کورونا وائرس اور معاشی خطرات
عجیب لاک ڈاؤن ہے کہ درزی کی دکان کھلی اور کپڑوں کی دکانیں بند، پلمبر کی دکانیں کھلی ہیں اور سینٹری کی بند ہیں
پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں لاک ڈاؤن ہوئے ایک ماہ ہوچکا ہے۔ موجودہ صورتحال سے عوام کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی بوکھلائے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا کہ جیسے کورونا نے عوام پر نہیں بلکہ ملکی معیشت پر حملہ کردیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی طوالت کے سبب غربت اور بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور ملکی سیاست کو لاحق سنگین خطرات بھی بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں، جن کے مزید منفی اثرات آنے والے وقت پر مرتب ہوں گے۔
اس وقت ہر سیاسی جماعت اور ہر صوبہ انتظامی انتشار اور فکری خلفشار کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت قوم کو سیاسی جماعتوں کی بیان بازی سے کوئی غرض نہیں؛ البتہ اگر کوئی غرض ہے تو صرف اس بات سے کہ انہیں اپنے گھر کا چولہا کیسے جلانا ہے کیونکہ جو لوگ اس وقت بیان بازی سے کام لے رہے ہیں اور اس کڑے وقت میں بھی اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں ہیں۔ اگر اُنہیں ایک فیصد بھی عوامی مسائل کا اندازہ ہو تو وہ صرف بیان بازی سے کام نہیں لیں گے بلکہ اُن کے مسائل کو حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔ لیکن اس وقت حکومت اور اپوزیشن اپنی سیاسی بیان بازی میں تضادات اور عملی اقدام میں کنفیوزڈ دکھائی دے رہی ہے جس کے اثرات بھی قوم پر نظر آرہے ہیں اور قوم بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر جیسی سچویشن سے تنگ آچکی ہے۔
میں بحیثیت ایک پاکستانی یہ رائے دینا چاہوں گی کہ یہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں کو سر جوڑ کر ملک کو اس موجودہ سنگین صورتحال سے نکالنے کا سوچنا چاہیے کیونکہ دن بہ دن صورتحال بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کےلیے کچھ اہم اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ علمائے اکرام اب اپنا لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں کیونکہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حالات سے نمٹنے کےلیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہا ہے کہ پاکستان پر کورونا وائرس کی وجہ سے جو منفی اثرات پڑے ہیں، ان سے نبرد آزما ہونے کےلیے وزیراعظم ریلیف فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ مجھے وزیراعظم عمران خان کی یہ بات سن کر بے حد حیرت ہوئی۔
اب آپ سب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ حیرت کیوں ہوئی؟ میں اپنے قابل احترام وزیراعظم صاحب کو یاد دلاتی چلوں کہ اس وقت پاکستان سمیت ساری دُنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں ہے اور کابینہ میں موجود کسی بھی وزیر، کسی بھی معاون خصوصی نے یہ بیان جاری کروانے سے پہلے نہ تو شاید خود سوچا اور نہ ہی وزیراعظم صاحب کو یاد کروایا۔ یہ بات میں اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ بہت سے اوورسیز پاکستانی میرے رابطے میں ہیں اور وہ پچھلے ہفتے سے ہی اپنے مسائل کا اظہار ٹیلی فونک گفتگو میں کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ وہ بھی لاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور بہت سوں کو تو شاید واپس پاکستان ہی بھجوا دیا جائے۔
یہ صورتحال ہمارے لیے نہایت تشویش کا باعث ہے کہ وہ پاکستانی جو ذریعہ معاش کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں، اگر وہ بھی بے روزگاری کے باعث یا ویزا ختم ہوجانے یا کسی خاص وجہ سے پاکستان واپس آجاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں 30 کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔ میں اپنے قابل احترام وزیراعظم سے یہ کہنا چاہوں گی کہ ابھی وقت ہے، ذرا اس اہم نکتے پر ضرور سوچیے گا!
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مزدور پیشہ طبقات خصوصاً دیہاڑی دار اور سفید پوش لوگ اس وقت بھوک سے مر رہے ہیں۔ اب تو صورتحال اس قدر سنگین ہوتی جارہی ہے کہ وہ مریض جو کسی دوسری بیماری مثلاً شوگر، بلڈ پریشر یا امراضِ قلب میں مبتلا ہیں اور جنہیں روزانہ دوا کی ضرورت ہوتی ہے، اب تو وہ لوگ غذا کے ساتھ ساتھ دوا خریدنے کے بھی قابل نہیں رہے۔
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کےلیے حکومت نے جزوی طور پر لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے احکامات تو جاری کیے ہیں جن میں درزی، دھوبی، پلمبر وغیرہ کو کام کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ وہ اپنے گھر کا چولہا چلا سکیں۔ مگر یہاں پھر سے میں وزراء اور مشیران کی عقل کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکوں گی کہ درزی کی دکان کھلی اور کپڑوں کی دکانیں بند، پلمبر کی دکانیں کھلی ہیں اور سینٹری کی بند ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان باتوں کو زیر غور کیوں نہیں لایا جاتا یا شاید پھر کابینہ کے اجلاس میں بڑے بڑے عہدوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ڈسکس کرنا مناسب نہیں لگتا۔
اس وقت مزدور طبقہ اپنے گھروں میں بے کار بیٹھا ہے۔ دودھ اور گھر والوں کی روٹی کا سوال کورونا کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔ کورونا کی وجہ سے کاروباری ادارے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل خطرے میں دکھائی دے رہا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں 56 فیصد کاروباری اور تجارتی اداروں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہے اور سرمائے کی 46 فیصد قلت کا سامنا ہے۔ اگر صورتحال مزید یوں ہی رہی تو اگلے دس سال تک ملک کی صنعت کھڑی نہ ہوسکے گی۔ غریب طبقات اس وقت حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی تو حکمرانوں کو اس قدر فکر لاحق ہے، انہیں اس بات کا اندازہ کیوں نہیں کہ جب وہ گھروں میں بند رہیں گے تو ان کو راشن اور کھانا نہیں ملے گا تو وہ کھائیں گے کیا؟ لہذا حکومت کو باقی دکانوں کی طرح چھوٹے دکاندار کو بھی ایس او پیز کے تحت دکان کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ اُن کے گھروں کا چولھا بھی چل سکے اور حکومت پر بھی بوجھ کم ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس وقت ہر سیاسی جماعت اور ہر صوبہ انتظامی انتشار اور فکری خلفشار کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت قوم کو سیاسی جماعتوں کی بیان بازی سے کوئی غرض نہیں؛ البتہ اگر کوئی غرض ہے تو صرف اس بات سے کہ انہیں اپنے گھر کا چولہا کیسے جلانا ہے کیونکہ جو لوگ اس وقت بیان بازی سے کام لے رہے ہیں اور اس کڑے وقت میں بھی اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں ہیں۔ اگر اُنہیں ایک فیصد بھی عوامی مسائل کا اندازہ ہو تو وہ صرف بیان بازی سے کام نہیں لیں گے بلکہ اُن کے مسائل کو حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔ لیکن اس وقت حکومت اور اپوزیشن اپنی سیاسی بیان بازی میں تضادات اور عملی اقدام میں کنفیوزڈ دکھائی دے رہی ہے جس کے اثرات بھی قوم پر نظر آرہے ہیں اور قوم بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر جیسی سچویشن سے تنگ آچکی ہے۔
میں بحیثیت ایک پاکستانی یہ رائے دینا چاہوں گی کہ یہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں کو سر جوڑ کر ملک کو اس موجودہ سنگین صورتحال سے نکالنے کا سوچنا چاہیے کیونکہ دن بہ دن صورتحال بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کےلیے کچھ اہم اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ علمائے اکرام اب اپنا لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں کیونکہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حالات سے نمٹنے کےلیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہا ہے کہ پاکستان پر کورونا وائرس کی وجہ سے جو منفی اثرات پڑے ہیں، ان سے نبرد آزما ہونے کےلیے وزیراعظم ریلیف فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ مجھے وزیراعظم عمران خان کی یہ بات سن کر بے حد حیرت ہوئی۔
اب آپ سب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ حیرت کیوں ہوئی؟ میں اپنے قابل احترام وزیراعظم صاحب کو یاد دلاتی چلوں کہ اس وقت پاکستان سمیت ساری دُنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں ہے اور کابینہ میں موجود کسی بھی وزیر، کسی بھی معاون خصوصی نے یہ بیان جاری کروانے سے پہلے نہ تو شاید خود سوچا اور نہ ہی وزیراعظم صاحب کو یاد کروایا۔ یہ بات میں اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ بہت سے اوورسیز پاکستانی میرے رابطے میں ہیں اور وہ پچھلے ہفتے سے ہی اپنے مسائل کا اظہار ٹیلی فونک گفتگو میں کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ وہ بھی لاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور بہت سوں کو تو شاید واپس پاکستان ہی بھجوا دیا جائے۔
یہ صورتحال ہمارے لیے نہایت تشویش کا باعث ہے کہ وہ پاکستانی جو ذریعہ معاش کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں، اگر وہ بھی بے روزگاری کے باعث یا ویزا ختم ہوجانے یا کسی خاص وجہ سے پاکستان واپس آجاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں 30 کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔ میں اپنے قابل احترام وزیراعظم سے یہ کہنا چاہوں گی کہ ابھی وقت ہے، ذرا اس اہم نکتے پر ضرور سوچیے گا!
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مزدور پیشہ طبقات خصوصاً دیہاڑی دار اور سفید پوش لوگ اس وقت بھوک سے مر رہے ہیں۔ اب تو صورتحال اس قدر سنگین ہوتی جارہی ہے کہ وہ مریض جو کسی دوسری بیماری مثلاً شوگر، بلڈ پریشر یا امراضِ قلب میں مبتلا ہیں اور جنہیں روزانہ دوا کی ضرورت ہوتی ہے، اب تو وہ لوگ غذا کے ساتھ ساتھ دوا خریدنے کے بھی قابل نہیں رہے۔
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کےلیے حکومت نے جزوی طور پر لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے احکامات تو جاری کیے ہیں جن میں درزی، دھوبی، پلمبر وغیرہ کو کام کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ وہ اپنے گھر کا چولہا چلا سکیں۔ مگر یہاں پھر سے میں وزراء اور مشیران کی عقل کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکوں گی کہ درزی کی دکان کھلی اور کپڑوں کی دکانیں بند، پلمبر کی دکانیں کھلی ہیں اور سینٹری کی بند ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان باتوں کو زیر غور کیوں نہیں لایا جاتا یا شاید پھر کابینہ کے اجلاس میں بڑے بڑے عہدوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ڈسکس کرنا مناسب نہیں لگتا۔
اس وقت مزدور طبقہ اپنے گھروں میں بے کار بیٹھا ہے۔ دودھ اور گھر والوں کی روٹی کا سوال کورونا کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔ کورونا کی وجہ سے کاروباری ادارے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل خطرے میں دکھائی دے رہا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں 56 فیصد کاروباری اور تجارتی اداروں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہے اور سرمائے کی 46 فیصد قلت کا سامنا ہے۔ اگر صورتحال مزید یوں ہی رہی تو اگلے دس سال تک ملک کی صنعت کھڑی نہ ہوسکے گی۔ غریب طبقات اس وقت حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی تو حکمرانوں کو اس قدر فکر لاحق ہے، انہیں اس بات کا اندازہ کیوں نہیں کہ جب وہ گھروں میں بند رہیں گے تو ان کو راشن اور کھانا نہیں ملے گا تو وہ کھائیں گے کیا؟ لہذا حکومت کو باقی دکانوں کی طرح چھوٹے دکاندار کو بھی ایس او پیز کے تحت دکان کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ اُن کے گھروں کا چولھا بھی چل سکے اور حکومت پر بھی بوجھ کم ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔