آئین کی بالادستی کا نظریہ

آئین کی بالادستی کا نظریہ

گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے۔ اس بحث کا بنیادی نکتہ اور استدلال یہ ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ عوام کا نمایندہ ادارہ ہے لہٰذا اسے دیگر تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہے۔ یہ دراصل وہ نظریہ ہے جو انگلستان میں بادشاہ اور چرچ کے مابین کشمکش کے زمانے میں عوامی نمایندوں کی اتھارٹی کو تقویت دینے کی خاطر اختیار کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ہفتے کو کراچی رجسٹری میں سندھ ہائیکورٹ کے سولہ وکلا حضرات کو سپریم کورٹ میں پریکٹس کا لائسنس دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''آئین پارلیمنٹ سے بالا دست ہے''۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے ضمن میں جو اصحاب یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے لہٰذا وہ بالاتر ہے وہ اس موقع پر یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک آئین کے تحت وجود میں آنے والی پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ تو یقیناً ہوتی ہے مگر وہ آئین ساز ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے جو آئین سے متصادم یا متضاد ہو۔ اسی طرح آئین نے سپریم کورٹ کو تشریح کا حق دیا ہے.

پارلیمنٹ آئین کی تشریح نہیں کرسکتی۔ جس طرح پارلیمنٹ آئین سے متصادم قوانین نہیں بنا سکتی، اسی طرح سپریم کورٹ بھی آئین سازی نہیں کرسکتی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ ایک دوسرے سے بالا تر نہیں بلکہ آئین کی دی ہوئی حدود اور اختیارات کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل204 واضح کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص عدالت کے حکم سے روگردانی کرے' عدالت کو بدنام کرے یا کوئی ایسا عمل کرے جس سے عدالت کی توہین' تضحیک یا عداوت کا پہلو نکلتا ہو تو عدالت ایسے شخص کو سزا دینے کی مجاز ہے۔ انھوں نے ایک حالیہ مثال دیتے ہوئے بتایا کہ عدالتی فیصلے کی حکم عدولی کرنے پر ملک کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی گئی اور انھیں اپنا منصب چھوڑنا پڑا۔ چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کے مقدمے کے فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا تحریر کردہ اضافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ آئین کو ملک کے ہر ستون پر فوقیت حاصل ہے یعنی انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے اراکین تمام کے تمام آئین کے تابع ہیں۔


انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے قانون برابر ہے۔ ملکی اور غیر ملکی ہر شہری پر ملک کے آئین و قانون کی پاسداری لازم ہے۔ برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پارلیمان کی بالادستی کا تصور وہاں بھی اب رائج نہیں رہا جہاں کہ اس کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا بہتر ہو گا کہ آزادی کی چھ دہائیاں گزر جانے کے بعد ہماری قوم بھی برطانیہ کی متروک روایات اور نظریات کی ذہنی غلامی چھوڑ دے اور خود کو پاکستان کے آئین کا پابند بنائے۔ انھوں نے کہا آئین کا آرٹیکل2 اے عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اور عدالتیں بھی ملکی قانون کے تابع ہیں لہٰذا ملک میں آئین اور قانون کی ہی حکمرانی ہونی چاہیے۔ آرٹیکل 5 کے تحت ریاست سے وفاداری تمام شہریوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔ چیف جسٹس کا یہ اشارہ غالباً دہری شہریت کے معاملے پر چلنے والی بحث کی طرف تھا جس میں غیر ملکی شہریت حاصل کرنے والوں کو اُس ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اگر جن دو ممالک کی اس کے پاس شہریت ہے اگر ان میں کوئی تنازع ہو تو اس صورت میں دہری شہریت والا آخر دونوں میں سے کس ملک کے ساتھ اپنی وفاداری کا حلف نبھائے گا؟ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ آئین سے متصادم اقدامات کو اعلیٰ عدلیہ ختم کرتی رہی ہے لہٰذا یہ آئین ہی ہے جس پر عمل کرنا ہے جس کی حفاظت کرنا ہے اور جس کی پیروی کرنا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ آئین ججوں کی بنائی ہوئی دستاویز نہیں، یہ ملک کے 18 کروڑ عوام کی منشا کا مظہر ہے' اسی طرح توہین عدالت کا قانون بھی عدالتوں یا ججوں کی انا کی تسکین کے لیے نہیں ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے بہت سے ابہام دور کردیے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت موجود ہے اور جمہوری ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ بعض مقدمات کی وجہ سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان محاذ آرائی پیدا ہوئی۔ بعض معاملات پر ابھی تک کشیدگی کی صورتحال موجود ہے لیکن یہ امر خوش آیند ہے کہ سب کچھ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے لارڈ اسٹائن کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پارلیمانی بالادستی کا جوخالص اور مطلق العنان تصور ڈائسی نے پیش کیا تھا وہ تصور عہد حاضر کے برطانیہ میں بے محل ہے اور نہ ہی یہ تصور ہمارے آئین کے مزاج سے موافقت رکھتا ہے لہذا یہ تاثر غلط ہے کہ صرف منتخب نمایندے ہی عوام کی منشاء کے بلاشرکت غیرے ترجمان ہیں۔ اس اعتبار سے یہ منتخب نمایندے ریاست کے کسی بھی عضو بشمول عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں بلکہ عدلیہ بھی عوام کی منشا کا اظہار کرتی ہے۔ بہرحال یہ بہت پیچیدہ اور گنجلک بحث ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے جو دلائل دیے جارہے ہیں، ان میں بھی وزن ہے۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی اور اس پر عمل کرنے کا کلچر بتدریج جڑ پکڑے گا اور سارے مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوجائیں گے۔
Load Next Story