73 سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا

ملک میں آئین موجودہے پر اُس کی ملک میں کوئی حیثیت نہیں۔ہم وسیع آبی نظام رکھنے کے باوجودقلت ِ آب کو جھیل رہے ہیں۔



قومیں حادثاتی طور پر نہیں بنا کرتیں۔ یہ قدرت کی جانب سے عطا کردہ جغرافیائی خطے اور ہزارہا سال کی تاریخی و تہذیبی روایات کے ورثے اور مشترکہ معاشی و معاشرتی مفادات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں ۔ لیکن کچھ مخلوط النسل گروہ حالات، مشترکہ مفادات اور تمدن کی بنیا دپر جذبہ اتحاد کے ساتھ ملکر یک دل و یک جاں بن کر بھی کرہ ٔ ارض پر نمودار ہوتی ہیں ۔ جن کا وجود کچھ بنیادی اُصولوں جیسے جذبہ ایثار ،قومی مساوات اور یکساں حقوق پر قائم ہوتا ہے یا قائم رہتا ہے۔

ہم پاکستانی بھی اسی دوسری قسم کی قوم ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مذکورہ بالا بنیادی اُصولوں سے روگردانی ایسی قوموں کے وجود کو ریزہ ریزہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اور اس بات سے قائد اعظم بخوبی واقف تھے ۔ اسی لیے انھوں نے ہمارے وجود کو دائمی جلا بخشنے کے لیے ان باتوں پر قائم رکھنے کے لیے 'ایمان ، اتحاد اور تنظیم ' جیسے 3نکات پر مبنی ایک رہنما اُصول دیا ۔ یہی وہ اُصول تھا جس کے بَل پرقائد نے ایک طرف دنیا بھر پر راج کرنیوالے انگریز کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تو دوسری جانب اپنی تنظیم مسلم لیگ سے بڑی و تجربہ کار تنظیم کانگریس کو بھی شکست سے دوچار کیااور ہزارہا سازشوں اور رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے پاکستان کی صورت میں اپنی منزل مقصود کو حاصل کیا۔

اس اُصول پرخود قائم رہ کر انھوں نے نہ صرف پاکستان حاصل کیابلکہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے وہ ہمیں بھی بارہا اسی اُصول پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے رہے ۔ انھوں نے ہمیں سمجھایا کہ ''یقین ، نظم و ضبط اور بے لوث لگن کے ساتھ دنیا کی ایسی کوئی چیز نہیں جو حاصل نہیں کی جاسکتی ''۔ اور انھوں نے اپنی جدوجہد سے یہ ثابت بھی کیا ۔ پھر دیکھا جائے توہمیں جب بھی کوئی بڑی کامیابی ملی ہے تو اُس وقت کی قیادت میں اُنہی اُصولوں کی جھلک نظر آئی ہے۔ لیکن اس کے باوجودہم ان اُصولوں پر قائم نہیں رہ سکے۔ ہمارا یقین متزلزل رہا ہے ۔

ہم منظم نہیں بلکہ منتشر جتھے بن کر رہ گئے ہیں اور ہم نے بے لوثی پر اقربا پروری اور انفرادی ، ذاتی و گروہی مفادات کو ترجیح دی ہے ۔ ہم جب جب قائد کے ان اُصولوں پر کاربند ہوئے ہیں تو ہم نے کامیابیوں کی بلندیوں کو چُھوا ہے ۔ ہم نے صفر سے صد ، اور پستی سے بلندی کی جانب سفر کرتے ہوئے بڑی بڑی کامرانیاں حاصل کی ہیں ۔ ہم نے ایٹمی قوت بن کر دنیا کو حیرت زدہ کیا ہے ۔ ہم نے خالی ہاتھ ہوتے ہوئے 3جنگیں لڑیں اور اُس کے باوجود بھی اپنے وجود کو برقرار رکھا ہے ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود مستقل طور پر ایک قوم ہونے پر ہمارا یقین باربار ڈول جاتا ہے ۔

تنظیم کو ہم نے سیاسی جماعت کے مفادات کا حصول سمجھ لیا ہے ، اس لیے 'میری جماعت اچھی ، تمہاری جماعت خراب' ، 'میرا رہنما اور تمہارا رہنما ' پر آگئے ہیں ۔ جس کے باعث قائد اعظم سے قائد عوام کے بعد کوئی بھی متفقہ قائد ہم میں پیدا نہیں ہوسکا، بلکہ بے یقینی و انتشار کا یہ عالم ہے کہ ہم نے ان دونوں قائدین کو بھی مشکوک بنادیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کو زہر دیے جانے اور دوسرے کو پھانسی ہونے پربھی ہم میں کوئی طیش و تشویش نظر نہیں آئی ۔ ہم نے تو ہمشیرۂ قائد کو ایک ہی پل میں 'مادر ِ ملت ' اور دوسرے ہی پل میں 'غدار' کے القابات سے نواز دیا۔ ہم نے اپنے دریا بیچ کر اپنی Lifelineکو وینٹی لیٹر پر رکھ دیا ہے ۔ ہم آج سمندر کی سرکشی کو بھی 'میرا نہیں ، تیرا مسئلہ ' کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔

یہ ملک چار صوبوں نے مل کر رضاکارانہ شمولیت کی بنیاد پر بنایا تھا لیکن پھر یہاں تاریخ کی انوکھی بات بھی نظر آئی کہ اکثریت اقلیت سے بیزار ہوکر بھاگ گئی اور ہم ملک کے دو ٹکڑے ہونے پر بھی ''تم اُدھر خوش ، ہم ادھر خوش'' کہہ کر مطمئن ہوگئے بلکہ بٹوارے کی اس روایت کو اب ہم نے داخلی طور پر بھی ''آدھا ہمارا ، آدھا تمہارا'' کے روپ میں فروغ دے رکھا ہے۔ امریکا 50اقوام کا مشترکہ ملک اور ملت ہوسکتا ہے ، ملائیشیا 13ریاستوں اور 3وفاق کے ساتھ کثیر نسلی گروہوں پر مشتمل ایک قوم ہوسکتی ہے ، جب کہ 8اقوام کا مشترکہ پلیٹ فارم' یورپی یونین ' بھی چل سکتا ہے لیکن ہم ایک پاکستانی ملت نہیں بن سکتے ۔ ماناکہ اس میں بیرونی سازشوں کا بھی عمل دخل ہے مگر یہ صورتحال تو ہر ملک و ملت کو درپیش ہے ۔

ایران ، انڈیا اور افغانستان بھی تو ایسے مخلوط قومی ملک ہیں لیکن وہ ہماری طرح غیر مملکتی گروہوں میں تو نہیں بٹے ہوئے بلکہ ہزار مسائل کے باوجود وہ ایک ملت کے پیرایے میں ہی سمائے ہوئے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک اکثریتی مذہب اور ایک ہی تہذیب(Indus Civilization) کا حصہ ہونے کے باوجود دن بہ دن ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں ؟ایک طرف ہمارے سامنے قائد اعظم کی مثال ہے کہ جنھوں نے 10سے 13 سال جتنی قلیل مدت کی تحریک چلاکر بنگال، سندھ ، پنجاب اور سرحد کو ملاکر برابری کی قرارداد کے تحت پاکستان بنایا ، پھر خیرپور میرس ، بہاولپور اورقلات (بلوچستان ) کی ریاستوں کو رضاکارانہ میثاق کے ذریعے اُس میں شامل کرکے اُسے مستحکم بنایا ، لیکن ہم نے نہ اُس قرار داد پاکستان کا بھرم رکھا اور نہ ہی اُن میثاقوں کا ۔۔۔!

ملک میں آئین موجودہے پر اُس کی ملک میں کوئی حیثیت نہیں۔ہم وسیع آبی نظام رکھنے کے باوجودقلت ِ آب کو جھیل رہے ہیں۔ بنیادی طور پر وسیع زرعی ملک کی شناخت رکھنے کے باوجود آئے دن چینی ، آٹے اور ٹماٹر کے بحرانوں کا شکار رہتے ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی سے جدید تعلیمی نصاب تک کے لیے ہم دوسروں کے محتاج ہیں ۔ سرمایہ کاری سے صنعتی پیداوار میں ہم خود کفیل نہیں ہوسکے ہیں۔ داخلی طور پر ملکی اکائیوں میں مساوات کا نظام نہیں ،آبی و دیگر وسائل پر اکائیوں کے مابین شدید تنازعات ہیں۔ اِن اکائیوںکے مابین یا بطور مرکز اُن سے کیے گئے میثاقوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ جس کے باعث ملک میں عدم اعتماد کی فضا پروان چڑھی ہے ۔ داخلی و خارجی سطح پر ہماری پالیسیوں پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ۔ بحیثیت قوم ہم اعتماد کھوچکے ہیں ۔

قیام ِ پاکستان کے وقت ایک بھارت ہمارا دشمن تھا ۔ 73سالوں میں اُسے دوست بنانے کے بجائے ہم نے اپنے کئی دیگر دشمن پیدا کردیے ہیںتو کئی دوستوں و پڑوسیوں کو خود سے بدظن بھی کردیا ہے ۔ نومولود پاکستان عالمی قوت جرمنی کو امداد دیتا ہے جب کہ آج ایٹمی طاقت پاکستان کی یہ حالت ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے ممالک سے قرضے حتیٰ کہ ایک سماجی تنظیم ایدھی ٹرسٹ سے بھی امداد و چندہ وصول کرتا نظر آتا ہے ۔

ایک جملے میں اگر بات کی جائے تو ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب تیزی سے محوئے سفر ہیں ۔ جس کی وجہ قیام ِ پاکستان کے مقصد اور قائد اعظم کے اُصولوں سے انحراف ہے ۔ قائدنے طلبہ سے فرمایا کہ ''آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور ِ حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں ''۔ جب کہ ہم نے اس کے برخلاف تعلیمی اداروں میں فورسز تعینات کرکے مستقبل کے معمارطلبہ کی سوچ اور تحرک پر پہرے بٹھادیے ہیں ۔ ہم نے ملک میں مساوات کو پیٹھ دیکر عددی اکثریت و اقلیت کی بنیاد پر ملک وملت کو چھوٹے، بڑے اور غیر مساوی گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے ۔

بطور وفاق ، فیصلوں میں جانبداری ہماری سیاسی عادت بن چکی ہے ۔ ہم نے عوام کو تاجروں اور سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے ۔ ہم نے اقتدار کو عوام کی طاقت کے بجائے بیوروکریسی اور اداراتی قوتوں کی خوشنودی سے منسلک کر رکھا ہے ۔ ہم میڈیا کو وقت کی حکومت کا ترجمان بنائے رکھنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ ملک میں عدل انصاف ہماری ترجیح نہیں رہی ۔ سیاسی مفادات ، قومی مفادات پر غالب رہے ہیں ،ملک کو مختلف مافیاؤں کے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جس سے عوام نڈھال ، حکومت بے بس اور نظام ڈانواڈول رہتا ہے اور انھی وجوہات کی بناء پر ملک کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے ۔

ان حالات میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنا اور اُس کے ایک ایک حرف و شق پر نیک نیتی سے عملدرآمد کرنا ہی وہ واحدراہ ہے جو ہم کھوچکے ہیں۔ اگر اس راہ کایہ آئینی سراتلاش کرکے اُس پر ہم کاربند ہوئے تو اس سے قومی اعتماد میں بحالی کے Chances ہیں ۔جب کہ قومی مساوات اور اکائیوں کے مابین برابری کے ساتھ وفاق کا غیرجانبدارانہ کردار اس اعتماد کی بحالی میںپہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔اس لیے اس ملک کی مقتدر قوتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں ۔لازمی طور پر خود میںاور عوام میں ملک و ملت کی محبت اور سربلندی کے جذبے کے ساتھ ساتھ عوامی خود اعتمادی میں اضافے کی پالیسی پر کام کریں۔ بصورت ِ دیگر خدا نخواستہ اگر یہ ملک ہی نہ رہا توآپ کی کیا حیثیت رہے گی ؟ کیونکہ اگر یہ ملک ہے تو تم ہو ، وگرنہ پھرنہ کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی ہمارے سروں پر راج کرنے لگے ۔۔۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔