طہارت کا حقیقی مفہوم اور تقاضے
یہ بھی ایک آفاقی صداقت اور ابدی و دائمی حقیقت ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
فطرت اپنی اصل میں صاف، شفّاف، پاکیزہ و مصفّا ہے اور قدرتِ خداوندی سے انسانیت کی تخلیق بھی فطرتِ سلیمہ پر ہوئی ہے۔
یہ بھی ایک آفاقی صداقت اور ابدی و دائمی حقیقت ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی البتہ ماحولیاتی و خارجی عوامل کے باعث مسخ ضرور ہوتی ہے اور جب کبھی اور جس شدت و حدّت سے اسے مسخ کیا جاتا ہے، اسی قوّت سے اس کا ردّعمل بھی ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا خمیازہ اِس کائناتِ ارضی کی ہر جان دار و بے جان شے اور بہ طورِ خاص حضرتِ انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔
انسان چوں کہ اپنے ماحول سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور امام شاہ ولی اﷲ دھلوی کے بہ قول انسان اور کائنات باہم لازم و ملزوم اور ایک ہی وحدت ہیں۔ یعنی انسان کے اچھے بُرے تمام اعمال کائنات پر مثبت اور منفی اثرات کے مؤجب ہوتے ہیں اور پھر اس عمل کے نتائج خود انسانیت کا ہی مقدر بنتے ہیں۔
قرآنِ حکیم نے اِس نکتۂ حکمت کو یوں بیان فرمایا ہے، مفہوم: ''خشکی و سمندر میں پیدا شدہ فساد انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔'' دوسرے الفاظ میں فطرت سے تصادم کا حاصل شکست و ریخت کے علاوہ کچھ نہیں۔ وحی و الہام، نبوّت و رسالت اور حکمت و تدبّر پر مبنی سلسلۂ ہائے ہدایت کا مقصدِ وحید بھی فطرت کی سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ انسان اور کائنات کو فطرتِ سلیمہ پر قائم رکھنے کے لیے کلماتِ الٰہیہ اور اصولِ فطرت کی پاسبانی و نگہہ بانی جیسے عظیم امر اور فرض کی ادائی کے باعث انسان خدا کا خلیفہ بن کر مسجودِ ملائکہ کے منصبِ جلیلہ پر فائض ہوا۔
مذاہب عالم اور دینِ اسلام میں بنیادی صداقتیں اور سچائیاں تقریباً ایک جیسی ہیں اور اخلاقیات کے تمام نظاموں میں چند ایک اخلاق اساسی و مشترک ہیں۔ یکساں و مشترک اخلاق میں سے ایک بنیادی خُلق طہارت ہے جو ہر قسم کی پاکیزگی و صفائی پر محیط ہے۔ امام شاہ ولی اﷲ کے فکر و فلسفہ میں طہارت صرف انفرادی و جسمانی نہیں بل کہ اِس سے مراد ظاہری و باطنی اور اجتماعی و ماحولیاتی طہارت و پاکیزگی بھی ہے جس کا اِطلاق ایک مکمل سماجی و سیاسی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر کسی معاشرے اور سماج میں حسد، کینہ، ملاوٹ، بددیانتی، چوری، جھوٹ، غربت، جہالت اور ظلم و استحصال کا چلن عام ہے یا وہاں زمینی، فضائی اور آبی آلودگی سے انسان اور دیگر مخلوقات متاثر ہیں تو اس کا واضح ترین مطلب یہی ہے کہ وہاں طہارت ناپید ہے اور فطرت و نظامِ فطرت کو چیلنج کرنے والی درندہ صفت قوّتوں کا جبری و غیر اخلاقی راج ہے۔
اِس تناظر میں احوالِ عالَم کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو بحر و بر کی تمام سطحوں پر بپا موجودہ فسادات محض حادثاتی و اتفاقی نہیں بل کہ یہاں پر بسنے والی انسانیت کی فطرت سے کھلی بغاوت ہے۔ آج کے عالمی گاؤں میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرمایہ داری نظام کا غلبہ اور تسلّط قائم ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ دورِ حاضر کی تمام تر انفرادی و اجتماعی آلائشوں، غلاظتوں، گندگیوں، پلیدیوں اور آلودگیوں کی ذمے داری بھی موجودہ بالادست عالمی نظام کو ہی قبول کرنا ہوگی۔
طہارت دینِ اسلام کی اساس اور ایمان کا اٹوٹ انگ ہے جس کے بغیر انسان خدا کا قُرب حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی خُدا کا خلیفہ بننے کا حق دار ہے، تو پھر آئیے اپنی اوّلین فطرت کی گم شُدہ میراث پانے کے لیے شعوری جدوجہد کا آغاز کریں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے وحدت، عدل، مساوات ، امن، خوش حالی، رواداری اور اجتماعی ترقی کے فطری اصولوں پر اُستوار جدید ترین پاکیزہ، صاف اور شفاف انسانی دنیا کا خواب شرمندۂ تعبیر کرسکیں۔
یہ بھی ایک آفاقی صداقت اور ابدی و دائمی حقیقت ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی البتہ ماحولیاتی و خارجی عوامل کے باعث مسخ ضرور ہوتی ہے اور جب کبھی اور جس شدت و حدّت سے اسے مسخ کیا جاتا ہے، اسی قوّت سے اس کا ردّعمل بھی ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا خمیازہ اِس کائناتِ ارضی کی ہر جان دار و بے جان شے اور بہ طورِ خاص حضرتِ انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔
انسان چوں کہ اپنے ماحول سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور امام شاہ ولی اﷲ دھلوی کے بہ قول انسان اور کائنات باہم لازم و ملزوم اور ایک ہی وحدت ہیں۔ یعنی انسان کے اچھے بُرے تمام اعمال کائنات پر مثبت اور منفی اثرات کے مؤجب ہوتے ہیں اور پھر اس عمل کے نتائج خود انسانیت کا ہی مقدر بنتے ہیں۔
قرآنِ حکیم نے اِس نکتۂ حکمت کو یوں بیان فرمایا ہے، مفہوم: ''خشکی و سمندر میں پیدا شدہ فساد انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔'' دوسرے الفاظ میں فطرت سے تصادم کا حاصل شکست و ریخت کے علاوہ کچھ نہیں۔ وحی و الہام، نبوّت و رسالت اور حکمت و تدبّر پر مبنی سلسلۂ ہائے ہدایت کا مقصدِ وحید بھی فطرت کی سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ انسان اور کائنات کو فطرتِ سلیمہ پر قائم رکھنے کے لیے کلماتِ الٰہیہ اور اصولِ فطرت کی پاسبانی و نگہہ بانی جیسے عظیم امر اور فرض کی ادائی کے باعث انسان خدا کا خلیفہ بن کر مسجودِ ملائکہ کے منصبِ جلیلہ پر فائض ہوا۔
مذاہب عالم اور دینِ اسلام میں بنیادی صداقتیں اور سچائیاں تقریباً ایک جیسی ہیں اور اخلاقیات کے تمام نظاموں میں چند ایک اخلاق اساسی و مشترک ہیں۔ یکساں و مشترک اخلاق میں سے ایک بنیادی خُلق طہارت ہے جو ہر قسم کی پاکیزگی و صفائی پر محیط ہے۔ امام شاہ ولی اﷲ کے فکر و فلسفہ میں طہارت صرف انفرادی و جسمانی نہیں بل کہ اِس سے مراد ظاہری و باطنی اور اجتماعی و ماحولیاتی طہارت و پاکیزگی بھی ہے جس کا اِطلاق ایک مکمل سماجی و سیاسی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر کسی معاشرے اور سماج میں حسد، کینہ، ملاوٹ، بددیانتی، چوری، جھوٹ، غربت، جہالت اور ظلم و استحصال کا چلن عام ہے یا وہاں زمینی، فضائی اور آبی آلودگی سے انسان اور دیگر مخلوقات متاثر ہیں تو اس کا واضح ترین مطلب یہی ہے کہ وہاں طہارت ناپید ہے اور فطرت و نظامِ فطرت کو چیلنج کرنے والی درندہ صفت قوّتوں کا جبری و غیر اخلاقی راج ہے۔
اِس تناظر میں احوالِ عالَم کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو بحر و بر کی تمام سطحوں پر بپا موجودہ فسادات محض حادثاتی و اتفاقی نہیں بل کہ یہاں پر بسنے والی انسانیت کی فطرت سے کھلی بغاوت ہے۔ آج کے عالمی گاؤں میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرمایہ داری نظام کا غلبہ اور تسلّط قائم ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ دورِ حاضر کی تمام تر انفرادی و اجتماعی آلائشوں، غلاظتوں، گندگیوں، پلیدیوں اور آلودگیوں کی ذمے داری بھی موجودہ بالادست عالمی نظام کو ہی قبول کرنا ہوگی۔
طہارت دینِ اسلام کی اساس اور ایمان کا اٹوٹ انگ ہے جس کے بغیر انسان خدا کا قُرب حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی خُدا کا خلیفہ بننے کا حق دار ہے، تو پھر آئیے اپنی اوّلین فطرت کی گم شُدہ میراث پانے کے لیے شعوری جدوجہد کا آغاز کریں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے وحدت، عدل، مساوات ، امن، خوش حالی، رواداری اور اجتماعی ترقی کے فطری اصولوں پر اُستوار جدید ترین پاکیزہ، صاف اور شفاف انسانی دنیا کا خواب شرمندۂ تعبیر کرسکیں۔