تعلیمی اداروں اور مساجد کے قریب شراب خانے نہ کھولے جائیں
زبانی باتیں نہ کریں، قانون پیش کریں جس کے تحت شراب خانے کھولے گئے، جسٹس محمد علی
ISLAMABAD:
سندھ ہائی کورٹ نے شراب خانوں کو لائسنس جاری کرنے کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت، محکمہ ایکسائز اور دیگر اداروں سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو شراب خانوں کو لائسنس کے اجرا کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کن شرائط پر شراب خانوں کو لائسنس جاری کیے جاتے ہیں؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ جواد ڈیرو نے موقف اختیار کیا کہ تعلیمی اداروں، مساجد اور مدارس کے قریب شراب خانے کھولنے کا لائسنس جاری نہیں کیا جاتا، سندھ میں شراب خانے کے لائسنس قانون کے مطابق جاری کیے جاتے ہیں، حدود آرڈیننس کے آرٹیکل 17 کے تحت لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے زبانی باتیں نہ کریں پہلے بھی کہا تھا وہ قانون پیش کریں جس کے تحت شراب خانے کھولے گئے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے جو لائسنس جاری کیا گیا وہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟ تعلیمی اداروں ، مساجد اور مدارس کے قریب شراب خانے نہیں کھلنے چاہئیں۔
ڈائریکٹر ایکسائز نے بتایا کہ لائسنس جاری کرنے سے پہلے ان ساری چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے، شراب خانہ وہاں کھولنے کی اجازت ہے جہاں غیر مسلم آبادی رہائش پذیر ہو، ڈیفنس میں جس شراب خانے کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے اسے 1985 میں لائسنس جاری کیا گیا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 1985 اور 2020 کے ڈیفنس میں بہت فرق ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ شراب خانوں پر مستقل پابندی کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے معطل کر رکھا ہے، عدالت نے سندھ حکومت، محکمہ ایکسائز اور دیگر اداروں سے تفصیلی رپورٹ اور سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقول بھی 29 اپریل کو طلب کرلی۔
سندھ ہائی کورٹ نے شراب خانوں کو لائسنس جاری کرنے کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت، محکمہ ایکسائز اور دیگر اداروں سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو شراب خانوں کو لائسنس کے اجرا کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کن شرائط پر شراب خانوں کو لائسنس جاری کیے جاتے ہیں؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ جواد ڈیرو نے موقف اختیار کیا کہ تعلیمی اداروں، مساجد اور مدارس کے قریب شراب خانے کھولنے کا لائسنس جاری نہیں کیا جاتا، سندھ میں شراب خانے کے لائسنس قانون کے مطابق جاری کیے جاتے ہیں، حدود آرڈیننس کے آرٹیکل 17 کے تحت لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے زبانی باتیں نہ کریں پہلے بھی کہا تھا وہ قانون پیش کریں جس کے تحت شراب خانے کھولے گئے ہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے جو لائسنس جاری کیا گیا وہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟ تعلیمی اداروں ، مساجد اور مدارس کے قریب شراب خانے نہیں کھلنے چاہئیں۔
ڈائریکٹر ایکسائز نے بتایا کہ لائسنس جاری کرنے سے پہلے ان ساری چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے، شراب خانہ وہاں کھولنے کی اجازت ہے جہاں غیر مسلم آبادی رہائش پذیر ہو، ڈیفنس میں جس شراب خانے کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے اسے 1985 میں لائسنس جاری کیا گیا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 1985 اور 2020 کے ڈیفنس میں بہت فرق ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ شراب خانوں پر مستقل پابندی کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے معطل کر رکھا ہے، عدالت نے سندھ حکومت، محکمہ ایکسائز اور دیگر اداروں سے تفصیلی رپورٹ اور سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقول بھی 29 اپریل کو طلب کرلی۔