کورونا وائرس امریکا کی پاکستان کیلئے 80 لاکھ ڈالر کی امداد

پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور مقامی میزبانوں کے تحفظ کے لیے 22 لاکھ ڈالر فراہم کیے گئے ہیں، امریکی سفیر


ویب ڈیسک April 17, 2020
30لاکھ ڈالر کے عطیات کے عطیات سے تین نئی تجربہ گاہیں دی جارہی ہیں. امریکی سفیر کا ویڈیو بیان۔ (فوٹو، فائل)

پاکستان میں امریکا کے سفیر پال جونز نے کہا ہے کہ امریکا 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی نئی امداد کے ساتھ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام اور متاثرہ افراد کی دیکھ بھال میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

امریکی سفیر پال جونز نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ مالی معاونت متعدد امدادی سرگرمیوں کے لیے بروئے کار لائی جائے گی۔ 30لاکھ ڈالر کے عطیات کے عطیات سے تین نئی تجربہ گاہیں دی جارہی ہیں جن سے زیادہ متاثرہونے والے علاقوں میں رہائش پذیر پاکستانیوں میں مرض کی تشخیص، علاج اور پھیلاؤ روکنے کے لیے نگرانی کی جائے گی۔پاکستانی حُکام نے عطیات کی فراہمی کو ترجیحی ضرورت قرار دیا تھا اور ان کے تمام تر اخراجات امریکی عوام ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد، سندھ،پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہنگامی آپریشنز کے مراکز کے قیام میں 10 لاکھ ڈالر کی مالی اعانت کی جائے گی۔مقامی طبی عملے کی تربیت کے لیے معاونت میں مزید 20 لاکھ ڈالر کی توسیع کی گئی ہے۔ اسپتالوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے تربیت کی فراہمی سے طبی عملے کو مریضوں کی ان گھروں ہی میں دیکھ بھال کے قابل بنایا جائے گا۔

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے زیر انتظام، پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور مقامی میزبان برادریوں کی صحت کے تحفظ کی کوششوں کے لیے 22 لاکھ ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔

پال جونز نے کہا ہے کہ انہوں نے آج جو اقدامات بیان کیے ہیں وہ شعبہ صحت میں امریکا اور پاکستان کے دیرینہ اور متحرک اشتراک کار کا تازہ ترین باب ہے۔ اِس کی بنیاد گزشتہ 20 برسوں کے دوران صحت عامہ کے شعبے میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی امداد سمیت دونوں ممالک کی کُل 18 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کی ترقیاتی شراکت داری پرقائم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ساتھ مِل کر ہی اِس مہلک مرض کے پھیلاؤ کی روک تھام کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی حفاظت اور اپنی خوش حالی اور آزادی کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں