پاکستانی وھیل شارک کی عمر کا راز ایٹمی دھماکوں سے حل ہوگیا
50 اور 60 کے عشرے میں امریکی اور روسی ایٹمی دھماکوں نے پاکستانی وھیل شارک کی درست عمر بتادی۔
PESHAWAR:
روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں نے سمندری مخلوق وھیل شارک کی اصل عمر کا معمہ حل کردیا ہے اور یہ نمونے پاکستان اور تائیوان سے ملے ہیں۔
اس تحقیق کی تفصیلات 'فرنٹیئرز ان مرین سائنس' کے تازہ شمارے میں چھپی ہیں جس سے دنیا کی سب سے بڑی مچھلی 'وھیل شارک' کی عمر کا معمہ حل کرنے میں مدد ملی ہے۔ وھیل شارک کی بقا کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی عمر کا اندازہ لگا کر اسے بچانے میں بھی مدد مل سکے گی۔
وھیل شارک کی عمر کا اندازہ لگانا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ تمام رے اور شارک کی طرح ان میں ہڈیوں کا باقاعدہ ڈھانچہ (اوٹولتھس) نہیں ہوتا جس کی بدولت ماہرین عمر کا اندازہ لگاتے ہیں بلکہ ہڈی نما ساختیں ضرور ہوتی ہیں۔ اوٹولتھس کئی سمندری مخلوقات میں ان کی عمر معلوم کرنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔
تاہم وھیل شارک کی ہڈی نما ساختوں میں درختوں کے سالانہ حلقوں کی طرح نقوش بنتے ہیں اور خیال ہے کہ عمر کے ساتھ ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سال میں ایک حلقہ بنتا ہے تو سائنسدانوں کا دوسرا گروہ کہتا ہے کہ شاید ہر چھ ماہ بعد ایک نقش ابھرتا ہے۔
نیو جرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کے جوائس اونگ اوریونیورسٹی آف آئس لینڈ کے اسٹیون کیمپانا نے آسٹریلیا مرین سائنسس انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے ایک نئی تحقیق میں سردجنگ کی ایٹمی دوڑ سے وھیل شارک کی عمر جاننے میں مدد لی ہے۔ 50 اور 60 کی دہائی میں امریکہ، سویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین نے دھڑا دھڑ ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ بعض تجربات تو زمین سے اوپر فضا میں انجام دئیے گئے تھے۔
خیال ہے کہ دھماکے کے فوری بعد وقتی طور پر فضا میں کاربن 14 آئسوٹوپ کی مقدار دوگنی ہوگئی تھی۔ کاربن 14 نامی عنصر کی نصف عمر سے آثارِ قدیمہ اور نایاب اشیا کی عمر کا تعین بھی کیا جاتا ہے اور 300 سال سے زائد پرانی کسی شے کے قدیم ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ایٹمی دھماکوں کے بعد بڑھنےوالی کاربن 14 کی مقدار غذائی زنجیر اور جانداروں میں بھی سرایت کرگئی تھی۔ اس کے آثار کرہِ ارض کے ہر جاندار میں بھی پہنچ چکے تھے اور ایک طرح سے لیبل یا علامت اختیار کرگئے تھےاور اب بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
اس طرح وھیل شارک کی جس ہڈی میں کاربن 14 کی زائد مقدار پہنچی اسے دیگر ہڈیوں سے الگ ہونا چاہیئے تھا۔ اس لیے پاکستان اورتائیوان میں موجود وھیل شارک کے دو ڈھانچوں کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ اس میں تمام ایٹمی دھماکوں کا ڈیٹا بھی زیرِ تفتیش رکھا گیا تو معلوم ہوا کہ بعض ہڈیوں میں کاربن 14 کی غیرمعمولی مقدار تھی اور ہڈیوں کی ساخت بھی مختلف تھی اور اس طرح وھیل شارک کی عمر کا اندازہ لگایا گیا۔
ماہرین کے مطابق ایک شارک مرتے وقت 50 برس کی عمر تک پہنچ چکی تھی جبکہ اس سے قبل بعض ماڈلوں سے ظاہر ہے کہ شارک زیادہ سے زیادہ 100 برس تک زندہ رہتی ہیں۔ اس طرح ایک بات ضرور سامنے آئی کہ شارک وھیل حتمی طور پر 50 برس تک کی ہوسکتی ہیں۔
روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں نے سمندری مخلوق وھیل شارک کی اصل عمر کا معمہ حل کردیا ہے اور یہ نمونے پاکستان اور تائیوان سے ملے ہیں۔
اس تحقیق کی تفصیلات 'فرنٹیئرز ان مرین سائنس' کے تازہ شمارے میں چھپی ہیں جس سے دنیا کی سب سے بڑی مچھلی 'وھیل شارک' کی عمر کا معمہ حل کرنے میں مدد ملی ہے۔ وھیل شارک کی بقا کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی عمر کا اندازہ لگا کر اسے بچانے میں بھی مدد مل سکے گی۔
وھیل شارک کی عمر کا اندازہ لگانا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ تمام رے اور شارک کی طرح ان میں ہڈیوں کا باقاعدہ ڈھانچہ (اوٹولتھس) نہیں ہوتا جس کی بدولت ماہرین عمر کا اندازہ لگاتے ہیں بلکہ ہڈی نما ساختیں ضرور ہوتی ہیں۔ اوٹولتھس کئی سمندری مخلوقات میں ان کی عمر معلوم کرنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔
تاہم وھیل شارک کی ہڈی نما ساختوں میں درختوں کے سالانہ حلقوں کی طرح نقوش بنتے ہیں اور خیال ہے کہ عمر کے ساتھ ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سال میں ایک حلقہ بنتا ہے تو سائنسدانوں کا دوسرا گروہ کہتا ہے کہ شاید ہر چھ ماہ بعد ایک نقش ابھرتا ہے۔
نیو جرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کے جوائس اونگ اوریونیورسٹی آف آئس لینڈ کے اسٹیون کیمپانا نے آسٹریلیا مرین سائنسس انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے ایک نئی تحقیق میں سردجنگ کی ایٹمی دوڑ سے وھیل شارک کی عمر جاننے میں مدد لی ہے۔ 50 اور 60 کی دہائی میں امریکہ، سویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین نے دھڑا دھڑ ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ بعض تجربات تو زمین سے اوپر فضا میں انجام دئیے گئے تھے۔
خیال ہے کہ دھماکے کے فوری بعد وقتی طور پر فضا میں کاربن 14 آئسوٹوپ کی مقدار دوگنی ہوگئی تھی۔ کاربن 14 نامی عنصر کی نصف عمر سے آثارِ قدیمہ اور نایاب اشیا کی عمر کا تعین بھی کیا جاتا ہے اور 300 سال سے زائد پرانی کسی شے کے قدیم ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ایٹمی دھماکوں کے بعد بڑھنےوالی کاربن 14 کی مقدار غذائی زنجیر اور جانداروں میں بھی سرایت کرگئی تھی۔ اس کے آثار کرہِ ارض کے ہر جاندار میں بھی پہنچ چکے تھے اور ایک طرح سے لیبل یا علامت اختیار کرگئے تھےاور اب بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
اس طرح وھیل شارک کی جس ہڈی میں کاربن 14 کی زائد مقدار پہنچی اسے دیگر ہڈیوں سے الگ ہونا چاہیئے تھا۔ اس لیے پاکستان اورتائیوان میں موجود وھیل شارک کے دو ڈھانچوں کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ اس میں تمام ایٹمی دھماکوں کا ڈیٹا بھی زیرِ تفتیش رکھا گیا تو معلوم ہوا کہ بعض ہڈیوں میں کاربن 14 کی غیرمعمولی مقدار تھی اور ہڈیوں کی ساخت بھی مختلف تھی اور اس طرح وھیل شارک کی عمر کا اندازہ لگایا گیا۔
ماہرین کے مطابق ایک شارک مرتے وقت 50 برس کی عمر تک پہنچ چکی تھی جبکہ اس سے قبل بعض ماڈلوں سے ظاہر ہے کہ شارک زیادہ سے زیادہ 100 برس تک زندہ رہتی ہیں۔ اس طرح ایک بات ضرور سامنے آئی کہ شارک وھیل حتمی طور پر 50 برس تک کی ہوسکتی ہیں۔