہے، مئی میں اسکول کھول دیے جائیں گے، کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں دنیا کے 180سے زائد ممالک میں ڈیڑھ ماہ سے جزوی لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگاری اور مالی نقصان میں اضافہ ہوا ہے، وہیں دنیا کے امیر انسانوں کی دولت میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، دولت میں سب سے زیادہ اضافہ دنیا کے امیر ترین شخص جیف بزوز کی دولت دیکھنے میں آیا ہے جس کی دولت میں کچھ ہی ہفتوں میں 24 ارب ڈالر یعنی پاکستانی 40 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کے بطن سے عالمی معیشت سمیت پاکستان کے سماجی اور معاشی منظر نامہ کے لیے بڑے سوالات جنم لے رہے ہیں، ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کا ہنی مون پیریڈ گزر چکا، حکومت کے اللے تللوں کا زمانہ بیت گیا، سرد جنگ، عالمی طاقتوں، مالیاتی اداروں اور محب وطن پاکستانیوں کی وطن عزیز کے لیے مالی امداد اور ان کے ایثار کی حد بھی ختم ہوگئی، جنھوں نے بڑے پلازے، شاپنگ مالز اور شاندار محلات کھڑے کرنے تھے، وہ شوق پورے کر ڈالے، حکمرانی کا سحر پہلے جیسا نہیں رہا، معیشت کے غبارے میں جتنی ہوا بھری جاسکتی تھی وہ بھر گئی، اب غبارے کو پھٹنا ہے، سب اس کے انتظار میں ہیں جب کہ ضرورت معیشت کی بحالی اور کورونا سے بچاؤ کی ہے۔
Load Next Story