کیا یہ نظام چل سکے گا

نظام کی درستگی محض خواہش کو پیدا کرنے یا سیاسی نعرے یا جذباتی طرز کی سیاست سے ممکن نہیں۔


سلمان عابد April 19, 2020
[email protected]

پاکستان میں حکمرانی کا نظام ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے ۔ غیر جمہوری حکمرانی کا نظام ہو یا سیاسی و جمہوری نظام حکمرانی یہ دونوں تجربات میں حکمرانی کا نظام عوامی توقعات، خواہشات اور قانون کی حکمرانی کے تابع نہیں بن سکا ۔حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت کی وجہ کوئی ایک فرد یا مسئلہ نہیں بلکہ اس ناکامی کے بہت سے عوامل ہیں۔

نظام کی درستگی محض خواہش کو پیدا کرنے یا سیاسی نعرے یا جذباتی طرز کی سیاست سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک موثر سیاسی سمجھ بوجھ ، تدبر ، صلاحیت اور سب سے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ درکار ہوتی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ نظام کی اصلاح تو کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ نظام کو قانون کے تابع کرنے کی بجائے اپنے تابع کرکے ادارہ جاتی نظام کو بھی خراب کرتا ہے اور اس عمل کو ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتا ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے بحران میں درپیش مشکلات کے تناظر میں سوموٹو ایکشن لیااور معاملے کی سنگینی کا جائزہ لینے کے لیے پانچ رکنی لارجر بنچ بھی تشکیل دیا ۔اس مقدمہ میں چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی امین ، جسٹس عطا بندیال نے دوران مقدمہ میں حکمرانی کے نظام کے تناظر میں چند بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں جن میں حکومت کی حکمرانی کے اسلوب، انداز حکمرانی ، شفافیت ، جوابدہی ، صحت کے نظام کی تباہی ، نگرانی کے نظام ، افراد کی اہلیت ، منتخب افراد کے مقابلے میں غیر منتخب افراد کی بھرمار جیسے مسائل شامل ہیں ۔بنیادی نکتہ یہ ہی تھا کہ ہم ایک اچھی اور شفاف حکمرانی کے نظام سے عملی طور پر محروم نظر آتے ہیں ۔

بنیادی طو رپر یہ کسی ایک حکومت یا فرد کی ناکامی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ، سماجی ، انتظامی اورمعاشی یا قانونی نظام کی ناکامی سے جڑا مسئلہ ہے ۔ ایک اچھا ، قابل اور صلاحیت والا فرد بھی حکمرانی کے نظام کو سنبھال لے تو وہ اس روائتی اور مافیاز کے شکنجے میں جکڑے نظام کو آسانی سے نہیں گراسکے گا۔ کیونکہ جو بھی حکمران آئے گا اسے خود بھی اپنی حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے ان ہی طاقت ور افراد یا گروہ یا اداروں کے ساتھ ہی مل کر اپنا نظام چلانا ہے ۔

یہ نظام کسی بڑی سیاسی تبدیلی ، شفافیت ، ْجوابدہی ، احتسابی نظام کا نہ صرف مخالف ہے بلکہ طبقاتی بنیادوں پر ایک مخصوص طبقہ کی حکمرانی کے نظام کو تقویت دیتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی فرد اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح کی بڑی تبدیلی کی بات کرے گا اسے اسی نظام کے اندر ہی بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔18ویں ترمیم کے بعد ایک بڑا خیال یہ تھا کہ اب حکمرانی کا نظام وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے اضلاع تک منتقل ہوگا تو حکمرانی کے نظام کی بھی موثر انداز میں ایک بڑی اصلاح ہوسکے گی ۔

18ویں ترمیم کے بعد نظام کی درستگی اور حکمرانی کے نظام میں شفافیت کو پیدا کرنے کی بڑی ذمے داری عملی طور پر صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔یہ صوبائی حکومتوں کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ حکمرانی کے نظا م کی درستگی کے لیے صوبوں سے اضلاع کی سطح پر 1973کے دستور کی شق140-A کے تحت مقامی حکومتوں کے اداروں کو نہ صرف تیسری حکومت کے طورپر تسلیم کریں بلکہ ان کو مکمل طور پر سیاسی ، انتظامی اورمالی اختیارات دے کر مقامی حکمرانی کے نظام کو مضبوط اورشفاف بنائیں ۔لیکن ہماری سیاسی وجمہوری قوتوں نے اختیارات ووسائل کی منصفانہ تقسیم کے نظام کو قبول کرنے سے انکار کیا ہوا ہے ۔

حکومت اورحزب اختلاف میں ایسی سیاسی قوتیں اور افراد غالب ہیں جو روائتی سیاست کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اس روائتی سیاست کی بنیاد پر اپنے مفادات کو زیادہ تقویت دے سکتے ہیں ۔ ان طاقت ور افراد نے دیگر اہم طاقت کے مراکز یا افراد کے ساتھ باہمی مفادات کو جوڑ کر ایک اپنا طاقت ور نظام بنالیا ہے جس کے سامنے حکومتی نظام کمزورہے۔ حکومت کی ایک بڑی طاقت اس کی انتظامی مشینری ہوتی ہے جسے عرف عام میںہم سب بیوروکریسی کہتے ہیں ۔اس بیوروکریسی میں بار بار کی سیاسی مداخلت، سیاسی بنیادوں پر افراد کی تقرریاں، من پسند افراد کو نوازنے اورمشکل پیدا کرنیوالے افراد کو کھڈے لائن لگانے، میرٹ کے برعکس افراد کو اہم عہدے دینے کی وجہ سے یہ نظام اپنی اہمیت کھورہا ہے ۔

بیوروکریسی کا یہ نظام قانون کے تابع کم اور افراد کے تابع زیادہ ہوگیا ہے۔ جب بھی بیوروکریسی میں اصلاحات کی بات کی جائے تو روائتی بیوروکریسی یا اہل سیاست ان اصلاحات کے خلاف ایک بڑی دیوار بن جاتے ہیں ۔سیاست ، جمہوریت ، پارلیمنٹ ، سیاسی قیادت، عوامی نمایندے ، وزیروں ، مشیروں کی فوج در فوج اور ان سب کو دی جانیوالی انتظامی و مالی مراعات کے باوجود ہم ایک بہتر سیاسی نظام کی تشکیل نو میں بہت پیچھے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ سیاسی نظام جمہوریت سے زیادہ ایک مخصوص گروہ کے طاقت کا کھیل بن گیا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔