کورونا سے عالمی معیشت کو شدید کساد بازاری کا سامنا کرنا ہو گا اسٹیٹ بینک
کرونا کے باعث عالمی معیشت اس عظیم معاشی سست روی ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ کے بعد تیز ترین کساد بازاری کے دور میں داخل ہوجائیگی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا کی وباکے باعث عالمی معیشت کو ''گریٹ ڈپریشن'' جیسے تاریخی بحران کے بعد سب سے شدید کساد بازاری کا سامنا کرنا ہوگا۔
گریٹ ڈپریشن 1929 سے 1939 تک پھیلا ہوا یک ڈراؤنا معاشی خواب ہے جس کے نتیجے میں وال اسٹریٹ کنگال ہوگئی تھی، سرمایہ کاروں نے افراتفری میں اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکال لیا تھا، کساد بازاری نے اسٹاک مارکیٹ سے نکل کر کماڈیٹیز اور اثاثہ جات کی قیمتوں کو منہ کے بل گرادیا تھا، اشیاکی طلب نہ ہونے کے برابر تھی اور قرضوں کی ضرورت نہیں رہی تھی اس طرح تجارت کا پہیہ رک کر رہ گیا تھا اس تمام صورتحال سے بھیانک بے روزگاری اور غربت نے جنم لیا تھا۔
معاشی ماہرین کے دو طبقات فکر اس بحران اور کساد بازاری کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں ایک طبقہ جو طلب پر مبنی مفروضہ کا حامی ہے یہ کہتا ہے کہ یہ عظیم معاشی سست روی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی کا نتیجہ تھا جب سرمایہ کار مارکیٹوں سے اپنا سرمایہ نکال کر زیادہ محفوظ شکل میں منتقل کررہے تھے اس رجحان نے پوری معیشت کو لپیٹ میں لے لیا، دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین اسے پالیسی سازوں (امریکی مرکزی بینک) کے غلط فیصلے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جب فیڈرل ریزرو نے ایک معمولی معاشی سست روی کی صورتحال میں سرمائے کی فراہمی مشکل بنادی نتیجہ میں معاشی صورتحال قابو سے باہر ہوگئی۔
موجودہ عالمی معاشی بحران کی سنگینی کا اندازہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے جس میں موجودہ عالمی معاشی بحران کو1929سے1939تک معیشت کو جکڑے رکھنے والی عظیم معاشی سست روی سے بھی زیادہ شدید قرار دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ کرونا کے باعث عالمی معیشت اس عظیم معاشی سست روی ''گریٹ ڈپریشن'' کے بعد تیز ترین کساد بازاری کے دور میں داخل ہوجائیگی،مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آئی ایم ایف کے اس ہفتے آنے والے بیان کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عالم معیشت میں 2020 کے دوران 3فیصد کمی ہوگی جو 2009کے عالمی معاشی بحران کے دوران واقع ہونے والی 0.07 فیصد کمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید کساد بازاری ہے۔
گریٹ ڈپریشن 1929 سے 1939 تک پھیلا ہوا یک ڈراؤنا معاشی خواب ہے جس کے نتیجے میں وال اسٹریٹ کنگال ہوگئی تھی، سرمایہ کاروں نے افراتفری میں اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکال لیا تھا، کساد بازاری نے اسٹاک مارکیٹ سے نکل کر کماڈیٹیز اور اثاثہ جات کی قیمتوں کو منہ کے بل گرادیا تھا، اشیاکی طلب نہ ہونے کے برابر تھی اور قرضوں کی ضرورت نہیں رہی تھی اس طرح تجارت کا پہیہ رک کر رہ گیا تھا اس تمام صورتحال سے بھیانک بے روزگاری اور غربت نے جنم لیا تھا۔
معاشی ماہرین کے دو طبقات فکر اس بحران اور کساد بازاری کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں ایک طبقہ جو طلب پر مبنی مفروضہ کا حامی ہے یہ کہتا ہے کہ یہ عظیم معاشی سست روی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی کا نتیجہ تھا جب سرمایہ کار مارکیٹوں سے اپنا سرمایہ نکال کر زیادہ محفوظ شکل میں منتقل کررہے تھے اس رجحان نے پوری معیشت کو لپیٹ میں لے لیا، دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین اسے پالیسی سازوں (امریکی مرکزی بینک) کے غلط فیصلے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جب فیڈرل ریزرو نے ایک معمولی معاشی سست روی کی صورتحال میں سرمائے کی فراہمی مشکل بنادی نتیجہ میں معاشی صورتحال قابو سے باہر ہوگئی۔
موجودہ عالمی معاشی بحران کی سنگینی کا اندازہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے جس میں موجودہ عالمی معاشی بحران کو1929سے1939تک معیشت کو جکڑے رکھنے والی عظیم معاشی سست روی سے بھی زیادہ شدید قرار دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ کرونا کے باعث عالمی معیشت اس عظیم معاشی سست روی ''گریٹ ڈپریشن'' کے بعد تیز ترین کساد بازاری کے دور میں داخل ہوجائیگی،مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آئی ایم ایف کے اس ہفتے آنے والے بیان کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عالم معیشت میں 2020 کے دوران 3فیصد کمی ہوگی جو 2009کے عالمی معاشی بحران کے دوران واقع ہونے والی 0.07 فیصد کمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید کساد بازاری ہے۔