بھارت امریکا دوستی کچھ مزہ آیا

امریکا سے ملنے والی پہلی باقاعدہ، ہلکی سی دھمکی کے سامنے بھارت ڈھے سا گیا ہے


Tanveer Qaisar Shahid April 20, 2020
[email protected]

ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر بنے چوتھا سال گزررہا ہے۔ رواں سال کے اواخر میں مسٹر ٹرمپ ایک بار پھر دوسری ٹرم کے لیے امریکی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، دوسری ٹرم جیت کر وزارتِ عظمیٰ کے پانچویں سال میں ہیں ۔

ان پانچ برسوں میں مودی جی نے اپنے ملک اور عوام کو تو کچھ نہیں دیا لیکن کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھارت کو امریکا اور بھارت کی''پکی'' دوستی دی ہے۔ مودی کے حق میں نعرے لگانے والوں کا دعویٰ ہے کہ اُن کی محنت سے بھارت اور امریکا حقیقی معنوں میں ''اِک مِک'' ہو گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر پچھلے سال مودی جی امریکا گئے تو ہیوسٹن کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں بھاری تعداد میں بھارت نژاد امریکیوں نے اُن کے اعزاز میں استقبالیہ دیا ۔ اس میں امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کو بھی مدعو کیا گیا ۔ مودی نے خود ٹرمپ کے حق میں نعرے لگائے اور لوگوں سے بھی لگوائے۔

اس منظر سے امریکی صدر کا دل باغ باغ ہوگیا کہ مفت میں اُنہیں ووٹر مل رہے تھے ۔ ہم نے دیکھا کہ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اسٹیڈیم میں ایک دوسرے سے گھٹ گھٹ جپھیاں بھی ڈالیں، یوں کہ من تُو شدم، تُو من شدی ۔ ہم یہاں پاکستان میں بیٹھے جل بھن رہے تھے ۔لگتا تھا بھارتی وزیر اعظم نے امریکا جا کر امریکی صدر کا دل لُوٹ لیا ہے ۔اس دلفریب منظر کے کچھ ماہ بعد ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے ۔ مودی کی موجودگی میں ٹرمپ کے '' دستِ مبارک''سے بھارت (احمد آباد) میں دُنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کا افتتاح کروایا گیا ۔اس مہنگی افتتاحیہ تقریب کا ''حسین'' پہلو یہ تھا کہ نریندر مودی مہمان امریکی صدر کے صدقے واری جا رہے تھے ۔

احمد آباداسٹیڈیم میں بھارتی وزیر اعظم نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک بار پھر جپھیاں ڈال کر سمجھا تھا کہ اُنہوں نے دُنیا کو گویا اپنی مُٹھی میں لے لیا ہے ۔ امریکی صدر کی یاری کو وہ اپنی سب سے بڑی سیاسی فتح خیال کر بیٹھے تھے ۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ امریکی صدر خواہ کوئی بھی ہو ، کسی کا یار نہیں ہوتا ۔ امریکی صدر اگر کسی کا یار اور دلدار ہوتا ہے تو صرف اپنے ملک کے مفادات کا یار اور اپنے سیاسی مفادات کا دلدار ہوتا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور امریکی صدر کا جب مفاد ختم ہوجاتا ہے تو وہ اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں ۔

اگر کوئی امریکیوں کے ملکی مفاد کی راہ میں ذرا سا حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے آنکھیں دکھانے میں بھی دیر نہیں کی جاتی۔ حالیہ ایام میںمودی جی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہُوا ہے ۔مودی ''صاحب '' کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے ، وہ ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ اُن کے ساتھ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی ششدر ہے ۔کورونا وائرس کی اس عالمی آفت میں مودی جی کو پہنچنے والا دھچکا ناقابلِ فراموش ہے ۔

کہا جاتاہے کہ ''ہائیڈرو کسی کلوروکین'' (Hydroxy Chloroquine)نامی دوا کورونا وائرس کووِڈ 19جراثیم کو ہلاک اور کورونا وائرس کے متاثرین کو صحتیاب کرنے میں قدرے معاون ثابت ہوتی ہے ۔ یہ محض ایک تصور ہے ۔ ابھی اس بارے کسی کو بھی یقین نہیں ہے ( یہ دوا مگر ملیریا کے مرض میں مبینہ طور پر شفا ثابت ہو رہی ہے) بھارت دُنیا کے اُن چند ایک ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جو بھاری مقدار میں ''ہائیڈروکسی کلوروکین'' بنانے میںسر فہرست ہیں۔ کئی ممالک کو بھارت یہ ''دوا'' ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔ امریکا بھی ان میں شامل ہے ۔

کورونا وائرس آفت پھیلی اور بھارت میں بھی اس کے متاثرین میں روز بروز اضافہ ہونے لگا تو بھارت نے اعلان کر دیا کہ ''چونکہ کورونا وائرس وبا کے کارن بھارت کو خود اپنے عوام کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکین کی از حد ضرورت ہے ، اس لیے فی الحال یہ کسی ملک کو نہیں دی جائے گی ۔''یہ اعلان پچھلے ماہ25مارچ کو کیا گیا تھا ۔ اُس وقت امریکا میں ابھی کورونا کی ہلاکت خیزیاں قیامت نہیں بنی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہوا کو تلواریں مارتے ہُوئے شیر بنے ہُوئے تھے۔ جونہی کورونا وائرس دن رات،برق رفتاری سے امریکیوں کو شکار کرنے لگا تو ٹرمپ صاحب کے ہاتھوں کے توتے بھی اُڑ گئے ۔ اِسی اثنا میں، اپریل 2020 کے پہلے ہفتے امریکا نے بھارت سے کہا کہ فوری طور پر اُسے ٹنوں میں ہائیڈروکسی کلوروکین ( جسے HCQبھی کہا جاتا ہے) فراہم کی جائے ۔

بھارت نے انکارکردیا، یہ کہہ کر کہ ہمیں خود اپنے گھر میں اس کی بہت ضرورت ہے ۔ ردِ عمل میں 6اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان میں کہا: بھارت نے اگرفوری طور پر امریکا کومطلوبہ مقدار میں ہائیڈروکسی کلوروکین فراہم نہ کی تو نتائج کا ذمے دار ہوگا ، انکار کی صورت میں امریکا ضرورRetaliateکرے گا۔

اس دھمکی پر مودی جی تو سناٹے میں آگئے۔ اُن کی ساری اکڑ اور ہیکڑی نکل گئی ۔ نادم بھی ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی ، نے تھوکا یوں چاٹا کہ ہائیڈروکسی کلوروکین پر عائد کی گئی پابندیاں اُٹھا لی گئیں ۔ ساتھ ہی بھارتی وزیر اعظم نے اپنے ''مہا دوست'' امریکی صدر سے یہ بھی کہا ، مائی باپ !تھوڑا سا صبر کیجیے ، ہائیڈروکسی کلوروکین بس آپ کے ہاں پہنچا ہی چاہتی ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جواباً مودی جی کا ''شکریہ'' بھی ادا کیا ہے ۔

امریکا سے ملنے والی پہلی باقاعدہ، ہلکی سی دھمکی کے سامنے بھارت ڈھے سا گیا ہے ۔ واقفانِ حال کہتے ہیںکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کو ایسی مزید دھمکیاں ملنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں ۔ عالمی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے ڈیفنس کے معاملات میں جس طرح امریکی ہارڈ ویئر پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا شروع کر دیا ہے ، امریکا کے سامنے اُس کی مجبوریاں بڑھتی جائیں گی ۔ یہ مجبوریاں ہی اُس کی کمزوری بن گئی ہیں۔ امریکا ان کمزوریوں کو بار بار ایکسپلائیٹ کرنے سے باز نہیں آئے گا ۔ پاکستان ایک طرف بیٹھ کر بھارت کی ان مجبوریوں کا لطف لے رہا ہے ۔

امریکا پر بھارت کا انحصار بھارتی خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہورہا ہے ۔ اس کا احساس بھارتی سیانوں کو بھی ہے ۔ کورونا وائرس کے پس منظر میں ''ہائیڈروکسی کلوروکین'' کے حوالے سے امریکی صدر کی طرف سے بھارت اور مودی جی کو جو دھمکی ملی ہے اور بھارت نے اس دھمکی کے سامنے جس طرح فوراً سرنڈر کر دیا ہے ، ساری دُنیا کے میڈیا میں اس کی بازگشت سنائی دی گئی ہے ۔خفت مٹانے کے لیے بھارتی وزارتِ خارجہ ، بھارتی وزیر خارجہ اور بھارتی سیکریٹری خارجہ بیانات دے رہے ہیں کہ بھارت نےHCQپر پابندیاں اُٹھا کر ''بنی نوع انسان کی خدمت'' بھی کی ہے اور سفارتی محاذ پر دُنیا کا دل بھی ''جیت'' لیا ہے ۔ سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ (کنوال سبل) اور امریکا میں متعین سابق ہندوستانی سفیر( للت مان سنگھ) ایسے لوگوں سے اِسی ضمن میں بیانات بھی دلوائے جا رہے ہیں ۔

حتیٰ کہ16اپریل کو خلیج کے ممتاز میڈیا ''الجزیرہ'' میں بھارتی صحافی ، آکاش بشت،کے نام سے ایک طویل آرٹیکل بھی شائع ہُوا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت نے امریکی صدر کی مبینہ دھمکی کے پیشِ نظر HCQپر لگائی گئی پابندیاں نہیں ہٹائیں بلکہ انسانی جان کی حرمت میں یہ اِقدام کیا ہے ، اور یہ کہ مودی جی کے اس فیصلے نے سفارتی سطح پر امریکا اور مغربی دُنیا کو ''فتح'' کر لیا ہے ۔ اس ''فتح'' کی مگر اصلیت تو کوئی مودی کے دل سے جا کر پوچھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں