یہ گرگٹ عوام کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے

ابتدا ہی میں اگر طبی ماہرین کو چین بھیجا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔


Zaheer Akhter Bedari April 20, 2020
[email protected]

دنیا کے اربوں انسان اپنی تاریخ کے جس بدترین اور خوفناک ترین دنوں سے گزر رہے ہیں، اس کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پچھلے تین مہینوں کے دوران انسان کا جو حشر ہوا ہے، اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے جو مستند زاویے سے حاصل ہوئے ہیں دنیا میں کورونا سے متاثرین کی تعداد اکیس لاکھ ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ بتائی جا رہی ہے۔ ویسے تو یہ وبا عالم گیر پیمانے پر آئی ہوئی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکا اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

اس خوفناک وبا سے دنیا کے اربوں انسان بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے ہیں دنیا بھر میں ہلاک شدگان اور متاثرین کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ متاثرین کے لیے ڈاکٹرز اور اسپتال کم پڑ گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کے لیے قبرستان کم پڑ گئے ہیں۔ دی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اسپتال میں بدل دیا گیا ہے اور دوسرے ملکوں میں اسکول، کالج وغیرہ کو بھی اسپتالوں میں بدل دیا گیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے الزام لگایا ہے کہ عالمی ادارہ کورونا کے پھیلاؤ چھپاتا رہا اور بدانتظامی کا مرتکب ہوتا رہا جس کی وجہ سے اتنا زیادہ نقصان ہوا۔

ابتدا ہی میں اگر طبی ماہرین کو چین بھیجا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ ایک طرف ٹرمپ امدادی کارروائیوں میں کوتاہی کی شکایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف ٹرمپ عالمی ادارہ صحت پر اس نقصان کی ذمے داری ڈال رہے ہیں۔ اور دوسری جانب دنیا کے ملکوں کی بڑی تعداد جس میں چین بھی شامل ہے ،کہہ رہے ہیں کہ یہ وقت امداد روکنے کا نہیں ہے۔ جرمنی نے کہا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ،دنیا کے دولت مند ترین انسان بل گیٹس نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے دنیا کی فنڈنگ روکنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت دنیا میں اس وبا اور اس سے ہونے والے نقصانات کو دانستہ چھپاتا رہا یا غیر ذمے داری کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا نہیں کیونکہ وائرس کے پھیلاؤ میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے اور اسی تناسب سے عوام کے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ادھر پاکستان میں سندھ حکومت لاک ڈاؤن کو اور سخت بنانا چاہتی ہے تو مرکزی حکومت اس حوالے سے نرمی کرنا چاہتی ہے۔

شرم کی بات یہ ہے کہ ملک کے 22 کروڑ عوام کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں اور ہم ان حوالوں سے جھگڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر دل ٹھنڈا کر رہے ہیں یا اپنی گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر بقول ٹرمپ عالمی ادارہ صحت نے غلطی کی ہے یا بدانتظامی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کا فی الوقت کوئی حل نہیں اب اگر ٹرمپ یا بل گیٹس WHO کی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایک تناؤ پیدا ہو گیا جو کام کرنے والوں کی یکسوئی کو متاثر کرے گا۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف ماہرین صحت سے مل کر اس مرض کی ویکسین تیار کرنے کی کوشش کریں، دوسری طرف دنیا کے پسماندہ عوام کی مالی مدد کریں جو روٹی سے محروم ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کے لیے روٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے وہ غریب عوام جنھیں ہماری اشرافیہ نے عشروں سے بھوک، پیاس کے حوالے کر رکھا ہے ،اسے اب احساس ہو رہا ہے کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ پچھلے دس بارہ سال سے اس اشرافیہ نے عوام کو لوٹ کر جو اربوں کی دولت جمع کی ہے، اسے باہر نکال کر غریب اور کورونا کے مارے ہوئے عوام کی مدد کریں۔

ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے بس اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں اور بھوکے عوام کے لیے روٹی کے انتظام کی انھیں فکر نہیں۔ غریب عوام ڈاکٹروں کی رائے اور تنبیہ کو نظرانداز کرکے محنت کی سرمایہ دارانہ منڈیوں میں ڈاکٹروں کی ہدایات کو بھلا کر اپنے طبقاتی بھائیوں کے ساتھ جڑ کر بیٹھے کسی کام دینے والے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں صرف اپنے بچوں کی بھوک کے علاوہ کسی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کا کوئی خیال نہیں۔ کنسٹرکشن کا کام کرانے کے لیے کوئی شخص محنت کی ان منڈیوں میں آتا ہے تو مکھیوں کی طرح اس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام نے جو طبقاتی نظام قائم کر رکھا ہے اس نظام نے انسان کو حیوان بنادیا ہے ایسے وقت جب عوام بھوک سے بے حال ہیں اربوں کی لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ (اس شخص عمران خان) کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے میں مصروف ہیں اور اس حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ عوام کو اب احساس ہو رہا ہے کہ انھیں دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ایک بار پھر ان کے ہمدرد بن کر انھیں دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ بل گیٹس کے وہ چیلے ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد بھولے عوام کی دولت کی لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ گرگٹ عوام کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں