دریا آخر دریا ہوتے ہیں

یہ دریا بھرے ہوں تو کھیتیاں ہری بھری رہتی ہیں، اور سوکھ جائیں تو زندگی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے


یہ دریا بھرے ہوں تو کھیتیاں ہری بھری رہتی ہیں، اور سوکھ جائیں تو زندگی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ (تصاویر: وکی پیڈیا، بلاگر)

یادوں کے دریچوں سے جب بھی کبھی جھانکوں تو جہان خان کے نواح میں بہتے ایک برساتی نالے کے اونچے کناروں پر بھیڑ بکریاں چراتے چرواہے کی آواز اکثر ذہن میں گونجا کرتی ہے جو موسمِ گرما کی شِکر دوپہرے ریوڑ کو ہانکتا پرسوز انداز میں گایا کرتا:

چنگا ظلم کیتوئی
رول دیتوئی
وچ روہی
واہ ووہ سجن تیڈے وعدے

مٹی کے ٹیلوں کی مانند بلند کناروں کے بیچوں بیچ بہتے نالے کی جگہ کبھی دریائے بیاس اپنی پوری آب و تاب سے بہا کرتا تھا اور کناروں سمیت دور دور تک کے گاؤں اس کی لپیٹ میں آتے تھے۔ ہر طرف بس پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ بیاس کو مقامی زبان میں ویاہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اب یہ دریا اوجھل ہوچکا تھا۔ کناروں کے باہر حدِ نظر تک پھیلے کھیتوں میں کہیں کہیں ریت کی ڈھیریاں اور وسیع مناظر اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ یہاں کبھی دریا بہا کرتا تھا۔ لیکن اب اسی دریا کے پیٹ میں یا تو ہریالی تھی یا ویرانیوں کا راج؛ اور ان ویرانیوں میں چرواہے کی آواز بہت دور دور تک گونجا کرتی، جو اپنے سجن کے جھوٹے وعدوں کے شکوے کرتا ''ویاہ'' کے کناروں پر رُل رہا تھا۔ اس کی آواز میں ایسا درد تھا کہ یوں محسوس ہوتا جیسے یہ درد نالے کے پانیوں کے سنگ گیلی ریت میں بہتا چلا جاتا ہے اور چولستان کے صحراؤں کی خشک ریت تک جا پہنچتا ہے جہاں اس نالے کو مقامی زبان میں ''روہی'' کہا جاتا ہے۔ روہی میں رُل جانے کا رونا، بھارت اور پاکستان کے بارڈر سے چولستان کے صحراؤں تک جاری تھا۔



میں اس روز فیلڈ سروے پر تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ جس مقام پر کھڑا ہوں یہاں کبھی دریا بہا کرتا تھا، جس کے پانیوں کی دہشت کئی کلومیٹر دور تک موجود لوگوں کے دل دہلا دیا کرتی ہوگی۔ لیکن اب اس کی ریت میرے پاؤں تلے چرمرا رہی ہے۔ اپنے اس خیال پر میں بے اختیار مسکرایا۔ لیکن مجھے چرواہے کی آواز بار بار پریشان کر رہی تھی۔ میں کسی نہ کسی طرح آواز سے دھیان ہٹا کر لیول سیٹ کی مدد سے اپنا سروے کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، کہ اس دوران میری کوششوں پر کاری ضرب پڑی جب چرواہے نے اپنی لے بدل کر کوئی دوہڑا پڑھا۔ اس کے دوہڑے کے آخری الفاظ جب سماعت کے ساتھ ٹکرائے تو ہمت جواب دے گئی:

میری اڈدی ریت تے طنز نہ کر
دریا آخر دریا ہوندین

چرواہے کے یہ الفاظ میرے اس خیال پر تازیانے کی مانند برسے جو ریت کو جوتوں سے مسلتے وقت میرے ذہن میں آیا تھا۔ یہ پیغام تھا، جواب تھا، یا محض اتفاق۔



میں نے فوراً لیول سیٹ لپیٹا، کام کو سمیٹا اور کنارے کے بلند ٹیلے پر جا چڑھا جہاں تنِ تنہا کھڑے ایک کیکر کے نیچے چرواہا اپنے ریوڑ کو چھاؤں تلے جمع کر رہا تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ ایک بار پھر وہی دوہڑا گنگنائے جو آخری بار پڑھ رہا تھا۔ اس نے بلا تامل اپنا بایاں ہاتھ کان پر رکھا اور دائیں کو فضاء میں بلند کرکے جو تان کھینچی تو ایک لمحے کو یوں لگا جیسے وہ پاؤلو کوئیلو کا وہ چرواہا ہے جو صحرا کے بیچوں بیچ کھڑا اپنے اردگرد سے لاپرواہ ہو کر کائنات سے محوِ گفتگو ہے۔

سانگے ترٹن توں بعد وی سجناں نوں سجناں دے ڈھیر حیا ہوندن
جیڑھے ویہدن پچھلیاں نبھیاں نوں بندے ایہو جئے فیض دعنا ہوندن
بختاں دے مان تے سجن ونجائیں نی اے ویلے دا پرتا ہوندن
میڈی اڈدی ریت تے طنز نہ کر دریا آخر دریا ہوندن

(یاری ٹوٹ بھی جائے تو دوست کو دوستی کی حیا ہوتی ہے
جو اپنے پچھلے نبھائے وقت کو دیکھتا ہے، انسان وہی دانا ہوتا ہے
اچھے حالات کا مان کر کے دوستی نہ چھوڑ، حالات کبھی بھی بدل سکتے ہیں
میری اڑتی ہوئی ریت پر طنز نہ کرو، دریا آخر دریا ہوتا ہے)

آواز میں چھپا درد، الفاظ میں چھپی گہرائی اور آخری مصرعے کی کشش میرے تخیل کو بہائے لیے جاتی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ دریا واقعی دریا ہوتے ہیں۔ کناروں سے بہہ نکلیں تو بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ اپنی حدود میں رہیں تو ہر سو ہریالی پھیلا دیتے ہیں۔ اور سوکھنے پر آئیں تو بستیاں کیا تہذیبوں کا نام و نشان بھی مٹا دیتے ہیں۔

ان کے پانیوں میں چھپی خوبیوں کے رنگ ان باسیوں کی فطرت کا حصہ بن جایا کرتے ہیں جو دریا کنارے آباد ہوتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ دریائے خوشاب کنارے بسنے والے لوگ عاشق مزاج ہوتے ہیں؟ یہ وہی خوشاب ہے جس میں ماہیوال سے ملن کو ترستی سوہنی نے خود کو لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔

دریائے راوی، جو کہ تنگ گزرگاہ میں تیز رفتاری کے ساتھ بہتا ہے، اس کے پانیوں میں پڑنے والی ''گھَرلیاں'' اور پیچ در پیچ بل ایک عجب تاثر دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ راوی کنارے بسنے والے لوگوں کے من میں بھی اتنے ہی بل ہوتے ہیں جیسے راوی کی گزرگاہ میں ہیں۔ یہی نہیں، راوی کے پانیوں جیسی تندی اور تیزی اس کے باسیوں میں بھی ہوتی ہے۔ جس طرح راوی کم جگہ میں بھی شان سے بہتا ہے اسی طرح راوی کے باسی بھی کم وسائل کے باوجود شان سے رہنا پسند کرتے ہیں۔

راوی کے برعکس دریائے ستلج کی گزرگاہ بہت وسیع ہے اور اس کے پانی اتنے ہی کم رفتار اور پرسکون ہیں۔ شاید اسی لیے ستلج کنارے بسنے والے لوگ بہت وسیع القلب ہوتے ہیں۔

اور پھر ہمارا شیر دریا سندھ، جس میں یہ تمام دریا آ کر ملتے ہیں، جو سب کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سندھ کے پانیوں کو اگر ایک نام دیں تو وہ ہوگا ''مٹھاس۔'' شاید اسی لیے سندھ کنارے بسنے والے میٹھے اور دردِ دل رکھنے والے سچے لوگ ہیں۔

پنجاب میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ چناب عاشقاں، راوی راشکاں اور سندھ صادقاں۔ اوپر دی گئی مثالوں کو دیکھیں تو بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ راشک کا مطلب رکھ رکھاؤ رکھنے والے۔ اسی طرح جہلم، کنہار، گلگت الغرض وطن کے ہر دریا کی اپنی خاصیت اور اپنا مزاج ہے۔

یہ دریا بھرے ہوں تو کھیتیاں ہری بھری رہتی ہیں۔ اور سوکھ جائیں تو زندگی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال ستلج سے بیسیوں کلومیٹر دور جنوب کی جانب بہاولنگر میں وہ جگہ ہے جہاں ہزاروں سال پہلے کبھی دریائے گھاگھرا بہا کرتا تھا۔ جس کی گزرگاہ تک ناقابلِ شناخت ہو چکی ہے۔ لیکن اس کی پراسراریت آج بھی یہاں کے باسیوں کو پریشان کیے دیتی ہے۔ کوئی اسے سرسوتی کے نام سے پکارتا ہے کوئی گھگر (گھاگھرا)، تو کوئی اس کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ لیکن یہ وہی دریائے گھاگھرا ہے جو دنیا کی قدیم ترین ترقی یافتہ ہڑپہ تہذیب کا مسکن اور بقاء کا ضامن تھا۔ جب یہ سوکھا تو اپنے ساتھ تہذیب کو بھی دنیائے ہستی سے ہمیشہ کےلیے مٹا ڈالا۔

آثار قدیمہ کی اس بارے میں متضاد آراء ہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ ہڑپہ تہذیب کے مفقود ہونے میں بڑا کردار دریاؤں کا سوکھ جانا بھی ہے۔

میرا تخیل مجھے واپس موڑ کر اسی ویاہ کنارے لے آیا تھا جو خود کبھی ایک دریا ہوا کرتا تھا۔ اب تو پرانی گزرگاہ کی صورت بیاس کا نام زندہ ہے لیکن شاید وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے باسیوں کےلیے بیاس کا نام بھی ایک پراسرار ندی کی صورت اختیار کرجائے جو کہ ہر چند تھا بھی یا نہیں تھا۔ کون جانے کہ آنے والے دور میں لوگ یہ کہا کریں کہ اس دریا کنارے ایک تہذیب آباد تھی جو دریا کے سوکھنے کے بعد رفتہ رفتہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ میں نے ایک جھرجھری سی لی اور چرواہے کے الفاظ ایک بار پھر ذہن میں گونج اٹھے۔

میری اڈدی ریت تے طنز نہ کر
دریا آخر دریا ہوندین

یہ ایک جملہ نہیں، پیغام تھا جسے آباد کھیتیوں میں موجود نم آلود ریت پر سرسراتی ہوائیں صحراؤں میں بکھری خشک ریت تک اڑائے لیے جاتی تھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں