مرزا غالب جان سنو اور ایک عدد ہینڈ پمپ

ایک شخص کا قصہ جس نے اپنی ساری زندگی ہیضے کی وبا پر تحقیق میں گزار دی


جان سنو نے اپنی پوری زندگی ہیضے کے اسباب جاننے میں صرف کردی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے اس مضمون کے عنوان کی تُک کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ مرزا غالب مرحوم کے زمانے میں دلّی میں ایک بار ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تو ان کے کسی دوست نے ان سے بذریعہ خط صحت و خیریت کے ساتھ ساتھ وبا کی صورتحال دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا: ''وبا کو کیا پوچھتے ہو؟ وبا تھی کہاں جو میں لکھوں کہ اب کم ہے یا زیادہ۔ ایک چھیاسٹھ برس کا مرد ایک چونسٹھ برس کی عورت، ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی مرتا تو ہم جانتے کہ ہاں وبا آئی تھی۔ تف بریں وبا۔''

لیکن صورتحال درحقیقت یہ ہے کہ لاکھوں لوگ ایک مدت سے اس وبا کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں اور آج بھی ہیضے کا جرثومہ موقع کی تاک میں موجود ہے۔ کورونا کی وبا کی گرفت نے جہاں لاکھوں کو متاثر کیا ہوا ہے، وہیں اربوں کی تعداد میں لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔ آئیے ان حالات میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرتِ انسان نے وبائی بیماریوں کو پہلی بار کیسے سائنسی بنیادوں پر پرکھا اور قابو پانے کی کوشش کی۔

یہ قصہ ہے ہمارے آج کے ممدوح جناب جان سنو صاحب کا۔ آپ میں سے جنہوں نے گیم آف تھرونز ڈرامہ دیکھا ہوا ہے، ان سے پیشگی معذرت، یہ حضرت نہ تو ''کنگ ان دی تارتھ'' تھے اور نہ ہی ''لارڈ کمانڈر آف دی نائیٹس واچ'' بلکہ موصوف ایک برطانوی میڈیکل ڈاکٹر تھے جن کا ہیضے کی وبا کے پھیلاؤ کے اسباب پر کیا جانے والا کام آج بھی سند مانا جاتا ہے۔

جان کا ہیضے کے ساتھ پہلا باقاعدہ واسطہ 1831 میں اس وقت پڑا جب وہ اٹھارہ برس کی عمر میں ڈاکٹر ہارڈکاسل کی شاگردی میں تھے۔ ڈاکٹر ہارڈ کاسل کے پاس مریضوں کی بھرمار تھی اس لئے جان سنو کے ذمے کچھ مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کا کام سونپا۔ یہ وہ وقت تھا کہ نہ تو کسی کو اس مرض کی اصل وجہ کا علم تھا، نہ کوئی اس کے پھیلاؤ کے اسباب سے واقف تھا اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی مؤثر علاج موجود تھا۔ جان سنو نے تقریباً 5 ماہ اس وبا کے مریضوں کی دیکھ بھال میں گزارے اور فروری 1832 میں وبا کا زور خودبخود ٹوٹ گیا لیکن ان پانچ ماہ میں صرف برطانیہ میں پچاس ہزار جانیں اس کی بھینٹ چڑھیں۔

اچھا پہلے تھوڑا بات کرلیتے ہیں ہیضے کے مرض اور اس کی وجوہ پر۔ اس مرض کا باعث ''وائبریو کولرا'' نامی ایک جرثومہ ہوتا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ جرثومہ ایک زہر بناتا ہے جسے کولرا ٹاکسن کا نام دیا گیا ہے، در حقیقت یہی زہر ہے جو مسلسل دستوں کے ذریعے مریض کو لاغر اور کمزور کردیتا ہے۔ آپ کو پتا ہی ہوگا کہ ہمارا نظامِ انہضام کھانے کو ہضم کرنے کے بعد ہماری آنتوں میں ہضم شدہ اجزاء کو جذب کرتا ہے۔ ان اجزاء میں جہاں پروٹینز اور وٹامن وغیرہ ہوتے ہیں، وہیں ہمارا پیا ہوا پانی بھی ہوتا ہے۔

اب آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ جناب اس جرثومے کا ہمارے نظامِ انہضام سے کیا لینا دینا؟ تو قصہ یہ ہے کہ وائبریو کولرا کا پیدا کردہ کولرا ٹاکسن ہماری آنتوں کے خلیات کے آپس کے کمیونی کیشن نیٹ ورک کو ہیک کرتے ہوئے انہیں یہ حکم دیتا ہے کہ آنتوں میں پانی کی کمی ہے لہٰذا جتنا پانی بھی موجود ہے وہ سارا کا سارا آنتوں میں چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے خلیات ہیکنگ سے بے خبر، اس حکم پر من و عن عمل کرنا شروع کردیتے ہیں اور جذب کرنے کے بجائے اپنے آس پاس موجود پانی کو واپس آنتوں میں چھوڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہیضے کے مریض کو دست کیسے ہوتے ہیں مگر یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دست ہوتے کیوں ہیں، اور ہماری آنتوں میں جمع ہونے والے پانی سے یہ جرثومہ کوئی فائدہ بھی اٹھاتا ہے یا بس ایسے ہی ہم سے کسی پرانی دشمنی کا بدلہ لے رہا ہوتا ہے؟

ہیضے کے دوران اس جرثومے کو جب مریض کی آنتوں میں اطمینان سے اپنی افزائش کا موقع ملتا ہے تو بے دھڑک اور بے تحاشا اپنی آبادی بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے ان جراثیم کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ان میں اس بات کا احساس شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے کہ اب ہمیں اس مریض کے جسم سے نکل کر اپنے پھیلاؤ کو اور زیادہ بڑھانا ہے۔ یہاں پر ان کا پیدا کردہ زہر کام آتا ہے۔ یہ جراثیم دستوں کے ذریعے سیوریج میں شامل ہوجاتے ہیں، اور اگر کہیں کسی وجہ سے پینے کے پانی میں اس جرثومے والے پانی کی ملاوٹ ہوجائے تو یہ وبا ایسے ہی آگے چلتی چلی جائے گی، جب تک کہ پینے کے پانی سے اس ملاوٹ کو دور نہیں کرلیا جاتا۔

تو صاحب یہی تو اصل راز تھا جس کی تہہ تک پہنچنے اور لوگوں کو اس کا شعور دلانے میں ہمارے ممدوح نے اپنی زندگی کے بیس پچیس سال صرف کیے۔ اب واپس چلتے ہیں جان سنو صاحب کے زمانے میں۔

انیسویں صدی تک اگرچہ جراثیم کی دریافت کو بہت وقت گزر چکا تھا مگر اس بات کا ادراک عوام تو کیا طبی شعبے میں بھی کسی کو نہیں تھا کہ یہ ننھے منے بظاہر بے ضرر سے یک خلوی جاندار بھی اپنے سےاربوں کھربوں گنا بڑی جسامت والے انسانوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت معالج اور عوام دونوں ہی بیماریوں کو زہریلی گیسوں اور بخارات کے اثرات گردانتے تھے۔ اس طبی نظریئے کے مطابق، کچرے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، کھلی قبروں اور ایسی ہی دیگر بدبودار جگہوں سے اٹھنے والے بخارات اور گیسوں میں انسان کو بیمار کرنے کی صلاحیت ہوتی تھی۔ یہاں ایک بات بتانا قابلِ ذکر ہے کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب پورے جوبن پر تھا اور لوگوں کے روزگار کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں کا رخ کرنے کے باعث شہروں کی آبادیوں میں بے تحاشا اضافہ ہورہا تھا۔

ایک طرف بے تحاشا اور بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی تو دوسری طرف لندن جیسے لاکھوں کی آبادی والے شہر میں نکاسیِ آب کے انتظام کی غیر موجودگی نے پورے لندن اور اس کے ساتھ بہنے والے دریائے ٹیمز کو غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے ہی فلش اور کموڈ کی ابتدائی شکلوں کی ایجاد کے بعد گھروں میں بیت الخلاء بننے لگے تھے مگر نکاسیِ آب کا کوئی نظام نہ ہونے کے باعث اکثر لوگ گھروں میں زیرِ زمین گٹر استعمال کرتے یا پھر ساری غلاظت گلیوں میں پھینک دی جاتی تھی، جہاں سے اس غلاظت کو دریا برد کردیا جاتا۔ نتیجتاً نہ صرف پورا شہر بلکہ دریا کا بھی بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی تھی۔ اندازہ کیجیے کہ کس قدر بدبو ہوتی ہوگی۔ ان حالات میں زہریلی گیسوں والے تصور کو مزید پذیرائی حاصل ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی، لیکن جان سنو اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر اس پرانے تصور کو ٹھیک سمجھنے سے قاصر تھے۔

اسی دوران ستمبر 1848 میں لندن میں ایک بار پھر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔ جان نے اس وبا کا نہایت غور سے مشاہدہ کیا۔ جان نے جتنے بھی مریضوں کا علاج کیا، وہ تمام کے تمام دست اور نظامِ انہضام کی ہی تکالیف میں مبتلا تھے۔ اس مشاہدے کے نتیجے میں جان کا خیال تھا کہ اگر یہ بیماری ہوا اور بخارات کی وجہ سے ہوتی ہے تو اس کا اثر ہمارے پھیپڑوں پر پڑنا چاہیے نہ کہ آنتوں پر، کیوں کہ ہم اپنے معدے یا آنتوں سے تو سانس نہیں لیتے لہٰذا ہیضے کے پھیلاؤ میں ہوا سے زیادہ اہم کردار غذا اور پانی کا ہونا چاہیے؛ اور اسی خیال سے جان کے نزدیک گیسوں کے بجائے جراثیم کو ہیضے کی وجہ سمجھنا زیادہ قرینِ قیاس تھا۔ اس خیال کے تسلسل میں جان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مریض کو آنے والے دست، ہیضے کے جراثیم کےلیے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پہنچنےکا وسیلہ ہوتےہیں۔

1849 میں جان نے اپنے اس نظریئے کو اپنے ذاتی خرچ پر شائع کردہ ایک کتابچے میں پیش کیا۔ 39 صفحات پر مشتمل اس کتابچے کا نام
On the Mode of Communication of Cholera تھا۔ اس میں جان نے پہلی بار ہیضے کی وبا اور اس کے پھیلاؤ کو سائنسی بنیاد پر کھوجنے کی کوشش کی تھی۔ اپنی تحریر میں جان نے لندن کے ایک محلے کی مثال دی جہاں گلی کے ایک جانب کے گھروں میں کئی افراد ہیضے کا شکار بنے تو انہی گھروں کی قطار کے سامنے والی قطار میں صرف ایک شخص ہی بیمار ہوا۔ تھوڑی سی تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس محلے کے ایک کنویں میں سیوریج کا پانی شامل ہورہا تھا۔ جی ہاں! آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ملاوٹ زدہ پانی کو استعمال کرنے والے کون تھے۔ جان کی اس کوشش کو سراہا تو گیا مگر اس وقت کے سائنسدان اور طبی ماہرین کسی حتمی ثبوت کی عدم موجودگی کی بنا پر جان کے نظریہ کو ماننے سے انکاری ہی رہے۔ ان تمام سائنسدانوں کی ناراضگی کے پیش نظر جان نے اپنے کتابچے میں کسی جرثومے کو براہِ راست ہیضے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا بلکہ ایک ایسے مبینہ زہر کا ذکر کیا جو کہ مریض کی آنتوں میں خودبخود اپنی تعداد بڑھانے کی صلاحیت کا متحمل ہو۔ آنے والے چار سال جان نے نہ صرف 1848 تا 1849 والی وبا کے اپنے مشاہدات اور معلومات کو پرکھنے اور جانچنے میں صرف کیے بلکہ پانی کی فراہمی میں ملاوٹ اور ہیضے کے پھیلاؤ کے آپس کے تعلق کے ثبوتوں اور دیگر معلومات کو جمع کرنے میں گزارے۔

1853 کی گرمیوں میں لندن میں پھر ہیضے کی وبا پھیل گئی۔ اس دفعہ اس وبا کی شدت جان کے علاقے کے آس پاس خاصی زیادہ تھی۔ جان نے اپنے نظریئے کو تجربے کے ذریعے ثابت کرنے کا فیصلہ کیا۔ میونسپلٹی سے حاصل شدہ ریکارڈ سے جان کو پتا چلا کہ اس کے علاقے میں دو پرائیویٹ کمپنیاں پائپوں کے ذریعے پانی سپلائی کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں کمپنیاں دریائے ٹیمز سے پانی حاصل کرکے آگے فراہم کرتی تھیں، اور جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ لندن کی ساری کی ساری غلاظت دریا بُرد ہوتی تھی۔ ان دونوں کمپنیوں میں ساؤتھ وارک اینڈ واکسہال واٹر کمپنی کے بارے میں جان کو پتا چلا کہ اس کمپنی کے پانی لینے والی جگہ کے ساتھ ہی لندن کے سیوریج کا نالہ دریا میں شامل ہوتا ہے، یعنی جان کے نظریئے کے حساب سے اس پانی میں ہیضے کے زہر کی موجودگی ہونی لازمی تھی، جبکہ دوسری کمپنی لیمبتھ واٹر کمپنی نے حال ہی میں اپنے پانی لینے والی جگہ کوان نالوں سے دور منتقل کیا تھا اور لوگوں کو صاف پانی فراہم کر رہی تھی۔

جان نے ان دونوں علاقوں کے لوگوں اور ان کی پانی کی فراہمی کا مشاہدہ کرنا شروع کردیا۔ اس مشاہدے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ ساؤتھ وارک اینڈ واکسہال واٹر کمپنی کا گندا پانی استعمال کرنے والے 286 لوگ جبکہ لیمبتھ واٹر کمپنی کا صاف پانی لینے والے محض 14 افراد ہیضے کا شکار ہوئے، یعنی بیس گنا سے بھی کم۔ لیکن ان نتائج کے باوجود بھی نقاد جان کے نظریہ سے متاثر نہیں ہوئے۔ اسی دوران اگست کے آخری ایام میں، جان کے گھر سے محض پانچ منٹ کی دوری پر ہیضے کی ایک اور وبا پھوٹی۔ اس وبا سے مرنے والوں کی اکثریت براڈ اسٹریٹ کی مقیم تھی۔ جان نے سب سے پہلا کام اس علاقے میں پانی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کا ریکارڈ چیک کیا مگر ان کا پانی صاف تھا۔ جان کا شک براڈ اسٹریٹ پر لگے ہوئے واٹر پمپ پر گیا کہ ہو نہ ہو، اس پمپ میں کسی طرح سے کوئی ملاوٹ ہوگئی ہے لیکن جب اس پمپ سے لیے گئے پانی کا خردبین سے مشاہدہ کیا گیا تو معمول سے ہٹ کر کوئی جرثومہ نظر نہیں آیا۔ اس ناکامی کے باوجود بھی جان نے ہمت نہیں ہاری اور تمام بیماروں کے گھر خود جانے کا فیصلہ کیا۔ اب تک کی 83 اموات میں سے 73 افراد تو وہ تھے جو براڈ اسٹریٹ پمپ کے بالکل قریب ہی رہتے تھے اور اسی کا پانی استعمال کرتے تھے لہٰذا جان کےلیے ان کی بیماری کی وجہ سمجھنا تو آسان تھا مگر باقی کے دس افراد وہ تھے جن کے گھر براڈوے سٹریٹ پمپ سے دور تھے اور ان کے علاقے کے اپنے الگ واٹر پمپ تھے۔ ان کے گھر جا کر جان کو معلوم ہوا کہ ان دس میں یا تو وہ بچے تھے جو اسکول آتے جاتے وقت براڈ سٹریٹ پمپ سے پانی پیتے تھے یا پھر وہ لوگ تھے جنہیں براڈ سٹریٹ پمپ کے پانی کا ذائقہ پسند تھا۔ اپنے اس مشاہدے کی روشنی میں جان نے انتظامیہ کی مدد سے پمپ کا ہینڈل اتروا دیا اور یوں یہ وبا کنٹرول ہوگئی۔

یہاں تک تو جان سنو نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ہیضے کی وبا اس واٹر پمپ سے پانی پینے کی وجہ سے پھیل رہی ہے، مگراس میں گیسوں ویسوں کا کوئی تعلق نہیں اور اس پمپ میں ہیضے کا جرثومہ کہاں سے اور کیسے آیا؟ اس کا تعین کرنا ابھی باقی تھا۔ جان کو یقین تھا کہ اس پمپ یا اس کے نیچے موجود کنویں میں کہیں سے سیورج کا پانی شامل ہو رہا ہے۔ اس امکان کو چیک کرنے کےلیے دو بار کنویں اور اس سے 10 فٹ کے فاصلے پر موجود سیوریج کے نالے کا معائنہ کیا گیا لیکن ملاوٹ یا پانی لیک ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

کچھ عرصے بعد جان کے ایک ساتھی ہنری وائٹ ہیڈ کو ایک 6 ماہ کی بچی کے ہیضے سے مرنے کی اطلاع ملی جس کی موت 2 ستمبر کو ہوئی تھی۔ اس بچی کا گھر پمپ کے بالکل سامنے تھا۔ ہنری وائٹ ہیڈ نے جان کو اطلاع دی اور فوراً اس گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس بچی کی ماں نے ہنری کو بتایا کہ اس نے اپنی بچی کے گندے پوتڑے (ڈائپرز) اپنے گھر کے گٹر میں ڈالے تھے۔ یہ اطلاع ہنری اور جان دونوں کےلیے حیرت انگیز تھی کیونکہ میونسپلٹی کے ریکارڈ کے حساب سے یہاں کے سارے گٹر ختم کردیئے گئے تھے۔ ان معلومات کی روشنی میں جب اس گٹر اور کنوئیں کی کھدائی کی گئی تو معلوم ہوا کہ گٹر اور کنوئیں کے درمیان 3 فٹ کا بھی فاصلہ نہیں تھا، اور دونوں کی دیواروں اور درمیان میں موجود مٹی میں گٹر کے پانی کے رسنے کے نشان واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔

جان اور ہنری نے تمام تر ثبوتوں اور مشاہدات کے ساتھ اپنے نتائج کو جنرل بورڈ آف ہیلتھ کے آگے پیش کیا تو اسے متفقہ طور پر مسترد کردیا گیا۔ 1858 میں جان کے ناگہانی انتقال کے وقت تک طبی ماہرین اس کے نظریئے کو ماننے سے انکاری تھے مگر چند برسوں بعد ہی 1860 کی دہائی میں لوئی پاسچر اور رابرٹ کوخ کے تجربات نے نہ صرف بیماریوں کو جراثیمی نظریئے کی بنیاد پر ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا بلکہ رابرٹ کوخ نے ہیضے کے جرثومہ کو دریافت کیا اور جان کے نظریہ کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کردیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔