راشن کی تقسیم پر سیاسی جنگ آخرکب تک جاری رہے گی
سندھ کے مختلف پسماندہ علاقوں میں رہنے والے آج بھی کسی مسیحا کے منتظر دکھائی دیتے ہیں
KARACHI:
عالمی وبا کرونا وائرس کے پاکستان میں پھیلاؤ کے باعث حالیہ دنوں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آپس میں گتھم گتھا دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جانب جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی حلقوں کی جانب سے شہر میں لاک ڈاؤن کے دورانیے میں تقسیم کیے جانے والے راشن کے طریقہ کار پر شدید تنقید کا سامنا ہے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دیہاڑی دار طبقے کےلیے ہنگامی طور پر فعال کیے جانے والے احساس پروگرام کے تحت دی جانے والی رقم میں بندر بانٹ کا انکشاف سامنے آنے پر مذکورہ پروگرام بدعنوانی کی نذر ہوتا دکھا ئی دے رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کی آپس کی لڑائی میں حالیہ دنوں حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ہر ممکن کوششیں شروع کردی ہیں جس پر عوامی حلقوں کی جانب سے انہیں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس کی زندہ مثال رنچھوڑ لائن میں متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندگان کی جانب سے یو سی میں راشن تقسیم میں ہونے والی بدنظمی سے منسوب کی جا سکتی ہے جس میں شہر قائد پر حکمرانی کی دعویدار جماعت کو اپنے گھروں میں راشن ذخیرہ کرنے پرعوام کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا اور عوامی دھاوے پر خود کو مسیحا کا لقب دینے والے منہ کی کھانے پر مجبور ہوگئے۔
سیاسی جماعتوں میں تناؤ کا آغاز صوبے میں لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کی امداد کےلیے جاری کیے جانے والے سب سے پہلے ریلیف پیکیج سے ہوا جس میں سندھ حکومت کی جانب 58 کروڑ کے راشن تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کیے جانے کو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ صوبے میں 1131 یونین کونسلز اور 255 یونین کمیٹیز کے ذریعے 2 لاکھ 23 ہزار 597 افراد میں راشن تقسیم کرنے کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ اس بابت تمام تر ڈپٹی کمشنرز کو ہر یو سی کےلیے 150 راشن بیگ فراہم کرنے کی ہدایات دی گئیں تھیں، جس پر عملدرآمد کرانے میں سندھ حکومت بھی ناکامی سے دو چار رہی اور راشن بیگ کی تقسیم کی ذمہ داری بلدیاتی نشستوں پر شکست حاصل کرنے والے علاقائی عہدیداران کو سونپ دی گئی جو سماجی کاموں کو خیرباد کہہ کر سیاست چمکاتے دکھا ئی دیئے۔ اس پر متحدہ قومی موومنٹ نے فوری طور پر حکومت کے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا اور یوں ابتدائی پہلو میں ہی راشن تقسیم کی شفافیت پر کئی بد نما داغ لگ گئے۔ بعد ازاں راشن کی تقسیم کے نام پر سندھ سرکار کی جانب سے صوبے کےلیے اربوں روپے کے راشن پیکیج تو جاری کیے گئے مگر اس کے نتائج تاحال سامنے نہیں آسکے ہیں۔
سندھ میں ہونے والی لوٹ مار کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ وفاقی حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کو ترجیح دینے کو ضروری قرار دیا اور یوں پاکستان میں دیہاڑی دار طبقے کےلیے احساس پروگرام کا انعقاد ہوگیا جو کرپشن سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ایجنٹ مافیا نے مختلف دیہی علاقوں میں پروگرام پر بدعنوانی کی چھاپ لگانے میں کوئی موقع نہ چھوڑنے کو ضروری قرار دیا ہے جس کے تحت 12000روپے کی امدادی رقم میں سے 1000 سے 2000 روپے کمیشن وصولی جاری ہے۔ اس پر سندھ حکومت نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے 30 لاکھ خاندانوں میں 40 ارب سے زائد رقم کی تقسیم پر کئی سوالیہ نشان داغ دیئے ہیں۔
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ موقع اور مناسبت دیکھ کر صوبے کے مختلف شہروں میں نت نئی این جی اوز شہریوں کی امداد کےلیے آہستہ آہستہ نمودار ہوتی دکھائی دیں، جنہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ایک پیج پر نہ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا اور سندھ کے مختلف شہروں میں سرگرم ہو چکی ہیں۔
اس بابت کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو حالیہ دنوں سندھ میں عرصہ دراز سے خدمات انجام دینے والی این جی اوز کے مدِمقابل جعلی این جی اوز کی ایک بڑی تعداد نہایت فعال دکھائی دیتی ہے جو شہر کے مختلف علاقوں میں حکومتی اجازت نامہ حاصل کیے بغیر نہ صرف معصوم شہریوں سے فنڈز وصول کر رہی ہیں بلکہ ان کی آ نکھوں دھول جھونک کر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
اس ضمن میں اگر شہر قائد پر نظر دوڑائی جائے تو دیگر شہروں کے مدِمقابل جعلی این جی اوز، مافیا کی صورت میں خدمت کے جذبے کی منظر کشی کرتی دکھائی دیتی ہیں، جسے سندھ حکومت کی جانب سے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ دن دیہاڑے فلاحی کاموں کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ شہر میں جعلی این جی اوز کو زمین بوس کرنے اور عوامی حلقوں سے ان کی فنڈنگ رکوانے کےلیے چند ماہ قبل محکمہ سماجی بہبود کو سالانہ آڈٹ رپورٹ نہ جمع کرانے والی 5 ہزار سے زائد این جی اوز پر پابندی عائد کی گئی تھی جن میں سے کئی این جی اوز رجسٹریشن منسوخی کے بعد بھی حالیہ دنوں سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے فنڈنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں جن کی روک تھام سے متعلق کسی قسم کے اقدامات اٹھانا غیر ضروری سمجھا جارہا ہے۔ اس لیے آئندہ چند روز میں مزید جعلی این جی اوز کے وجود میں آ نے کا خدشہ ہے۔
کراچی سمیت سندھ کے مختلف پسماندہ علاقوں میں رہنے والے آج بھی کسی مسیحا کے منتظر دکھائی دیتے ہیں اور اپنے پرانے حکمرانوں کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے سخت مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد وہ وزیر اعظم پاکستان کی اعلان کردہ ٹائیگر فورس سے امیدیں وابستہ کرچکے ہیں جس میں سندھ سے ایک لاکھ 46 ہزار نوجوان رجسٹر ہوچکے ہیں جو عالمی وبا سے لڑنے میں نہ صرف مدد فراہم کریں گے بلکہ مستحق افراد میں راشن کی تقسیم کےلیے اپنی خدمات بروئے کار لائیں گے۔
وزیراعظم پاکستان کی اعلان کردہ ٹائیگر فورس تاحال فعال نہیں ہو سکی ہے جس کے رواں ہفتے مکمل طور پر فعال ہونے کا اندیشہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عالمی وبا کرونا وائرس کے پاکستان میں پھیلاؤ کے باعث حالیہ دنوں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آپس میں گتھم گتھا دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جانب جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی حلقوں کی جانب سے شہر میں لاک ڈاؤن کے دورانیے میں تقسیم کیے جانے والے راشن کے طریقہ کار پر شدید تنقید کا سامنا ہے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دیہاڑی دار طبقے کےلیے ہنگامی طور پر فعال کیے جانے والے احساس پروگرام کے تحت دی جانے والی رقم میں بندر بانٹ کا انکشاف سامنے آنے پر مذکورہ پروگرام بدعنوانی کی نذر ہوتا دکھا ئی دے رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کی آپس کی لڑائی میں حالیہ دنوں حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ہر ممکن کوششیں شروع کردی ہیں جس پر عوامی حلقوں کی جانب سے انہیں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس کی زندہ مثال رنچھوڑ لائن میں متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندگان کی جانب سے یو سی میں راشن تقسیم میں ہونے والی بدنظمی سے منسوب کی جا سکتی ہے جس میں شہر قائد پر حکمرانی کی دعویدار جماعت کو اپنے گھروں میں راشن ذخیرہ کرنے پرعوام کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا اور عوامی دھاوے پر خود کو مسیحا کا لقب دینے والے منہ کی کھانے پر مجبور ہوگئے۔
سیاسی جماعتوں میں تناؤ کا آغاز صوبے میں لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کی امداد کےلیے جاری کیے جانے والے سب سے پہلے ریلیف پیکیج سے ہوا جس میں سندھ حکومت کی جانب 58 کروڑ کے راشن تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کیے جانے کو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ صوبے میں 1131 یونین کونسلز اور 255 یونین کمیٹیز کے ذریعے 2 لاکھ 23 ہزار 597 افراد میں راشن تقسیم کرنے کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ اس بابت تمام تر ڈپٹی کمشنرز کو ہر یو سی کےلیے 150 راشن بیگ فراہم کرنے کی ہدایات دی گئیں تھیں، جس پر عملدرآمد کرانے میں سندھ حکومت بھی ناکامی سے دو چار رہی اور راشن بیگ کی تقسیم کی ذمہ داری بلدیاتی نشستوں پر شکست حاصل کرنے والے علاقائی عہدیداران کو سونپ دی گئی جو سماجی کاموں کو خیرباد کہہ کر سیاست چمکاتے دکھا ئی دیئے۔ اس پر متحدہ قومی موومنٹ نے فوری طور پر حکومت کے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا اور یوں ابتدائی پہلو میں ہی راشن تقسیم کی شفافیت پر کئی بد نما داغ لگ گئے۔ بعد ازاں راشن کی تقسیم کے نام پر سندھ سرکار کی جانب سے صوبے کےلیے اربوں روپے کے راشن پیکیج تو جاری کیے گئے مگر اس کے نتائج تاحال سامنے نہیں آسکے ہیں۔
سندھ میں ہونے والی لوٹ مار کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ وفاقی حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کو ترجیح دینے کو ضروری قرار دیا اور یوں پاکستان میں دیہاڑی دار طبقے کےلیے احساس پروگرام کا انعقاد ہوگیا جو کرپشن سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ایجنٹ مافیا نے مختلف دیہی علاقوں میں پروگرام پر بدعنوانی کی چھاپ لگانے میں کوئی موقع نہ چھوڑنے کو ضروری قرار دیا ہے جس کے تحت 12000روپے کی امدادی رقم میں سے 1000 سے 2000 روپے کمیشن وصولی جاری ہے۔ اس پر سندھ حکومت نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے 30 لاکھ خاندانوں میں 40 ارب سے زائد رقم کی تقسیم پر کئی سوالیہ نشان داغ دیئے ہیں۔
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ موقع اور مناسبت دیکھ کر صوبے کے مختلف شہروں میں نت نئی این جی اوز شہریوں کی امداد کےلیے آہستہ آہستہ نمودار ہوتی دکھائی دیں، جنہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ایک پیج پر نہ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا اور سندھ کے مختلف شہروں میں سرگرم ہو چکی ہیں۔
اس بابت کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو حالیہ دنوں سندھ میں عرصہ دراز سے خدمات انجام دینے والی این جی اوز کے مدِمقابل جعلی این جی اوز کی ایک بڑی تعداد نہایت فعال دکھائی دیتی ہے جو شہر کے مختلف علاقوں میں حکومتی اجازت نامہ حاصل کیے بغیر نہ صرف معصوم شہریوں سے فنڈز وصول کر رہی ہیں بلکہ ان کی آ نکھوں دھول جھونک کر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
اس ضمن میں اگر شہر قائد پر نظر دوڑائی جائے تو دیگر شہروں کے مدِمقابل جعلی این جی اوز، مافیا کی صورت میں خدمت کے جذبے کی منظر کشی کرتی دکھائی دیتی ہیں، جسے سندھ حکومت کی جانب سے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ دن دیہاڑے فلاحی کاموں کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ شہر میں جعلی این جی اوز کو زمین بوس کرنے اور عوامی حلقوں سے ان کی فنڈنگ رکوانے کےلیے چند ماہ قبل محکمہ سماجی بہبود کو سالانہ آڈٹ رپورٹ نہ جمع کرانے والی 5 ہزار سے زائد این جی اوز پر پابندی عائد کی گئی تھی جن میں سے کئی این جی اوز رجسٹریشن منسوخی کے بعد بھی حالیہ دنوں سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے فنڈنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں جن کی روک تھام سے متعلق کسی قسم کے اقدامات اٹھانا غیر ضروری سمجھا جارہا ہے۔ اس لیے آئندہ چند روز میں مزید جعلی این جی اوز کے وجود میں آ نے کا خدشہ ہے۔
کراچی سمیت سندھ کے مختلف پسماندہ علاقوں میں رہنے والے آج بھی کسی مسیحا کے منتظر دکھائی دیتے ہیں اور اپنے پرانے حکمرانوں کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے سخت مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد وہ وزیر اعظم پاکستان کی اعلان کردہ ٹائیگر فورس سے امیدیں وابستہ کرچکے ہیں جس میں سندھ سے ایک لاکھ 46 ہزار نوجوان رجسٹر ہوچکے ہیں جو عالمی وبا سے لڑنے میں نہ صرف مدد فراہم کریں گے بلکہ مستحق افراد میں راشن کی تقسیم کےلیے اپنی خدمات بروئے کار لائیں گے۔
وزیراعظم پاکستان کی اعلان کردہ ٹائیگر فورس تاحال فعال نہیں ہو سکی ہے جس کے رواں ہفتے مکمل طور پر فعال ہونے کا اندیشہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔