کیا ذلت آمیز نظام خود گرتے ہیں

وہ لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں جو خاموشی سے ہر ذلت، توہین، خواری، بے عزتی، گالیاں برداشت کرتے رہتے ہیں۔


Aftab Ahmed Khanzada April 19, 2020
[email protected]

QUETTA: کیا ذلت و نفرت آمیز، بوسیدہ، لوٹ کھسوٹ اور دیمک زدہ نظام خود بخود گرتے ہیں یا انھیں گرانے کے لیے ہم میں ہی سے کچھ لوگ آگے بڑھتے ہیں اور گرا دیتے ہیں اس گرا دینے میں وہ اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں حتیٰ کہ اپنی جان تک بھی۔

آیا وہ لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں جو خاموشی سے ہر ذلت، توہین، خواری، بے عزتی، گالیاں برداشت کرتے رہتے ہیں کہ یہی ہمارا نصیب اور مقدر ہے اور کبھی نہیں اٹھتے اور ایک روز اس کے اپنے اسے اٹھا رہے ہوتے ہیں یا وہ لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں جو اپنی کسی چیز کی اور اپنوں کی پروا نہ کرتے ہوئے باقی لوگوں کو ذلت، توہین اور بے عزتی کی زندگی سے نجات دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔

آئیں! دونوں باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہماری اکثریت ساری عمر زندگی کے اصل معنی کو سمجھ ہی نہیں پاتی ہے، اس میں سب سے بڑا کردار جہالت کا ہوتا ہے، جہالت سے مراد صرف لکھنا پڑھنا نہ آنا نہیں ہوتا ہے، جہالت کی ہزاروں قسمیں ہیں ہر قسم آپ کو بے حس بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔جاہلوں کے نزدیک ساری زندگی صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی جدوجہد اور حصول تک محدود ہوتی ہے وہ ساری عمر صرف ان کے لیے ہی مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور بچے پہ بچہ پیدا کرتے رہتے ہیں وہ ساری عمر طاقتوروں، بااختیاروں اور امیروں کی ساری ذلتیں، بے عزتی، گالیاں، توہین اس لیے برداشت کرتے رہتے ہیں کہ ایک تو کمزور پیدا ہوتے ہیں اور اسی کو اپنا مقدر مان لیتے ہیں وہ اپنی غربت اور طاقتوروں کی عزت کرنا اپنا فرض اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہر ذلت کو برداشت کرنا ان کے لیے ان کا نصیب ہے اور وہ اسی لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ اپنا سارا غصہ اپنے آپ اور اپنے گھر والوں پر اتارتے رہتے ہیں لیکن وہ ان طاقتوروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور دوسرا یہ بھی کہ وہ اپنا بچا کچا داؤ پر لگانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے کھڑے ہونے سے اس نظام یا طاقتور لوگوں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ہے، یہ نظام سالہا سال سے اسی طرح چلتا آرہا ہے اور آیندہ بھی اسی طرح ہی سے چلتا رہے گا۔

میرے دادا نے بھی یہی سب کچھ برداشت کیا تھا میرے والد نے بھی ایسا ہی کیا لہٰذا اب مجھے بھی ایسا ہی سب کچھ برداشت کرتے جانا ہے وہ اپنے آپ کو روز بزدل پہ بزدل کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا قتل بھی کرتا جاتا ہے۔ اس کے اس عقیدے کو پختہ کرنے میں اس کے گھر والے، رشتہ دار، دوست احباب بہت مدد کرتے ہیں وہ بھی اسی کی طرح بزدل ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ بزدلوں کی فوج میں کسی بہادر کو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں کیونکہ کسی بہادر کے پیدا ہونے سے ان کی اپنی انا کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا اس لیے وہ ساری عمر کسی بہادر کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جنھوں نے لوگوں کے کل کے سکھ کے لیے اپنے آج کے سکھ کو قربان کردیا اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا حتیٰ کہ اپنی زندگی تک۔ اگر ہم انھیں عام نظر سے دیکھیں تو وہ کہیں گے کہ انھیں کیا ملا وہ ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے قربانیوں پہ قربانیاں دیتے رہے سختیاں اور مصیبتیں سہتے رہے اور آخر میں ان کے نصیب میں بے وقت موت ہی آئی۔

یہ تو ہوئی عام نظر کی بات لیکن اگر ہم انھیں الگ نظر سے دیکھیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ وہ صدیوں بعد بھی آج زندہ ہیں۔ ان کے ملکوں، شہروں میں ان کی پوجا کی جاتی ہے، ان کے نام اور ان کی قربانیوں سے دنیا کا ہر شخص واقف ہے انھی کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ سکھی، آزاد، خوشحال اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔

فلورنس ایک یادگار تاریخی شہر ہے یہ بڑے بڑے شاعروں، فنکاروں اور مفکروں کا مسکن رہ چکا ہے دانتے، گلیلو، لیونارڈوڈی، مائیکل اینجلو، رانیل، میکاولی سب اس خاک سے اٹھے۔ گلیلو کی رصد گاہ، دانتے کی ولادت گاہ، مائیکل اینجلو کا گھر اور مقبرہ یہ سب آج بھی محفوظ ہیں مگر ان سب سے مقدس کلیسائے سینٹ مارک اور ڈومو کی عبادت گاہ ہے جہاں سیونارولا اپنی پرجوش فصاحت کے ساتھ لوگوں کو وعظ و نصیحت سے راہ حق دکھانے میں مصروف رہا، وہ عدالت بھی آج تک قائم ہے جہاں اسے بادشاہ اور مذہب کے مدعیوں کے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے پر 22 مئی 1498 کو اس کے دو ساتھیوں سمیت پھانسی کی سزا سنائی گئی اور کہا گیا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی لاشیں زنجیروں کے ذریعے بھڑکتی ہوئی آگ پر لٹکا دی جائیں۔

پہلے اس کے دونوں ساتھیوں کو پھانسی دی گئی ان کے بعد سیونارولا کی باری آئی وہ بڑے اطمینان کے ساتھ تختے پر چڑھا اور پھانسی کا رسہ چوم کر اپنے گلے میں ڈال لیا پھر ان تینوں کی لاشوں کو زنجیروں سے کس کر آگ پر لٹکا دیا گیا جب وہ جل کر راکھ ہوگئیں تو ان کی راکھ دریا آرنو میں پھینک دی گئی۔ یہ واقعہ 23 مئی 1498 کو پیش آیا۔ آپ ہی بتائیں کیا سیونارولا پاگل یا دیوانہ تھا یا اپنی زندگی کا دشمن تھا یا سقراط، برونو، ٹالسٹائی، ترگیف، بالزاک، والیٹر، روسو، سمرسٹ ماہم، ہنرک ابسن، ہرمن میلول، ہاورڈ فاسٹ، یوری پیڈیز، اسکائی لس، لانجائی نس، اووڈناسو، جیوفری چاسر، ولیم ورڈز ورتھ اپنے دشمن آپ تھے کیا یہ سب کے سب پاگل اور دیوانے تھے۔

کیا یہ سب اپنی اپنی زندگی سے تنگ تھے کیا انھیں اپنے سکھ، چین، خوشیوں، خوشحالی سے نفرت تھی اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ اپنی بدحالی، غربت و افلاس، گالیوں، دھتکاروں میں اپنی بقیہ زندگی بھی ہنسی خوش گزار دیں اور اگر آپ کا جواب ناں میں ہو تو پھر آپ سوچیں کہ اب آپ نے کیا کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں