شاہ صاحب راشن دیجیے بھاشن نہ دیجیے

لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کرانا ضروری ہے لیکن ساتھ ہی عوام کی دہلیز پر راشن پہنچانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے


حامد الرحمان April 18, 2020
مراد علی شاہ نے راشن ایسے بانٹا ہے کہ ان کے دوسرے ہاتھ کو پتا چلا ہو کہ نہ ہو لیکن غریب کے دونوں ہاتھوں کیا فرشتوں کو بھی پتا نہیں چلا

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں لیکن پاکستان میں وفاقی اور سندھ حکومت باہمی محاذ آرائی میں الجھی ہیں۔ ایسے کڑے وقت میں اعلیٰ حکام کی فنکاریوں اور اداکاریوں پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔

کبھی خان صاحب کے رونے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے کہ جیسے کیمرامین پہلے سے اس نادر موقع کے انتظار میں ہی تو بیٹھا ہو اور موقع پاتے ہی لپک کر منظر کو قید کر لے مگر، الٹی آنتیں گلے پڑیں کے مصداق، سوشل میڈیا پر داد کے بجائے یہ ویڈیو تنقید کی نذر ہوگئی۔

ادھر سندھ کے وزیر اعلی بھی ان فنکاریوں میں کیسے پیچھے رہتے، یوں بھی جب سے کورونا آیا ہے وہ عوام کی خدمت میں سرگرم عمل ہونے کی بجائے طویل پریس کانفرنس میں بھاشن دینے یا وفاقی حکومت کے لتے لینے میں زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں اور عملاً ان کی اپنی کارکردگی ندارد ہے۔ نہ صوبے میں امداد کا پتا ہے، نہ ہی بے روزگاری کے شکار عوام کے مسائل کے حل اور ان کی مشکلات کو کم کرنے میں کوئی دلچسپی نظر آ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وبا ازخود نوٹس؛ سندھ حکومت کی کارکردگی افسوس ناک ہے، سپریم کورٹ

کراچی دنیا کے بدترین لاک ڈاؤن سے گزر رہا ہے۔ یورپ ہو یا عالم عرب، جہاں جہاں لاک ڈاؤن ہوا وہاں کی حکومتوں نے پہلے عوام کےلیے غذا سمیت دیگر تمام ضروریات زندگی کا بندوبست کیا، ریلیف پیکیج دیا، پھر گھروں میں رہنے کی تلقین کی۔ لیکن سندھ حکومت محض عوام کو نظر بند کرکے ذمہ داریوں سے ہاتھ حسب معمول ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور عوام رُل گئے۔

کراچی میں کرفیو جیسا منظر ہوتا ہے، جگہ جگہ راستے بند کردیئے جاتے ہیں، پولیس کے ناکے لگے ہیں اور رشوت خوری کا بازار گرم ہے۔ نتیجتاً ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں، اس طرح لوگ ڈاؤن کا مقصد خود ہی فوت کر دیتے ہیں۔ پولیس والے سے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ تو کہتا ہے کورونا پکڑ رہے ہیں۔

عوام اور پولیس میں جھڑپیں معمول بن گئی ہیں۔ ایک علاقے میں راشن کی تقسیم کے دوران پولیس فائرنگ سے خاتون جاں بحق ہوگئیں، دوسری جگہ راشن کی تقسیم ہی کے دوران فائرنگ سے فلاحی تنظیم الخدمت کا رضاکار جان سے گیا لیکن وزیراعلی صاحب کو تو فنکاریوں اور میڈیا ٹاک ہی فرصت ہی نہیں۔ سندھ میں کارخانوں سے سیکڑوں مزدوروں کو فارغ کیا جا چکا ہے اور ہزاروں کا روزگار داؤ پر لگا ہے لیکن سائیں سرکار کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔

خود وزیراعلیٰ اور ان کے سیاسی مرشدین سال بھر کا راشن ذخیرہ کیے اپنے محلات میں فلمیں دیکھ کر وقت گزار رہے ہیں۔ ان سیاستدانوں کو بھلا عوام کی کیا فکر جو محلات سے ویڈیو بیان جاری کرکے لوگوں کو احمق بنا رہے ہیں۔ ایک ہی رٹ ہے لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن۔ ضرور کرو لیکن اپنی ذمہ داری بھی تو پوری کرو۔ غریب کو گھر سے نکل کر بیماری کے ہاتھوں مرنے کا شوق نہیں لیکن جب ریاست ناکام ہوجائے، بھوک سے بلکتے بچوں کی بلبلاہٹ دیکھ کر تو پتھر دل آدمی بھی دو وقت کی روٹی کے حصول کےلیے باہر نکلتا ہے مگر پولیس کے ڈنڈے اور حوالات کی ہوا کھاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈھائی لاکھ راشن بیگ کہاں بانٹے؟ سندھ حکومت ذرا ریکارڈ تو پیش کرے، ہائیکورٹ

مراد علی شاہ صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر عورتوں کی طرح ٹسوے بہانے اور ہاتھ جوڑنے کے بجائے میدان میں نکل کر عوام کی مشکلات حل کرنے کےلیے عملی اقدام کریں۔ آپ نے لاک ڈاؤن تو کردیا لیکن عوام کی مدد کے لیے کیا کام کیا؟

سیلانی، الخدمت، جے ڈی سی جیسی چندے پر چلنے والی فلاحی تنظیمیں ریاست کا کردار نبھا رہی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو کب کی انارکی پھیل چکی ہوتی اور سڑکوں پر لوٹ مار اور مارا ماری ہورہی ہوتی۔ کراچی کا یہ حال ہے کہ اگر کسی کو اگر بہ امر مجبوری گھر سے نکلنا پڑے تو سواری ندارد، پبلک ٹرانسپورٹ بند اور متبادل کچھ نہیں۔ رکشے والے کو پولیس پکڑ کر چابیاں نکال کر سڑک پر بٹھا دیتی ہے، عوام کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ ڈنڈے مارے، سرعام مرغا بنایا، کان پکڑوائے جاتے ہیں، عورتوں تک کا خیال نہیں کیا جاتا ہے، معذوروں کو بیساکھی کے سہارے کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتے دیکھا۔

راشن اور غذا کی تقسیم کا سوائے حکومت کے کسی کو کچھ پتا نہیں۔ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ہاتھ سے دیتے اور دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں کرتے اور رات کے اندھیرے میں امداد کی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ عوامی خزانے سے چلنے والے منصوبوں پر بے نظیر اور بھٹو خاندان کی مہر لگانے والی جماعت کے رہنما کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں۔ انہوں نے راشن ایسے بانٹا ہے کہ ان کے دوسرے ہاتھ کو پتا چلا ہو کہ نہ ہو لیکن غریب کے دونوں ہاتھوں کیا، فرشتوں کو بھی پتا نہیں چلا۔

یہ بھی پڑھیں: راشن کی تقسیم کے دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک، 3 زخمی

سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ بھی پوچھ رہے ہیں کہ امداد کے نام پر آٹھ ارب روپے اور ڈھائی لاکھ راشن بیگز کہاں جھونک دیئے؟ کب اور کسے راشن دیا؟ تو جواب آتا ہے رات کے اندھیرے میں بانٹ دیا۔ ضرور بانٹا ہوگا مگر نوکریوں کی طرح کارکنوں میں۔

سندھ میں کرپشن کی داستانیں زبان زدعام ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس، میگا منی لانڈرنگ سے کون واقف نہیں۔ نااہلی کا یہ عالم کہ کتے کے کاٹے سے کئی لوگ مرگئے لیکن دوا دستیاب نہیں۔ ستم ظریفی کا یہ عالم کہ پانچ ارب روپے کی کرپشن کے ملزم شرجیل انعام میمن کو کورونا وائرس انتظامات کا فوکل پرسن بنادیا۔

پھر جب سادہ لوح عوام مراد علی شاہ کے رونے دھونے پر یقین کرکے تعریف کریں تو سوائے اس کے کیا کہا جائے کہ

میر کے سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

سندھ میں کرپشن اور غربت کی داستاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ گاؤں گوٹھوں میں زندگی غربت کے بوجھ تلے سسک رہی ہے۔ نہ پاؤں میں چپل، نہ تن پر کپڑا، نہ سر پر چھت، پھر بھی بھٹو زندہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں راشن تقسیم کے دوران جھگڑا؛ پولیس کی مبینہ فائرنگ سے خاتون جاں بحق

بے نظیرانکم سپورٹ پر فخر ایسے جتایا جاتا ہے جیسے باوا کی ذاتی جیب سے پیسے دیتے ہوں۔ بھائی! سرکاری خزانے سے عوام کا پیسہ اسے واپس لوٹا دیا تو کیا کمال کیا؟ غریب کہتا ہے کہ کورونا سے مرے نہ مرے، بھوک سے ضرور مرجائے گا۔ یورپ میں جہاں زیادہ ہلاکتیں ہورہی ہیں، وہاں اب نرمی شروع ہو رہی ہے جبکہ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ میں اسے اور سخت کروں گا۔ جن کاروباریوں (درزی، پلمبر، حجام) کو دکان کھولنے کی اجازت دی تھی، وہ بھی واپس لےلی اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر سے اجازت نامہ لاؤ۔ یعنی کرپشن کا ایک اور دروازہ کھول دیا۔

یقیناً کورونا وائرس سے بچنے کےلیے سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کرنا ضروری ہے جس پر عمل درآمد کرانا حکومت کا فرض ہے لیکن ساتھ ہی عوام کی دہلیز پر راشن پہنچانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مراد علی شاہ صاحب تصویر نہ کھنچوانے کا ڈرامہ کرکے لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ غریب کہتا ہے چاہے تصویر کھینچو اور چاہے دن کی روشنی میں ہی دو، لیکن راشن دو، بھاشن نہ دو!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں