قرآن حکیم کی پُکار
خالق اپنی مخلوق کے ہر حال اور زندگی کے ہر دور سے باخبر ہے۔
اﷲ نے آدمؑ کی تخلیق اور زمین پر خلیفہ بنانے کا اظہار جب فرشتوں کے سامنے کیا تو وہ متحیّر ہوئے کہ ہم جیسے مطیع و فرماں برداروں کے ہوتے ہوئے آدمؑ کو خلیفہ بنانے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔
بلاشبہ ملائکہ عبادت کے لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں مگر علم کے لحاظ سے انسان سے کم تر ہیں۔ اور پھر عبادت خاصۂ مخلوقات ہے، خدا کی صفت نہیں۔ البتہ علم اﷲ تعالیٰ کی صفت اعلیٰ ہے۔ اس سے عبادت پر علم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی لیے خلافت کے قابل حضرت آدمؑ قرار پائے ۔ گویا آدمؑ کو مرتبۂ خلافت بھی تعلیم کے سب حاصل ہوا۔ اور پشیمانی اور ندامت سے نکلنے کا ذریعہ بھی تعلیم ہی تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ بنی آدم کو مسرت و خوشی اور رنج و الم جیسے تمام لمحات میں تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آفرینش ہی سے بنی آدم کی تعلیم و راہ نمائی کے لیے انبیا و رسلؑ کا سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم انسان کی سیرت و کردار سازی کا موجب ہوتی ہے اور با اصول و باضابطہ زندگی کا فہم و ادراک پیدا کرتی ہے۔ یہ حق و باطل میں تمیز کا ذریعہ ہے اور بہتر نظریات و عقائد کے لیے راہ نمائی کرتی ہے۔
تعلیم، خالق کے احکامات کی بجاآوری کا احساس اور ترغیب دیتی ہے اور فلاح انسانیت پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن وہ تعلیم جو احترامِ آدمیت سے تہی دامن ہو، گم راہی اور انسانیت سوز ہوتی ہے۔ چناں چہ ایسی تعلیم کے حق میں جو بھی جواز پیش کیا جائے اور اس کی صداقت کو منوانے کے لیے جتنے بھی دعوے کیے جائیں وہ تعلیم نہیں ہوسکتی، وہ فساد، شر انگیزی اور فتنہ ہے۔
اگرچہ وقت، حالات اور تجربات بھی تدریس کا موجب ہوتے ہیں لیکن یہ ایک طویل المدتی عمل ہے۔ اس طرح جب انسان تن درست اور توانا ہوتا ہے تو جینے کے ڈھنگ اور طور طریقوں سے ناآشنائی میں بے ہنگم زندگی گزار دیتا ہے لیکن جب وقت کے ساتھ رموز حیات سے آگاہی ہوتی ہے تو زندگی ہی ختم ہوجاتی ہے۔
خالق اپنی مخلوق کے ہر حال اور زندگی کے ہر دور سے باخبر ہے۔ چناں چہ اسے آئندہ پیش آنے والی ضروریات اور حاجات کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے پیغامات کا سلسلہ برقرار رکھا اور بالآخر خاتم الرسلﷺ کی وساطت سے اپنے احکامات پر مبنی آخری کتاب قرآن حکیم مرحمت فرمائی جو مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ حضورؐ نے عملی طور پر اس کی تعلیمات سے لوگوں کو رُوشناس فرمایا۔ یہ کتاب سرچشمۂ تعلیم و ہدایت ہے اور ایک کام یاب زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق عمل کی ضرورت تھی۔ یہ ایک اجتماعی زندگی کا درس دیتی ہے اور تفرقات سے روکتی ہے۔
اس کتاب کا مقصد آپس میں اتفاق، اتحاد اور اخوّت پیدا کرنا تھا۔ لیکن افسوس لوگوں میں رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں عداوت کی حد تک بڑھ چکی ہیں۔ یہ کتاب اپنے پیروکاروں کو اقوامِ عالم میں عظمت اور امامت کا شرف عطا کرنے آئی تھی۔ جب کہ اس کے معتقدین اپنی بے اعتدالیوں اور نافرمانیوں کے سبب غلامانہ پستیوں میں جکڑے ہوئے رسوا ہو رہے ہیں۔ یہ کتاب تسخیر کائنات کا سبق دیتی ہے۔ جس طرح معبود کے اختیارات لامحدود اور وسیع تر ہیں اسی لحاظ سے عابد کی عبادت کا دائرہ کار بھی بے شمار وسعتوں کا حامل ہے۔
محض کچھ مخصوص اعمال اور طریقۂ ہائے کار کو ہی عبادت سمجھ کر اپنے افعال و کردار کو محدود کرلینے سے عبادت کا مفہوم مکمل نہیں ہوتا اس کے تمام احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ان کی بجا آوری کو طاعت، بندگی اور عبادت کہتے ہیں اور حقوق العباد کی مخلصانہ ادائی کے علاوہ تسخیر کائنات کے سبب اس کی پوشیدہ نعمتوں سے مستفیض ہونے کا علم حاصل کرنا بھی اس کے فرمان کی تعمیل ہے۔ نیز قرآنی تعلیمات انسانی اعمال میں حسن امتیاز پیدا کرتی ہیں۔
بہ ہر حال اس کتاب کے تمام اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی لحاظ سے دنیا میں ہمارا شمار پس ماندہ اقوام میں ہوتا ہے اور معاشی ابتری کے اسباب بھی اسی سے منسلک ہیں۔ ہمیں اپنے مروجہ مختلف نظام ہائے تعلیم جس میں طبقاتی تفریق پائی جاتی ہے، کو ختم کرتے ہوئے یک ساں نظام تعلیم جو وحدت کا باعث بنے رائج کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی نظام قرآن عظیم کی روشنی میں جدید دور کے تقاضوں اور اصولوں کے مطابق اس طرح تشکیل دیا جائے کہ ابتدائی کلاسوں سے ہی بچے کی خداداد صلاحیتوں کو صیقل کرتے ہوئے اس میں تحقیق و تخلیق کے رجحانات پرورش پاسکیں۔ یہ تعلیمی نظام اس خاصیت کا حامل ہو کہ مستقبل کے معماروں کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رہے تاکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لیے ایسی تخلیقی اور ذہین شخصیات وجود میں آسکیں جو فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی دنیا آپ پیدا کرسکیں، جنہیں بیساکھیوں اور سہاروں کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ البتہ حکومت کا ہر ممکن تعاون حاصل رہے۔
اسلام انسانی مفاد کے ایسے علوم پر عبور حاصل کرتے ہوئے اقوام عالم میں اپنا امتیاز پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن دینی تعلیمات سے بے اعتنائی، رُوگردانی اور سرکشی کا انجام بدنصیبی ہی ہے کیوں کہ اعمال کے مطابق نتائج اور بیج کے مطابق پھل کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔
بلاشبہ ملائکہ عبادت کے لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں مگر علم کے لحاظ سے انسان سے کم تر ہیں۔ اور پھر عبادت خاصۂ مخلوقات ہے، خدا کی صفت نہیں۔ البتہ علم اﷲ تعالیٰ کی صفت اعلیٰ ہے۔ اس سے عبادت پر علم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی لیے خلافت کے قابل حضرت آدمؑ قرار پائے ۔ گویا آدمؑ کو مرتبۂ خلافت بھی تعلیم کے سب حاصل ہوا۔ اور پشیمانی اور ندامت سے نکلنے کا ذریعہ بھی تعلیم ہی تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ بنی آدم کو مسرت و خوشی اور رنج و الم جیسے تمام لمحات میں تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آفرینش ہی سے بنی آدم کی تعلیم و راہ نمائی کے لیے انبیا و رسلؑ کا سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم انسان کی سیرت و کردار سازی کا موجب ہوتی ہے اور با اصول و باضابطہ زندگی کا فہم و ادراک پیدا کرتی ہے۔ یہ حق و باطل میں تمیز کا ذریعہ ہے اور بہتر نظریات و عقائد کے لیے راہ نمائی کرتی ہے۔
تعلیم، خالق کے احکامات کی بجاآوری کا احساس اور ترغیب دیتی ہے اور فلاح انسانیت پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن وہ تعلیم جو احترامِ آدمیت سے تہی دامن ہو، گم راہی اور انسانیت سوز ہوتی ہے۔ چناں چہ ایسی تعلیم کے حق میں جو بھی جواز پیش کیا جائے اور اس کی صداقت کو منوانے کے لیے جتنے بھی دعوے کیے جائیں وہ تعلیم نہیں ہوسکتی، وہ فساد، شر انگیزی اور فتنہ ہے۔
اگرچہ وقت، حالات اور تجربات بھی تدریس کا موجب ہوتے ہیں لیکن یہ ایک طویل المدتی عمل ہے۔ اس طرح جب انسان تن درست اور توانا ہوتا ہے تو جینے کے ڈھنگ اور طور طریقوں سے ناآشنائی میں بے ہنگم زندگی گزار دیتا ہے لیکن جب وقت کے ساتھ رموز حیات سے آگاہی ہوتی ہے تو زندگی ہی ختم ہوجاتی ہے۔
خالق اپنی مخلوق کے ہر حال اور زندگی کے ہر دور سے باخبر ہے۔ چناں چہ اسے آئندہ پیش آنے والی ضروریات اور حاجات کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے پیغامات کا سلسلہ برقرار رکھا اور بالآخر خاتم الرسلﷺ کی وساطت سے اپنے احکامات پر مبنی آخری کتاب قرآن حکیم مرحمت فرمائی جو مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ حضورؐ نے عملی طور پر اس کی تعلیمات سے لوگوں کو رُوشناس فرمایا۔ یہ کتاب سرچشمۂ تعلیم و ہدایت ہے اور ایک کام یاب زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق عمل کی ضرورت تھی۔ یہ ایک اجتماعی زندگی کا درس دیتی ہے اور تفرقات سے روکتی ہے۔
اس کتاب کا مقصد آپس میں اتفاق، اتحاد اور اخوّت پیدا کرنا تھا۔ لیکن افسوس لوگوں میں رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں عداوت کی حد تک بڑھ چکی ہیں۔ یہ کتاب اپنے پیروکاروں کو اقوامِ عالم میں عظمت اور امامت کا شرف عطا کرنے آئی تھی۔ جب کہ اس کے معتقدین اپنی بے اعتدالیوں اور نافرمانیوں کے سبب غلامانہ پستیوں میں جکڑے ہوئے رسوا ہو رہے ہیں۔ یہ کتاب تسخیر کائنات کا سبق دیتی ہے۔ جس طرح معبود کے اختیارات لامحدود اور وسیع تر ہیں اسی لحاظ سے عابد کی عبادت کا دائرہ کار بھی بے شمار وسعتوں کا حامل ہے۔
محض کچھ مخصوص اعمال اور طریقۂ ہائے کار کو ہی عبادت سمجھ کر اپنے افعال و کردار کو محدود کرلینے سے عبادت کا مفہوم مکمل نہیں ہوتا اس کے تمام احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ان کی بجا آوری کو طاعت، بندگی اور عبادت کہتے ہیں اور حقوق العباد کی مخلصانہ ادائی کے علاوہ تسخیر کائنات کے سبب اس کی پوشیدہ نعمتوں سے مستفیض ہونے کا علم حاصل کرنا بھی اس کے فرمان کی تعمیل ہے۔ نیز قرآنی تعلیمات انسانی اعمال میں حسن امتیاز پیدا کرتی ہیں۔
بہ ہر حال اس کتاب کے تمام اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی لحاظ سے دنیا میں ہمارا شمار پس ماندہ اقوام میں ہوتا ہے اور معاشی ابتری کے اسباب بھی اسی سے منسلک ہیں۔ ہمیں اپنے مروجہ مختلف نظام ہائے تعلیم جس میں طبقاتی تفریق پائی جاتی ہے، کو ختم کرتے ہوئے یک ساں نظام تعلیم جو وحدت کا باعث بنے رائج کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی نظام قرآن عظیم کی روشنی میں جدید دور کے تقاضوں اور اصولوں کے مطابق اس طرح تشکیل دیا جائے کہ ابتدائی کلاسوں سے ہی بچے کی خداداد صلاحیتوں کو صیقل کرتے ہوئے اس میں تحقیق و تخلیق کے رجحانات پرورش پاسکیں۔ یہ تعلیمی نظام اس خاصیت کا حامل ہو کہ مستقبل کے معماروں کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رہے تاکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لیے ایسی تخلیقی اور ذہین شخصیات وجود میں آسکیں جو فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی دنیا آپ پیدا کرسکیں، جنہیں بیساکھیوں اور سہاروں کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ البتہ حکومت کا ہر ممکن تعاون حاصل رہے۔
اسلام انسانی مفاد کے ایسے علوم پر عبور حاصل کرتے ہوئے اقوام عالم میں اپنا امتیاز پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن دینی تعلیمات سے بے اعتنائی، رُوگردانی اور سرکشی کا انجام بدنصیبی ہی ہے کیوں کہ اعمال کے مطابق نتائج اور بیج کے مطابق پھل کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔