ناراض ارکان اسمبلی راضی اپوزیشن کو پھر ناکامی
ناراض وزراء سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے براہ راست مذاکرات
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف بغاوت کرنے والے اُنکی اپنی جماعت کے4 وزراء نے اپنے تحفظات دور کئے جانے کی یقین دہانی کے بعد ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرکے متحدہ اپوزیشن کی اُمیدوں پر ایک مرتبہ پھر پانی پھیر دیا ہے۔
ناراض وزراء سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے براہ راست مذاکرات سینیٹر احمد خان خلجی کی رہائش گاہ پر ان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں ہوئے جہاں ناراض وزراء نے اپنی شکایات اور گلے شکوے وزیراعلیٰ جام کمال کے سامنے رکھے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اُن کی شکایات کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف گذشتہ ہفتے اچانک پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں دو ڈویژنوں کے ارکان اسمبلی کی جانب سے تحفظات اور شکایات نے ہلچل مچادی جس کا متحدہ اپوزیشن نے بھی بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کردیا اور بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کیلئے06 اپریل کو جمع کرائی گئی ریکوزیشن پر عملدرآمد کیلئے زور بڑھا دیا۔
صوبائی اسمبلی کے سیکرٹری پہلے ہی ٹیکنیکل بنیادوں پر اجلاس کے انعقاد سے معذوری ظاہر کرچکے تھے اور اپوزیشن کی جانب سے دن بدن بڑھتے ہوئے دباؤ پر ایک ماہ کے نوٹس پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کرچکے تھے جس کی معیاد مئی میں پوری ہورہی ہے۔ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجوخود میدان میں آئے اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ سے ملاقات کے دوران اسمبلی اجلاس کے انعقاد کی ریکوزیشن واپس لینے کی گزارش کی لیکن اپوزیشن جماعتوں نے انکار کر دیا جس پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس ریکوزیشن کو مسترد کردیا ۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سے ناراض ارکان اسمبلی کی ملاقاتوں میں معاملات حل ہونے کی اطلاع کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی صفوں میں بھی مایوسی چھا گئی۔ اپوزیشن رکن نواب اسلم رئیسانی نے ایک بیان میں وزیراعلیٰ جام کمال اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلوچستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو پر تشویش کا اظہار کیا۔ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اسمبلی اجلاس کی درخواست کو مسترد کرنے پر اسے عوام کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلوچستان میں جب بھی تبدیلی آئی تو اپوزیشن جماعتیں ہی لائیں گی۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے میں اس وقت مافیا قابض ہے وزیراعلیٰ جام کمال ڈان نہیں تو مافیا ضرور ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے میں کرونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
سیاسی حلقوں میں اس وباء سے بچنے کیلئے حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دیا جارہا ہے جبکہ لاک ڈاؤن کی صورتحال بھی حکومتی رٹ سے باہر نکلتی جا رہی ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت کو فوری طور پر لاک ڈاؤن کو سخت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ آنے والے دنوں میں کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں یہ وائرس قیامت صغریٰ برپا کر سکتا ہے۔ سیاسی حلقوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے اقدام پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے ان حلقوں کے مطابق بیرون ملک سے1800 پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کا اقدام غیر سنجیدگی ہے حکومت مزید یورپی ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو لانے کا جو ارادہ رکھتی ہے اُس پر اسے نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ان حلقوں کے مطابق وطن واپس آنے والے ان 1800 افراد کا کوئی ڈیٹا نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ڈیٹا صوبائی حکومتوں کو دیا گیا ہے یہ1800 افراد وطن واپس آنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں ان کی اسکریننگ بھی کی گئی ہے یا نہیں اس حوالے سے بھی سب لاعلم ہیں جو کہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔
وفاقی حکومت کے اس غیر سنجیدہ اقدام نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کردیا ہے اور مزید پھنسے پاکستانیوں کو یورپ اور دیگر ممالک سے لانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ فاقی حکومت کے اس فیصلے کو اس لئے بھی غیر سنجیدہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اُس نے چائنا میں پھنسے طلباء کے حوالے سے اُس وقت انہیں وطن واپس لانے سے انکار کردیا تھا اور چین میں حالات بہتر ہونے کے بعد اپنے اس فیصلے پر داد وصول کی تھی لیکن اب اُس نے دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانا شروع کردیا ہے اور اس کیلئے کوئی مربوط پالیسی بھی وضح نہیں کی نہ ہی ایسی سہولیات اور بندوبست کیا ہے جس میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان کی کوئی اسکریننگ وغیرہ کی ہو اور ڈیٹا مرتب کیا ہو جس سے یہ وباء پورے ملک میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت کا چین میں پھنسے ہوئے طلباء کے حوالے سے فیصلہ درست تھا یا اب جو کچھ وہ کر رہی ہے وہ درست ہے؟۔ملک کے22 کروڑ عوام اُس سے اس سوال کا جواب مانگنے پر حق بجانب ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق پہلے ہی وفاقی حکومت تفتان بارڈر سے زائرین کے پاکستان میں داخلے کے معاملے کا ملبہ بلوچستان حکومت پر ڈال چکی ہے حالانکہ سرحدوں کے حوالے سے فیصلے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے نہ کہ صوبائی حکومت کے پاس۔ تفتان بارڈر کے حوالے سے بلوچستان حکومت اپنی صفائیاں دے تو رہی ہے لیکن اس حوالے سے اُسے زبردست تنقید کا بھی سامنا ہے اور اب وفاقی حکومت نے صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر بیرون ممالک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں سے ہمدردی ہے لیکن ا س کیلئے حکومت کی جانب سے مربوط پالیسی اور بندوبست نہ کرنے پر سخت تشویش ہے جس کا وہ مرتکب ہورہی ہے اور اس غیر سنجیدگی کا ملبہ بھی صوبوں پر ڈال دے گی؟
ناراض وزراء سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے براہ راست مذاکرات سینیٹر احمد خان خلجی کی رہائش گاہ پر ان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں ہوئے جہاں ناراض وزراء نے اپنی شکایات اور گلے شکوے وزیراعلیٰ جام کمال کے سامنے رکھے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اُن کی شکایات کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف گذشتہ ہفتے اچانک پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں دو ڈویژنوں کے ارکان اسمبلی کی جانب سے تحفظات اور شکایات نے ہلچل مچادی جس کا متحدہ اپوزیشن نے بھی بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کردیا اور بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کیلئے06 اپریل کو جمع کرائی گئی ریکوزیشن پر عملدرآمد کیلئے زور بڑھا دیا۔
صوبائی اسمبلی کے سیکرٹری پہلے ہی ٹیکنیکل بنیادوں پر اجلاس کے انعقاد سے معذوری ظاہر کرچکے تھے اور اپوزیشن کی جانب سے دن بدن بڑھتے ہوئے دباؤ پر ایک ماہ کے نوٹس پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کرچکے تھے جس کی معیاد مئی میں پوری ہورہی ہے۔ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجوخود میدان میں آئے اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ سے ملاقات کے دوران اسمبلی اجلاس کے انعقاد کی ریکوزیشن واپس لینے کی گزارش کی لیکن اپوزیشن جماعتوں نے انکار کر دیا جس پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس ریکوزیشن کو مسترد کردیا ۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سے ناراض ارکان اسمبلی کی ملاقاتوں میں معاملات حل ہونے کی اطلاع کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی صفوں میں بھی مایوسی چھا گئی۔ اپوزیشن رکن نواب اسلم رئیسانی نے ایک بیان میں وزیراعلیٰ جام کمال اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بلوچستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو پر تشویش کا اظہار کیا۔ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اسمبلی اجلاس کی درخواست کو مسترد کرنے پر اسے عوام کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلوچستان میں جب بھی تبدیلی آئی تو اپوزیشن جماعتیں ہی لائیں گی۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے میں اس وقت مافیا قابض ہے وزیراعلیٰ جام کمال ڈان نہیں تو مافیا ضرور ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے میں کرونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
سیاسی حلقوں میں اس وباء سے بچنے کیلئے حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دیا جارہا ہے جبکہ لاک ڈاؤن کی صورتحال بھی حکومتی رٹ سے باہر نکلتی جا رہی ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت کو فوری طور پر لاک ڈاؤن کو سخت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ آنے والے دنوں میں کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں یہ وائرس قیامت صغریٰ برپا کر سکتا ہے۔ سیاسی حلقوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے اقدام پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے ان حلقوں کے مطابق بیرون ملک سے1800 پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کا اقدام غیر سنجیدگی ہے حکومت مزید یورپی ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو لانے کا جو ارادہ رکھتی ہے اُس پر اسے نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ان حلقوں کے مطابق وطن واپس آنے والے ان 1800 افراد کا کوئی ڈیٹا نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ڈیٹا صوبائی حکومتوں کو دیا گیا ہے یہ1800 افراد وطن واپس آنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں ان کی اسکریننگ بھی کی گئی ہے یا نہیں اس حوالے سے بھی سب لاعلم ہیں جو کہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔
وفاقی حکومت کے اس غیر سنجیدہ اقدام نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کردیا ہے اور مزید پھنسے پاکستانیوں کو یورپ اور دیگر ممالک سے لانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ فاقی حکومت کے اس فیصلے کو اس لئے بھی غیر سنجیدہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اُس نے چائنا میں پھنسے طلباء کے حوالے سے اُس وقت انہیں وطن واپس لانے سے انکار کردیا تھا اور چین میں حالات بہتر ہونے کے بعد اپنے اس فیصلے پر داد وصول کی تھی لیکن اب اُس نے دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانا شروع کردیا ہے اور اس کیلئے کوئی مربوط پالیسی بھی وضح نہیں کی نہ ہی ایسی سہولیات اور بندوبست کیا ہے جس میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان کی کوئی اسکریننگ وغیرہ کی ہو اور ڈیٹا مرتب کیا ہو جس سے یہ وباء پورے ملک میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت کا چین میں پھنسے ہوئے طلباء کے حوالے سے فیصلہ درست تھا یا اب جو کچھ وہ کر رہی ہے وہ درست ہے؟۔ملک کے22 کروڑ عوام اُس سے اس سوال کا جواب مانگنے پر حق بجانب ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق پہلے ہی وفاقی حکومت تفتان بارڈر سے زائرین کے پاکستان میں داخلے کے معاملے کا ملبہ بلوچستان حکومت پر ڈال چکی ہے حالانکہ سرحدوں کے حوالے سے فیصلے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے نہ کہ صوبائی حکومت کے پاس۔ تفتان بارڈر کے حوالے سے بلوچستان حکومت اپنی صفائیاں دے تو رہی ہے لیکن اس حوالے سے اُسے زبردست تنقید کا بھی سامنا ہے اور اب وفاقی حکومت نے صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر بیرون ممالک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں سے ہمدردی ہے لیکن ا س کیلئے حکومت کی جانب سے مربوط پالیسی اور بندوبست نہ کرنے پر سخت تشویش ہے جس کا وہ مرتکب ہورہی ہے اور اس غیر سنجیدگی کا ملبہ بھی صوبوں پر ڈال دے گی؟