کورونا اور یونیسف کی درد انگیز رپورٹ

کوروناوائرس نے عالمی سیاست،سماج اورمعیشت کی بنیادیں ہلادیں،لیکن ہمارے حکمراں ابھی تک سانپ سیڑھی کے کھیل میں مصروف ہیں۔


Editorial April 21, 2020
کوروناوائرس نے عالمی سیاست،سماج اورمعیشت کی بنیادیں ہلادیں،لیکن ہمارے حکمراں ابھی تک سانپ سیڑھی کے کھیل میں مصروف ہیں۔ فوٹو، فائل

کورونا کا داخلی اور عالمی تناظر صرف ایک نقطہ پر متفق ہے اور وہ ہے سماجی فاصلہ برقرار رکھنا، گھر پر رہنا اور بے ہنگم نقل وحمل سے گریز کرنا۔ دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر ویکسین اور موثر دوا کی تحقیق اور ایجاد حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور دو بڑی طاقتوں امریکا اور چین میں لفظی جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، چین کا کہنا ہے کہ امریکا سیاست سے گریز کرے، صدر ٹرمپ نے انتباہ دیا ہے کہ چین نے اگر کورونا پھیلایا ہے تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

لیکن کورونا کا پیدا شدہ بحران انسانی صحت اور معیشت کی زبوں حالی کے گرد گھوم رہا ہے، دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں اتھل پتھل ہورہی ہیں، طاقتور ممالک لاک ڈاؤن میں نرمی اور وائرس کی بے تحاشہ ہلاکتوں کے درمیان سماجی، معاشی اور سیاسی توازن تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں، انسانیت کو بچانے اور اقتصادی کساد بازاری کے خطرہ کو روکنا بھی ان کا سب سے بڑا درد سر ہے۔

اسی کے درمیان دنیا مستقبل کے منظرنامہ یعنی ''پوسٹ کورونا '' کے ادراک کے اہم چیلنجز پر بھی توانائیاں صرف کرنے پر کمربستہ ہے، یہ صرف پاکستان کو درپیش صورتحال نہیں گلوبل معاملہ ہے جس میں ہر ملک کے ایثار پسند، درد مند اور رحمدل مسیحا، ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور سیاسی قیادتوں کا کردار اہم اور فیصلہ کن ہوگا۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت سے توقعات وابستہ کرنے کی خوش فہمی کا جو ہوا سو سوا اس پر تنازعہ تو اس بات پر شروع ہوچکا کہ ایک طرف بل گیٹس نے 2015 میں کہا تھا کہ انسانیت کو سب سے زیادہ خطرہ جوہری جنگ سے نہیں بلکہ کسی وبائی وائرس سے لاحق ہوگا، یہی انکشاف سابق صدر بارک اوباما نے کیا تھا اور انھوں نے یہ انکشاف کورونا وائرس کی تباہ کاری کی شکل میں کیا تھا۔

مگر دنیا کی سیاسی اور بالادست طاقتوں نے ان کے اندیشوں اور انتباہات کو مسترد کیا، جس کا نتیجہ آج دنیا میں کورونا کے لاکھوں مریض بھگت رہے ہیں۔ملک میں کورونا سے ایک ہی دن میں18افراد چل بسے، اموات166 ہوگئیں، متاثرین بھی8 ہزار بڑھ گئے۔ مریضوں کی تعداد8275 ہوگئی،1912 صحتیاب جب کہ پنجاب 3686، سندھ2537، کے پی کے1137، بلوچستان 432، اسلام آباد 171، گلگت بلتستان 263 اور آزاد کشمیر میں 49 مریض ریکارڈ ہوئے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اسد عمر کی زیر صدارت اتوار کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ این سی او سی حکام کے مطابق اجلاس میں کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ کے لیے سماجی فاصلے اور طے شدہ گائیڈ لائنز پر مؤثر عملدرآمد، مقامی طور پر تیار ہونے والے طبی آلات کی استعداد کار بڑھانے سمیت دیگر امور پر غور کیا گیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو مؤثر عوامی آگاہی مہم کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے، سماجی فاصلہ اور ایس او پیز پر عملدرآمد ہی اس وباء کی روک تھام میں مؤثر کردار کر سکتا ہے۔ انھوں نے تجویز دی کہ مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے میڈیکل آلات کی استعداد بڑھانے کے لیے بین الوزارتی گروپ تشکیل دیا جائے جس میں وزارت صنعت و پیداوار کو بھی شامل کیا جائے۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی تشخیص کی ٹیسٹنگ صلاحیت کو بڑھا کر ''اسمارٹ لاک ڈاؤن'' کی طرف جا رہے ہیں، صنعتیں اور فیکٹریاں مرحلہ وار کھولی جا رہی ہیں، عوام سے اپیل ہے کہ کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ کے لیے ایس او پی پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں۔ وہ اتوار کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) میں کورونا وائرس سے متعلق اعداد و شمار کے حوالہ سے بریفنگ دے رہے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لوگ نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں گے تو بندشوں میں مرحلہ وار نرمی ممکن ہوسکے گی۔ انھوں نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئیٹر پر عوام کے لیے جاری بیان میں کہا کہ مرض کے دوران سماجی دوری کو لازمی بنائیں، اور جس حد تک ممکن ہو گھروں پر رہیں۔ وزیراعظم کی رائے صائب ہے مگر زمینی حقائق پر شاید حکمرانوں کی نظر نہیں، ابھی تک وفاق اور سندھ حکومت کے مابین سیز فائر نہیں ہوسکا، اسمارٹ لاک ڈاؤن کے تجربات سے کس حد تک استفادہ ہوگا یہ بھی آیندہ چند روز میں معلوم ہوجائے گا، پابندیوں سے مستثنیٰ کاروبار و صنعتوں کے لیے کسی انڈر ٹیکنگ کی ضرورت نہیں، سندھ حکومت نے تاجروں کے لیے ریلیف کا اعلان کیا ہے، صنعتی وکاروباری سرگرمیوں کے لیے این او سی کی شرط ختم کی گئی ہے۔

کمشنر کراچی کے نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی میں کاروبار کھولنے کا پلان بھی تیار ہے، کاروبار کی نوعیت کے لحاظ سے13شعبے 3درجوں میں تقسیم اور ہر درجے میں شامل شعبے ہفتے میں2 روز کے لیے کھولے جائیں گے، شو رومز، مکینک، پرزہ جات کی دکانیں، ڈینٹر، پینٹرز، اور آٹو سیکٹر سے متعلق تمام دکانیں و بازار ایک شعبہ تصور ہونگے۔ بتایا جاتا ہے کہ333 کمپنیوں کو سینیٹائزر بنانے کی اجازت مل گئی، مزید براں کراچی میں 35 برآمدی صنعتوں کو کام کرنے کی اجازت دی جاچکی ہے، گوادر بندرگاہ سے افغان ٹرانزٹ تجارت کی اجازت کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا ہے۔ کورونا سے نادرا کا ادارہ مالی بحران کا شکار ہوگیا ہے، ادارہ میں رائٹ سائنزگ ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سندھ حکومت نے ٹائیگر فورس کو ریلیف سرگرمیوں میں شامل کرنے سے صاف انکار کردیا، پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کا کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس سیاسی جماعت نہیں، پاکستان کی فورس ہے، حکومت نے احساس پروگرام میں یہ نہیں دیکھا کہ کہ مستحق کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے۔ تاہم یہ اطلاع افسوس ناک ہے کہ شہر قائد میں لاک ڈاؤن کو شہریوں نے مذاق بنالیا ہے، بیشتر علاقوں میں لوگوں نے ٹولیوں کی شکل میں گھومنا پھرنا اور دیر تک گلیوں میں بیٹھنا معمول بنالیا ہے، شہری ڈبل سواری کی پابندی پر سخت برہم ہیں، ملک کے تاجروں نے 3 دن میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دیدی، مرکزی تنظیم تاجران پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا سے کاروبار تباہ ہوا، ذخیرہ اندوزی آرڈینینس واپس لیا جائے۔

حکومت کا استدلال ہے کہ ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھا کر اسمارٹ لاک ڈاؤن کے اچھے نتائج نکلیں گے، لیکن اپوزیشن اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں پیدا شدہ کشیدگی اور بلیم گیم کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت نہیں ہونگے بلکہ اس سے دنیا میں غلط پیغام جائے گا، اس وقت ضرورت اتحاد، یکجہتی، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کی ہے، انسانیت کی خدمت کے لیے تمام سیاسی قوتیں ایک پیج پر آجائیں۔

اقوام متحدہ کے چلڈرنز فنڈ (یونیسف) کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے نصف ارب بچے دوپہر کے کھانے سے محروم ہیں،60 فیصد بچے ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں لاک ڈاؤن، اسکول بند اور تازہ ہوا میں سانس نہیں لے سکتے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہورہے ہیں، جس کے اثرات ان کی آیندہ زندگی میں ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ یہ اندوہ ناک حقائق سیاسی قیادتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

روسی حکومت نے کورونا کے خاتمے، اور صحت کی سہولتوں کے لیے485 ملین ڈالر پیکیج کی منظوری دی ہے، یہ رقم آلات کی خریداری، اور اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال ہوگی، صدر پوتن نے کہا کہ مختلف علاقے انسداد کورونا سرگرمیوں کے لیے اضافی امداد کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور افریقی رہنماؤں نے کہا ہے کہ براعظم افریقہ کو70 ارب ڈالر موصول ہوچکے مگر مزید 44 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں ایک لاکھ 64 ہزار716 جب کہ یورپ میں ایک لاکھ سے بڑھ گئیں، کئی امریکی ریاستوں میں لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے کیے گئے، وہاں فوڈ بینکس کے باہر بھوکے، بے روزگار شہریوں کی قطاریں لگ گئیں، وائرس سے2 کروڑ20 لاکھ امریکی بیروزگار ہوچکے ہیں، وہ اس صورتحال سے گھبرا رہے ہیں کہ گھر کا کرایہ دیں یا خوراک کا بندوبست کریں، فوڈ بینکس اور خیراتی اداروں کو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال سے نمٹنے میں مشکلات ہونگی، امریکی کانگریس نے موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے2.2 کھرب ڈالر کا ریلیف پیکیج منظور کرلیا۔ امریکا میں آج سے مرحلہ وار لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے سینئر وزیر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن میں مزید تین ہفتوں کی توسیع کردی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس نے عالمی سیاست، سماج اور معیشت کی بنیادیں ہلادی ہیں، لیکن ہمارے حکمراں ابھی تک سانپ سیڑھی کے کھیل میں مصروف ہیں، فروعی باتوں پر جھگڑ رہے ہیں، کہیں ٹائیگر فورس پر اختلاف ہے تو کہیں کاروبار بند کرنے، رمضان اور لاک ڈاؤن میں نرمی لانے پر اتفاق رائے کا فقدان ہے حالانکہ ضرورت ایک مربوط اور متفقہ لاک ڈاؤن بیانیہ کی ہے، سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کپاس کی طرح نرم وملائم ہے، ملک میں غریبوں کے لیے کوئی سماجی و معاشی بہبود کا سسٹم نہیں، جو گھر میں بند ہیں ان کے لیے خوراک کی فراہمی کا کوئی ملک گیر میکنزم نہیں۔ خدارا اس طرف توجہ دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |