ذخیرہ اندوزوں کے لیے صرف’’آرڈیننس‘‘

ہمارے ملک میں ایک طبقہ ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتا رہتا ہے لیکن قانون کی حکمرانی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔


[email protected]

ارسطو نے کہا تھا قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں حشرات یعنی چھوٹے اور کمزور جانور ہی پھنستے ہیں، بڑے اور طاقتور جانور اسکو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں، اس ملک کا قانون بھی مکڑی کا جالا ہے یہاں ٹماٹر چور، سائیکل چور روٹی چور ہی پکڑے جاتے ہیں جب کہ طاقتور قتل عام کرکے بھی بے گناہ ٹھہرتے ہیں، اس نظام میں آج تک کسی بڑے طاقتور کو سزا نہیں ملی، مگر کمزور اور غریب عوام کا ایک بڑا حصہ اس وقت ملک بھر کی زندان میں قید بے یقینی اور بے آسرا و بے بسی کی کیفیت میں زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔

میں نے اپنی صحافتی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان قیدیوں کی رپورٹنگ کرتے گزارا ہے ، مجھ سے زیادہ ان قیدیوں کے متعلق شاید ہی کوئی جانتا ہوگا، یقین مانیں کہ ملک کے 50فیصد سے زائد قیدی بے گناہ قید کاٹ رہے ہیں۔ صنعت کار حضرات کا جب دل چاہتا ہے کہ انھیں زیادہ منافع ملے وہ چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں، پھر جیسے حال ہی میں چینی اور آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کرکے سبسڈی بھی حاصل کی گئی اور عوام سے ناجائز منافع بھی کمایا گیا، ماضی میں بھی چینی آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اربوں روپے کمائے جاتے رہے۔

اور کورونا وباء کے پیش نظر، ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، ادویات اور میڈیکل آلات اچھے خاصے مہنگے کر دیے گئے جس سے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلنگ کرنے والوں کی ایک بار پھر چاندی ہوگئی۔

اسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی ٹیم نے ''انسداد ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ آرڈیننس'' متعارف کروایا ہے اور کہا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں اور اسمگلنگ کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ آرڈیننس کے مطابق 32 اشیاکی ذخیرہ اندوزی پر کارروائی ہوگی، ان 32 اشیا میں چائے، چینی، دودھ، پاوڈر دودھ، نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ اور کھانا، خوردنی تیل، سوڈا، پھلوں کا رس، نمک، آلو، پیاز، دالیں، مچھلی، گائے کا گوشت، مٹن، انڈے، گڑ، مصالحے، سبزیاں، لال مرچ، دوائیں، مٹی کا تیل، چاول ، گندم، آٹا، کیمیکل کھاد، پولٹری فوڈ، سرجیکل دستانے، چہرے کے ماسک، این 95 ماسک، سینیٹائزر، سطح صاف کرنے والی مصنوعات، کیڑے مار ادویات، ماچس اور آئسوپروپل الکوحل شامل ہیں، ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی پر3 سال قید اورمال کی بحق سرکار ضبطگی کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

میرے خیال میں اس آرڈیننس کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیوں کہ اس ملک میں جتنے مرضی آرڈیننس بنوا لیں جب تک ان پر عمل درآمد نہیں ہوگا تب تک یہ تمام پریکٹس بے سود رہے گی۔ نادر شاہ دلّی میں تھا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی! دوا کے طور پرگل قند کھلائی گئی! کہنے لگا : ''حلوائے خوب است! دیگر بیار!'' کہ مزیدار حلوہ ہے! اور لائو! لہٰذاہمارے ہاں طاقتور طبقہ بھی اس طرح کے آرڈیننس کو ''حلوہ'' سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ اور لے آئو، جتنے مرضی آرڈیننس لے آئو کوئی مائی کا لال بال بھی بھی کا نہیں کر سکتا۔بلکہ ان آرڈیننس کا بسااوقات بڑے طبقے کو فائدہ ہو جاتا ہے جب کہ چھوٹے تاجر اس کی زد میں آجاتے ہیں۔لہٰذایہ آرڈیننس ، وزیر اعظم کی تقریر یا بڑوں پر ہاتھ ڈالنے کے بڑے بڑے دعوے صرف مولا جٹ ، یا نوری نت جیسی فلموں کے دعوے تو ہو سکتے ہیںمگر ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

لہٰذاجب مجرم کو حکومت کی رٹ کا خوف ہی نہیں ہوگا تب تک یہ آرڈیننس کسی کام کا نہیں ہے۔کیوں کہ میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ کئی سال تک ان مجرموں کو سزا ہی نہیں ہوگی، اور جب سزا کا وقت آئے گا اُس وقت تک تو گواہ بھی مرجائیں گے، کئی جج بھی تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ یا ریکارڈ کو آگ لگ جائے گی ! خدارا بہلائیں ناں! 25جولائی کو دو تین دن رہ گئے ہیں جب آٹا چینی بحران کی فرانزک رپورٹ آنے والی ہے، جو ذمے داران ہوں انھیں یقینی سزا دیں۔ یہاں کاغذوں میں توملک میں ایک ہی قاعدہ قانون ہے لیکن اس کا اطلاق دونوں طبقوں کے لیے یکساں نہیں۔

ملک کی نصف سے زیادہ آبادی انتہائی غریب افراد پر مشتمل ہے۔یہ لوگ بمشکل زندہ ہیں' زیادہ تر ناخواندہ ہیں۔ قانون کا ہونا نہ ہوناغریب آبادی کے لیے بے معنی ہے۔یہ نہ وکیلوں کی فیسیں ادا کرسکتے ہیں نہ عدالتوں کی۔ جس انگریزی زبان میں قانونی کارروائی ہوتی ہے وہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ وہ تو اْردو بھی نہیں پڑھ سکتے ' صرف سن کر سمجھ سکتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ قانون ایسا ہونا چاہیے کہ جسے جتنا ممکن ہو آسانی سے سمجھا جاسکے' واضح ہو اور اس کی سب تک رسائی ہو۔ ہمارا نظام اس کے برعکس ہے۔ یہ لسانی امتیاز کی ایک بدترین شکل ہے۔

گزشتہ برس قصور میں کم سن بچی زینب گم ہوئی اور بعد میں مردہ پائی گئی۔ پولیس نے اس وقت تک مقدمہ درج نہیں کیا اور لڑکی کی تلاش شروع نہیں کی جب تک لوگوں نے سڑکوں پر آکرپر تشدد احتجاج نہیں کیا۔میڈیا نے واویلا کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان نے پولیس کو ہدایات دیں تواس نے سنجیدگی سے تفتیش شروع کی حالانکہ یہ اس کی نارمل ڈیوٹی تھی۔ایسی متعدد مثالیں ہیں۔

کراچی میں سات برس پہلے مشہور شاہ زیب قتل کیس اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اُصول یہ ہے کہ ریاست شہریوں کو ایسے ذرایع لازمی طور پر مہیا کرے جن سے ایسے دیوانی جھگڑے کم خرچ پر اور غیر ضروری تاخیر کے بغیر حل کیے جائیں جنھیں فریقین آپس میں طے نہ کرسکتے ہوں۔ تخمینہ ہے کہ اوسطاً ہر سال ہمارے پانچ لاکھ تعلیم یافتہ لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رْخ کرتے ہیں۔یہ لوگ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیںلیکن وہ ترجیح دیتے ہیں کہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکا' یورپ' آسٹریلیا اور کنیڈا ہجرت کرجائیں جہاں قانون اور اس کا اطلاق سب کے لیے یکساں اور موثر ہے' میرٹ کا نظام ہے' سفارش اور رشوت خوری عام نہیں۔

لہٰذاملک میں کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے دیکھا جائے کہ اُس سے پہلے کوئی قانون موجود ہے یا نہیں، اگر موجود ہے تو اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا رہا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو یقینا ہماری قوانین کو عملی جامہ پہنانے والی اتھارٹیز کمزور ہیں، اس لیے جناب وزیر اعظم: قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد کروانے والوں کو تگڑا کیا جائے۔ قانون بنانے کے بجائے، پہلے سے موجود قوانین میں ترمیم کریں کہ ایک ماہ کے اندر اندر فیصلہ ہوگا۔یا ایسے اقدامات کے لیے اسپیشل کورٹس بنائی جائیں، اور کورٹس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکتی ہو۔

اب مذکورہ آرڈیننس کے مطابق ذخیرہ اندوزی والے آرڈیننس کے تحت سمری ٹرائل مجسٹریٹ کریں گے جب کہ اسمگلنگ کے خلاف سمری ٹرائل خصوصی جج کریں گے جنھیں چیف جسٹس کی مشاورت سے تعینات کیا جائے گا۔یعنی وہی پرانا نظام اور وہی پرانی قانون سازی۔

بہرکیف ہمارے ملک میں ایک طبقہ ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتا رہتا ہے لیکن قانون کی حکمرانی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت کا مطلب صرف یہ ہے کہ ووٹوں کے ذریعے حکمرانوں کا انتخاب کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات جمہوری نظام کا صرف ایک جْز ہیں 'کْل نہیں۔اگر ہم واقعی اس ملک میں نظام چاہتے ہیں تو شہریوں کو قانون کے یکساں اطلاق اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی۔جو Implimentationپر ہی منحصر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔